بدفعلی کے بڑھتے ہوئے واقعات۔۔۔۔اسباب ، وجوہات اور سدباب

کیا ان درندوں کو انسان کہا جاسکتا ہے جنہوں نے ایک ننھی کلی کو اپنے شیطانی ہاتھوں سے مسل ڈالا۔ دوٹانگوں والے درندوں نے اس ننھی کلی کی عصمت لوٹ لی۔ وہ شکل میں تو انسان ہوگا تاہم میں اس کو انسان تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اس درندگی پر خودانسانیت سر چھپائے پھررہی ہے۔ درندوں نے پانچ سالہ بچی اور اس کا تین سالہ کزن اغوا کیا ۔ بچی کواپنی درندگی کا نشانہ بنایا اور گنگا رام ہسپتال کے باہر پھینک گئے۔ پانچ سال کیا عمر ہے۔ اس عمر میں تو بچے اچھی طرح بول بھی نہیں سکتے ۔ ان کے ساتھ ظلم زیادتی کرنے والے کیا دل نہیں رکھتے۔ گوشت کا لوتھڑانما دل میں سوچنے سمجھنے کی صفت نہیں ہے۔ بچی کے والدین ا س کو تلاش کرتے رہے۔ بچی کی گمشدگی پر والدین نے ہربنس پورہ، مغل پورہ اور باغنپورہ پولیس سے رابطہ کیا ۔ ٹی وی چینلز پر ایک نامعلوم بچی کو زخمی حالت میں پھینکے جانے کی خبر نشرہوئی تو بچی کے والدین گنگا رام ہسپتال پہنچ گئے۔ جہاں انہوں نے اپنی بچی کو شناخت کرلیا۔ مغل پورہ پولیس نے بچی کے والد کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ ہسپتال انتظامیہ بھی حرکت میں آگئی۔ ہسپتال انتظامیہ نے بچی کو پہلے چلڈرن وارڈ میں منتقل کیا بعد میں سرجری کے لیے سروسزہسپتال منتقل کر دیا۔ سرجری کے بعد اس کو آئی سی یو وارڈ میں منتقل کر دیاگیا۔ سی سی پی او لاہور چوہدری محمد شفیق گجر نے ڈی آئی جی آپریشن رائے محمد طاہر اورایس پی آپریشن سول لائن طاہر کے ہمراہ سروسز ہسپتال کا دورہ کیا۔ بچی کی عیادت کی اس کے والدین کو یقین دلایا کہ ملزمان کو ہر صورت انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔ ملزمان کی گرفتاری کے لیے تین ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ بچی کے ساتھ اس طرح کے ظلم پر صرف اس کے گھر میں ہی نہیں ملک بھر میں سوگ کا سماں پیدا ہوگیا۔ ہم جنرل بس سٹینڈ لیہ میں ایک ہوٹل میں بیٹھے چینلز پر خبریں سن رہے تھے کہ یہی خبر نشر ہوئی تو ہوٹل میں بیٹھے ہوئے افراد کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر توبہ توبہ کرنے اور استغفار پڑھنے لگ گئے۔ اس خبر کو جس نے بھی پڑھا یا سنا اس کا دل ضرور پسیج گیا۔ انسانوں کے سینوں میں اگر گوشت کا دل نہ ہوتا ۔ نہ جانے ان درندوں کا دل کس چیز سے بنا ہے کہ انہوں نے اتنا بڑا ظلم کرڈالا۔ خدانخواستہ یہ ظلم اور درندگی موقع پر کوئی دیکھ لیتا تو میرا یقین ہے وہ برداشت نہ کر سکتا ۔ وہ صدمہ سے ہی قبر میں پہنچ جاتا۔ ان ظالموں کو اس کا ادراک ہویا نہ ہوبچی کے ساتھ یہ ظلم ایک وقت کے لیے نہیں عمر بھر کے لیے ہو گیا ہے۔ نفسیاتی معالج کہتے ہیں کہ جسمانی طور پر بچی صحت مند بھی ہوگئی تو اس کو ذہنی طور پرٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔ ان کے مطابق یہ معصوم بچی جس گہرے صدمے سے گزری ہے۔ صحت یاب ہونے کے بعد بھی اس کی ذہنی حالت متاثر ہوگی۔ لاہور میں درندگی کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں۔ تاندلیانوالہ میں پانچ افراد نے آٹھ سالہ بچی کے ساتھ اجتماعی گینگ ریپ کیا۔ تھانہ گڑھ کے علاقے گنجوانی کی آبادی حسین آباد جامع مسجد کے باہر آٹھ سالہ بچی خون میں لت پت بیہوشی کی حالت میں پڑی تھی۔ جس کو راہگیروں نے اٹھاکر رورل کئیر سنٹر پہنچادیا۔ حالت تشویش ناک ہونے کی وجہ سے اسے تحصیل ہیڈ کوارٹر تاندلیانوالہ پہنچادیا گیا۔ بچی نے ہوش میں آنے کے بعد سہمی ہوئی حالت میں اپنا نام بتایا اور پولیس نے اس کے بیان کے مطابق پانچ نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ عارف والامیں درندہ صفت شیطان نے نوعمر قرآن پاک کی حافظہ کی عصمت برباد کرنے کی کوشش کی۔ یہ قرآن پاک کی حافظہ نابینا بھی ہے۔ تاہم اس کی عزت عوام کے آنے سے محفوظ رہی۔ لاہور کے بعد قصور ،فیصل آباد میں چھ معصوم بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔اوباش درندوں نے ظلم کی انتہا کردی۔ ایک جواں سال لڑکی کو مبینہ زیادتی کے بعد ہلاک کردیا گیا۔ ایک اور لڑکی حاملہ ہوگئی اس کے علاوہ دولڑکیوں اورایک لڑکے کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ گاؤں ہرچوکی کی محنت کش خاتون کے مطابق وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ ایک بھٹہ خشت پر کام کرتی ہے ۔وہاں اس کی رہائش ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھٹہ مالک کے کارندے ابرار اورعدنان اس کی جواں سال بیٹی کو اسلحہ کی نوک پر اٹھا کر اپنے ڈیرے پر لے گئے۔ دیگر ملزمان کے ہمراہ اسے زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔ بعد ازاں ملزمان نے اس کی بیٹی کو دھمکیاں دیں اور گھر سے باہر پھینک کر چلے گئے۔ یہ صورتحال دیکھ کر اپناتھوڑا بہت سامان سمیٹ کر بھٹہ سے جانے لگی تو مالک کے گن مینوں نے اسے گھیر لیا کہ اگر انہوں نے بھٹہ خشت سے جانے کا تصوربھی کیا تو ماں بیٹی کو قتل کردیا جائے گا ۔ جس پر ماں بیٹی مجبوراً وہاں رہنے لگیں۔ ملزمان نے پھر اس کی بیٹی کو اٹھایا اور اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔ اس کی بیٹی حاملہ ہوگئی ۔ وہ اسے لے کررات کے اندھیرے میں بھاگ نکلی۔ حسین خانوالہ کے قریب نامعلوم ملزمان نے ایک جواں سالہ لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے پھینک کر فرار ہوگئے۔نرمل کے ایک شخص کے مطابق ملزمان نے اس کی بیٹی کو اغوا کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔ ایک اور شخص کی بیٹی کودواوباشوں نے زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔ ساندہ چستانہ کے ایک شخص نے بتایا کہ ملزم اس کے آٹھ سالہ بیٹے کو بہلا پھسلا کر لے گیا زیادتی کرنے کے بعد بچے کو زندگی اور موت کی کشمکش میں چھوڑکر فرارہوگیا۔ کوٹلہ دیوان کے ہائی سکول لنڈی سیداں سکول کے چوکیدار توقیر حسین شاہ نے اپنے آٹھ سالہ بھائی کو ہیڈماسٹر کو کھانا دینے کے لیے بھیجا تو ہیڈماسٹر نے آٹھ سالہ بچے کو زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔ بچے نے گھر واپس آکر تمام واقعہ گھر والوں کو بتایاتو اس کے ورثاء اور اہل علاقہ نے سکول پہنچ کر ہیڈ ماسٹرپرمکوں اور تھپڑوں کی بارش کردی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں فرسٹ ایئر کی طالبہ سے پانچ اوباشوں نے زیادتی کی ۔ جس کے بعد ویڈیو بناکر بلیک میل کرتے رہے۔ ہمارے شہر لیہ میں بھی اسی وجہ سے کئی لڑکے قتل ہوچکے ہیں۔ لاہور میں ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی تحقیقات اور اس کا علاج جاری ہے۔ دردمند انسان اس سکتے سے ابھی باہر نہیں آئے کہ اس طرح کا ایک اور شرمناک واقعہ ہوگیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق سندر کے علاقہ میں ایک بھٹہ مزدور کی بیٹی گھر سے باہر کھیل رہی تھی کہ منشیات کا عادی ایک اور بھٹہ مزدور اسے ورغلا کر کھیتوں میں لے گیا اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بچی کی چیخ وپکار پر لوگ جمع ہوگئے۔ اوباش نے بھاگنے کی کوشش کی تاہم اہل علاقہ نے پکڑ لیا۔ اور چھترول کے بعد پولیس کے حوالے کردیا۔ تھر پارکر کی تحصیل چھاچھرو میں ملزمان نے پندرہ سالہ لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اور اس مکروہ کام کی ویڈیو بھی بنالی۔ تاندلیانوالہ میں خانہ بدوش کی بارہ سالہ بیٹی کنجوانی اسٹیشن کے قریب کاغذ اکٹھے کررہی تھی کہ ملزمان قریبی فصل میں لے گئے اور زیادتی کے بعد پھینک گئے۔ بھکر میں چھٹی جماعت کی طالبہ کو پڑوسی گھر میں لے جاکر زیادتی کا نشانہ بنایا۔ کامونکے میں پندرہ سالہ مسیح لڑکی کو اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ شیخوپورہ میں بارہ سالہ گھریلو ملازمہ کو زمیندار کے بیٹے نے حوس کا نشانہ بنایا۔

یہ تو وہ واقعات ہیں جو صرف دودن میں اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اپنی شیطانی ہوس کو مٹانے کے لیے ۔ ہمارے ملک میں یہ جرم آج سے نہیں ۔ لاہور کی پانچ سالہ ننھی کلی سے نہیں عرصہ دراز سے ہورہا ہے۔ اس کے خلاف قانون بھی موجود ہے۔ قانون پر عمل کرانے والے بھی۔اب تک کتنے فیصد ملزمان پکڑے گئے اور کتنے فیصد کو سزا ہوئی ۔ اس کے بارے میں تھانوں اور عدالتوں سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ شرح بہت کم ہے۔ درندے اوباش اس طرح یہ جرم کر جاتے ہیں کہ ان کو کسی قسم کا خوف ہی نہیں ہوتا۔ پے درپے اس طرح کے شرمناک واقعات ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہم نے تو معاشرہ کی اس بے راہ روی کے بارے میں آج سے دس سال پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ بے راہ روی کا دوردورہ ہے۔ اس وقت ہماری بات پر کسی نے توجہ نہ دی۔ ہمیں مخلصانہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ مذہب پر نہ لکھا کرولوگ نہیں پڑھتے۔ مذہب کو نشانہ بنانے والے دانشور اور تنقید کرنے والے عقل مند بتائیں کیا ایسے واقعات اسلام یا کسی مذہب کی وجہ سے ہیں۔ کیا کوئی مذہب کوئی مسلک کوئی فرقہ اس طرح کے قبیح حرکات کی اجازت دیتا ہے۔ کیا کسی مذہبی شخصیت یا رہنما نے اس طرح کے کاموں کی ترغیب دی ہے؟مذہب تو ایسے کاموں سے روکتا ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے ہر جرم کی سزا مقرر کر رکھی ہے۔ ہمارے ملک کے قانون میں بھی ہر جرم کی سزا مقرر ہے۔ اسلام نے یہ سزائیں اس لیے نہیں رکھیں کہ اسے انسانوں سے دشمنی ہے۔یہ سزائیں عبرت اور جرائم کے انسداد کے لیے ہیں۔ اسلام سے اعتراض ہے تو ملکی قوانین کے مطابق ہی مجرمان کو سزا مل جاتی تو جرئم میں کمی ہوتی ۔ اضافہ نہ ہوتا۔ ملک میں ایڈز کا مرض بھی اسی وجہ سے پھیل رہا ہے۔

اس درندگی پر وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم نے بھی نوٹس لیا ہے۔ شہباز شریف نے سی سی پی اولاہور کو ہدایت کی ہے کہ بچی سے زیادتی کے ملزمان کو گرفتار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اصل ملزمان پکڑے جائیں بے گناہوں کو تنگ نہ کیا جائے۔ نوازشریف نے بھی آئی جی پنجاب سے لمحہ لمحہ رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے بھی نوٹس لے لیا۔ پورا ملک بشمول سول سوسائٹی سراپا احتجاج بن گئی۔ اس درندگی پر افسوس اور غم کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا جب تک مجرمان کو عبرتناک سزا نہیں دی جائے گی ایسے واقعات نہیں رک سکتے۔ مسلم لیگ ن کی رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر عاصمہ ممدوٹ نے کہا اگر ایسی درندگی کرنے والوں کو سزا دی جائے گی تو ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے۔ عالم دین مفتی راغب نعیمی نے کہا کہ انڈین چینلز نے ہمارے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ہمارا فیملی سسٹم تباہی کا شکار ہے۔ زندگی کے لوازمات کے لیے گھر کا سربراہ گھر سے باہر رہتا ہے نتیجے میں بچے باہر کی غلط سوسائٹی کو اختیار کر لیتے ہیں۔ معروف نفسیاتی معالج پروفیسر علی ہاشمی کہتے ہیں یہ جرم ایسے لوگ کرتے ہیں جو مجرمانہ ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔ یا جو نشہ آور ادویات استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فرزانہ باری نے کہا ایسے واقعات بیمار معاشرے کی علامت ہیں۔ عورت فاؤنڈیشن کی رہنما ممتا ز کا کہنا تھا کہ جرائم میں اضافے کی وجہ لا قانونیت ہے۔ سول سوسائٹی سمیت معاشرہ کے سرکردہ افرادن کی جانب سے کم سن بچی کے ساتھ اس درندگی کے خلاف احتجاج بھی ہوئے ہیں۔ اس میں صحافی بھی شامل ہیں۔ لاہور میں سول سوسائٹی اور پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے زیراہتمام چئیرنگ کراس پر این جی اوزنے پانچ سالہ بچی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جس میں ساؤتھ ایشیاء پارٹنر شپ کے محمد تحسین، عرفان مفتی ، نسرین، عورت فاؤنڈیشن کی نبیلہ شاہین ، سائرہ، ایس پی او کی شازیہ شاہین ، آمنہ ملک ،عبداﷲ ملک اور پنجاب یونین آف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری رانا عظیم نے لاہور میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بھیانک فعل اور معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک قانون میں تبدیلی لاکر مجرموں کی اعانت اور پیروی کرنے والے افراد کی ایسے مجرمانہ فعل میں اعانت نہیں روکی جاتی۔ تب تک ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ کراچی ، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، گجرات ، فیصل آباد، ننکانہ صاحب اور لیہ میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اور مجرموں کو سرعام پھانسی کامطالبہ کیا گیا۔

آئی جی پنجاب نے بچی زیادتی کیس میں پیش رفت کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی۔ وزیراعظم نے ملزمان گرفتار نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب تک ملزمان کیوں گرفتار نہیں ہوئے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ ملزموں کو فوری گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ آئی جی پنجاب نے دوصفحات پر مشتمل بچی سے زیادتی سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں بھی جمع کرادی ۔ وزیراعلیٰ ہر گھنٹے بعد رپورٹ لے رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے بھی از خود نوٹس لے لیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ احتجاجی مظاہرے کرنے سے ، سڑکوں پر جلوس نکالنے سے، اخبارات میں خبریں اورآرٹیکل شائع کرنے سے، مذمتی بیان جاری کرنے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ کیا ایسا سب کچھ کرنے سے بچوں ، بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات روکے جاسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتاتو لاہور میں پانچ سالہ ننھی کلی کے ساتھ درندگی کے واقعہ کے بعد ملک میں اور کوئی اس طرح کا گھٹیا واقعہ نہ ہوتا۔ اس کے بعد نیوز چینلز نے اس خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا ۔ اخبارات میں نمایاں کوریج دی گئی۔ وزیراعظم نے نوٹس لیا ۔ وزیر اعلیٰ نے بھی نوٹس لیا۔ یہ سلسلہ رکنا تو درکنار اس میں اضافہ ہوگیا۔میڈیا کی کوریج نے اوباشوں کو ایسا کرنے کی جسارت کرنے کی ترغیب دی ہے یا بچی کے ملزمان کی عدم گرفتاری یہ سب کچھ کرارہی ہے۔ اب تو اس بچی کا کیس مزید الجھتا جارہا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہانی بدلتی جارہی ہے۔ اس شرمناک کام کو اب تو پاکستان میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہ شرمناک کام آج سے نہیں کئی دہایؤں سے ہورہا ہے۔ کسی نے اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ اس سلسلہ میں صرف اور صرف مذہبی شخصیات کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ کام تو کالجوں، سکولوں، ہسپتالوں، پارکوں، دکانوں اور بہت سی جگہوں پر بھی ہورہا ہے۔ کالجوں او ر یونیورسٹیوں میں یہ کام بہت ہورہا ہے۔ مولوی ہو یا روشن خیال کسی کو بھی ایسا کرنے کی کہیں بھی اجازت نہیں ہے۔ قانو ن سب کے لیے برابر ہے۔ جو جرم کرے اس کی تحقیقات کے بعد جو مجرم ثابت ہوجائے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ ہمیں اس کی وجوہات بھی دیکھنا ہوں گی کہ کہیں ہم خود ہی اس شرمناک کام کی مدد اور اس کی ترغیب میں شامل تو نہیں ہیں۔ اسلام نے مرد کو نگاہیں نیچی رکھنے اور عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ مرد کی نظر عورت پر اور عورت کی نظر مرد نہ پڑے تو شیطان آسانی سے حملہ نہیں کرسکتا۔ جس معاشرے میں عورت کے گھر میں بیٹھنے کو قید خانہ سے تعبیر کیا جائے او ر پردے پر بھی تنقید کی جائے ۔ وہاں پانچ سالہ بچی سے درندگی ہوجائے تو اس پر تنقید سے پہلے اپنے رویہ اور طرز عمل پر دو حرف بھیجنا لازمی ہوجاتا ہے۔ اس شرمنا ک کام میں ہم پاکستانی ہی شامل ہیں۔ اسی سے نوے کی دہائی میں وی سی آر کا دور تھا۔ ان میں جوفلمیں دیکھی جاتی تھیں ان میں گینگ ریپ کی فلمیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جو بچے اس وقت ایسی فلمیں دیکھا کرتے تھے ۔ ان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے تھے کیا کوئی روشن خیال یہ بتا سکتا ہے۔ آج بدفعلی کے بڑھتے ہوئے واقعات انہی فلموں کے دیکھنے کا نتیجہ ہی ہیں ۔ جرائم کی روک تھام انتظامیہ کی مدد سے حکومت کاکام ہے۔ اور اسی سے نوے کی دہائی میں اس وقت کی حکومتوں نے ایسی فلموں کو نہ روک کر اورا ن پر پابندی نہ لگا کراس میں معاونت کی ہے۔ اس وقت ہفتہ مہینہ کے بعد وی سی آر کرایہ پر لیا جاتا اور بستی یا محلہ کے افراد کسی ایک جگہ پر ایسی فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ اب تو موبائل کارڈ میں سب کچھ دیکھا جارہا ہے۔ اب تو وی سی آر کا کرایہ بھی نہیں دینا پڑتا۔ انڈین او ر پاکستانی چینلز پر جو کچھ ہورہا ہے ۔ یہ کون نہیں جانتا۔ کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم جرائم کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں ان کوروکنا نہیں۔ جو لوگ پانچ سالہ بچی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ حکومت فلموں کے دیکھنے پر پابندی لگا دے اور اشتہاروں میں عورت کی نمائش اور ڈانس پر پابندی لگا دی جائے تو یہی لوگ پھر بھی سڑکوں پر ہوں گے کہ عوام سے تفریح چھین لی گئی ہے۔ پاکستان کے ایک بڑے شہر میں غیر ملکی سفارتخانے میں ہم جنس پرستوں کی کانفرنس بھی ہوچکی ہے۔ ہم نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی کہا تھا کہ خدارا ملک کو ایک نئے عذاب سے بچا لیں۔ ان تک ہماری بات نہیں پہنچی یا انہوں نے توجہ نہیں دی ۔ اس کے ایک ماہ بعد ملک میں ڈینگی نے حملہ کردیا تھا۔ ہم وزیراعظم نواز شریف سے بھی کہتے ہیں کہ وہ یہ معاملہ ایک کیس تک محدود نہ رکھیں۔ بدفعلی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجوہات اور روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ نکاح کو مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ آج کے دور میں شادی کرنا کشمیر فتح کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔ اس پر بھی ہم اپنے کسی آرٹیکل میں بات کریں گے۔ اس وقت یہ کہنا ہے کہ ان وجوہات پر غور کرنے سے معاملہ سمجھ آجائے گا۔ برائی کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے وہ اس کے سدباب کے لیے موثر اقدامات کرے۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351118 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.