حجاب: مسلم خاتون کی پہچان

اسلام کے جو شعائر اورخاص علامات ونشانیاں اسلام دشمنوں کی آنکھوں میں خار بن کرکھٹکتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز’’حجاب‘‘ بھی شامل ہے جو مسلمان عورت کی عزت وشرافت اور طہارت وپاکدامنی کا ضامن ہونے کے ساتھ بجائے خود ایک اہم حکم الٰہی کی بجاآوری بھی ہے، جبکہ مغربی اباحت پسندمعاشرہ جس میں ننگاپن کوئی انوکھی اور بے حیائی کی چیز نہیں سمجھی جاتی اس لئے انہیں ’’حجاب‘‘ سے خار محسوس ہوتی ہے اور وہ اس کی توہین وتضحیک کرکے اپنی بے حیائی اور عریانیت کی گندگی کو کچھ کم کرناچاہتے ہیں۔ پھر جب سے ان کی طرف سے اس اسلامی شعار ’’حجاب‘‘ کے خلاف باقاعدہ منظم منصوبے کے تحت مہم چلائی گئی تو رد عمل میں اسلام پسندوں کی طرف سے ایک خاص دین کو ’’یومِ حجاب‘‘کے عنوان سے حجاب کی یاد میں منایا جانے لگا،اگرچہ اس طرح ان کے مقابلے کی ایک شکل پائی جارہی ہے مگر اس طرح کوئی خاص دن منانابھی چونکہ اسلامی تعلیمات کی روح اور عمومی فوائد کے مطابق نہیں ہے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ’’حجاب‘‘ کے صحیح تصور کو مسلم معاشرے میں عام کیا جائے اور مسلمان عورتوں میں ’’حجاب‘‘ کی پابندی کرنے کی تحریک پیدا کی جائے ، جب مسلم معاشرہ اور مسلم خاتون اس اسلامی شعار کو اپنے عمل سے زندہ کرلے گی تو مغرب کی تمام مذموم حرکتیں ناکام ہوں گی اور اسلامی تعلیما ت پر عمل کی برکات عام ہوں گی۔ چونکہ حال ہی میں دنیا بھر میں’’یوم حجاب‘‘ منایا گیا ہے تو مناسب وقت معلوم ہوا کہ حجاب کے حوالے کچھ ضروری معلومات اور ہدایات پیش کردی جائیں تاکہ جو مرد حضرات انہیں پڑھیں وہ اپنے حلقہ اثر میں اس کا پھیلائیں اور جو خواتین پڑھیں وہ خود اس پر عمل کی ترتیب بنا لیں اور اپنے حلقہ اثر میں اس کی دعوت بھی چلاسکیں۔

عورت کے لئے اصل حکم تو یہی ہے کہ وہ گھر میں رہ کر ہی پورے اکرام و احترام اور سکون و وقار کے ساتھ اپنی خانگی و دیگر ضروریات پوری کرتی رہے۔ شرعی ضرورت کے بغیر نہ گھر سے باہر نکلے اور نہ غیر مردوں سے اختلاط کرے۔ اگر صرف بات کی ضرروت پڑ جائے تو گفتگو وغیرہ پردہ کے پیچھے رہ کر کر سکتی ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو ازواج مطہرات امہات المومنین رضی اﷲ عنہن کے بارے میں یہ ادب سکھلایا گیا:’’اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے ( دونوں کے ) دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔‘‘( سورہ احزاب )

اس آیت سے صاف پتہ چل گیا کہ عورتوں پر غیر مردوں سے پردہ میں رہنا واجب ہے اور یہی عمل دونوں کے دلوں کی پاکیزگی اور برائی سے دور رہنے کا بہترین طریقہ کار اور ایک عمدہ سبب ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ بے پردگی میں نجاست، خباثت اور برائی ہے۔اس صورتحال کے باعث اسلام نے عورت کے لئے گھر سے باہر نکلنے کی کچھ شرائط اور آداب بیان کئے ہیں جن کا لحاظ رکھنا ہر مسلمان عورت کے لئے ضروری ہے۔اسی میں ان کی عزت، کرامت، سلامتی اور پاکیزگی ہے۔ان شرائط میں سے چند ضروری شرائط درج ذیل ہیں:
(۱) گھر سے باہر نکلنا کسی حقیقی ضرورت، حاجت اور مجبوری کی وجہ سے ہو ، بلا وجہ ، بلاضرورت شرعی اور محض وقت گزاری کے لئے نہ ہو۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: اے مسلمان عورتو! تمہیں تمہاری ضروریات کے لئے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی ہے۔( بخاری و مسلم )
(۲) گھر سے باہر نکلنے کے لئے اپنے شوہر، والد، بھائی یا کسی دوسرے شرعی نگران کی اجازت لیں۔ ان میں سے کسی کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا درست نہیں ہے۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جو عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے وہ اس وقت تک اﷲ کی ناراضی میں رہتی ہے جب تک واپس گھر نہ لوٹ آئے یا اس کا خاوند اس سے راضی ہو جائے۔‘‘(الحدیث)
اے مسلمان بہن! غور کر بغیر اجازت گھر سے باہر جانا کیسا خطرناک عمل ہے۔اس سے وہ رب ناراض ہو جاتا ہے جس کے قبضے میں کل کائنات کی عزت و ذلت ہے۔اور اس کے ناراض ہو جانے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو تجھے کامیابی دلا سکے، اور اگر وہ رب راضی ہو تو کائنات کی کوئی طاقت تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
(۳) گھر سے نکلتے وقت ایسا لباس پہنا جائے جس سے ایک طرف تو دونوں پاؤں چھپ جائیں اور دوسری طرف سر پر ایسی چادر ہو جس سے سینہ ، گلا، اور سر کے بال اچھی طرح چھپ جائیں، چہرہ بھی مکمل ڈھکا ہو، پردے کا کپڑا نہ تو بہت تنگ ہو نہ بالکل باریک اور نہ اتنا چھوٹا جو پردے کے لئے ناکافی ہو، نیز پردے کا کپڑا ایسا ہو جس میں ظاہری زیب و زینت کی جھلک نہ ہو، ایسا پُرکشش نہ ہو جس سے دیکھنے والے کو خواہی نخواہی اس کی طرف میلا ن ہونے لگے اور نہ ہی اس سے خوشبو کی مہکار ہو۔قرآن کریم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اے نبی! تم اپنی بیویوں، بیٹیوں، اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے ( منہ کے ) اوپر جھکا لیا کریں۔ اس طریقے سے اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کا ستایا نہیں جائے گا اور اﷲ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔ ( الاحزاب )

اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں:
’’ اس آیت میں واضح فرما دیا کہ پردے کا حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لئے ہے۔انہیں حکم دیا گیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے لئے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو اپنے چہروں پر جھکا کر انہیں چھپا لیا کریں۔مقصد یہ ہے کہ راستہ دیکھنے کے لئے آنکھوں کو کھلا چھوڑ کر چہرے کا باقی حصہ چھپا لیا جائے اس کی صورت یہ بھی ممکن ہے کہ جس چادر سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہے اس کو چہرے پر اس طرح لپیٹ لیا جائے کہ آنکھوں سے سوا باقی چہرہ نظر نہ آئے اور یہ صورت بھی ممکن ہے کہ چہرے پر الگ نقاب ڈال لیا جائے‘‘ ( آسان ترجمہ قرآن )

اس آیت نے دوسری اہم حکمت یہ بیان فرمائی کہ پردہ مسلمان، شریف اور پاکدامن عورت کی پہچان اور خاص شعار ہے،اس طرح معاشرے میں موجود منافقین اور بد کردار لوگ ان کی طرف بری نظروں سے اور بری خواہشات سے مائل نہیں ہوں گے اور مسلمان خواتین کو ستانے اور چھیڑ چھاڑ کرنے سے خوف زدہ رہیں گے۔ گویا یہ دو حکمتیں معلوم ہوئیں:
(۱) پردہ: مسلمان، شریف اور پاکدامن عورتوں کی پہچان ہے۔
(۲) پردہ: مسلمان عورتوں کو شریر اور فتنہ پرور بد کردار لوگوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

چوتھا ادب : مسلمان عورت کے لئے گھر سے نکلنے کے بعد ایک ادب یہ ہے کہ وہ راستہ چلتے وقت اور بازار وغیرہ میں اپنی نظریں جھکا کر رکھے، بلا ضرورت دائیں بائیں اور اِدھر اُدھر تاکنا جھانکنا اس کی شان کے خلاف ہے۔قرآن کریم میں حکم ہے :
ترجمہ: ( اے نبی ) آپ ایمان والی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں۔( سورۃ النور )
پانچواں ادب : گھر سے باہر نکلنے کے بعد ( بلکہ گھر میں رہتے ہوئے بھی ) جب کسی اجنبی اورنا محرم مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو قدرے سخت لہجے اور کرخت انداز میں گفتگو کرے۔ بات کرتے وقت زیادہ نرم لب و لہجہ اختیار نہ کرے اور نہ ہی باتوں سے اس کی طرف کوئی میلان اور جھکاؤ ظاہر کرے، اس طرح منافق اور بد کردار انسان ان مسلمان اور ایمان والی خواتین کی طرف لالچ بھری نظریں نہ اٹھائے گا اور نہ اس کے دل میں بے جا خواہش جڑ پکڑے گی۔ قرآن نے فرمایا:تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو تاکہ کوئی ایسا شخص بے جان لالچ نہ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ( گناہ کا مرض ) ہوتا ہے۔(سورہ احزاب)

اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں :
’’ اس آیت نے خواتین کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کا طریقہ بتایا ہے کہ اس میں جان بوجھ کر نزاکت اور کشش پیدا نہیں کرنی چاہیے، البتہ اپنی بات کسی بد اخلاقی کے بغیر پھیکے انداز میں کہہ دینی چاہیے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب عام گفتگو میں بھی خواتین کو یہ ہدایت کی گئی ہے تو غیر مردوں کے سامنے ترنم کے ساتھ اشعار پڑھنا یا گانا کتنا برا ہو گا۔‘‘ ( آسان ترجمہ قرآن )

چھٹا ادب: گھر سے نکلتے وقت مہکنے والی خوشبو اور عام نظر میں آنیوالے زیب و زینت کی چیزیں استعمال نہ کریں۔ اگر مسلمان عورت مہکنے والی خوشبو وغیرہ لگا کر گھر سے نکلے تو اس کے لئے حدیث پاک میں سخت وعید اور سخت سزا بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :’’جس عورت نے خوشبو لگائی اور کسی قوم کے پاس سے گزری تاکہ وہ لوگ بھی اس کی خوشبو سونگھیں تو ایسی عورت بدکار ہے۔ ( نسائی )

ساتواں ادب : گھر سے باہر نکلنے کے بعد راہ چلتے وقت انتہائی ادب ، تواضع اور وقار کے ساتھ چلے، بجنے والا اورآواز دار زیور ایسے موقع پر استعمال نہ کرے۔ قرآن کریم نے اس ادب کو یوں بیان فرمایا ہے:’’اور مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ انہوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہو جائے۔ ( سورۃ النور )

یعنی اگر پاؤں میں پازیب پہنی ہوئی ہے تو اس طرح نہ چلیں کہ پازیب کی آواز سنائی دے یا زیوروں کے ایک دوسرے سے ٹکرا کر بجنے کی آواز غیر محرم مرد سنیں ۔( آسان ترجمہ قرآن)

آٹھواں ادب: گھر سے باہر نکل کر راستے چلتے وقت بازار میں یا مردوں وغیرہ کے مجمع سے گزرتے ہوئے اپنا نقاب چہرے سے ہرگز نہ ہٹائیں،سوائے اس کے کہ کوئی سخت مجبوری اور عذر ہو تو ضرورت کے بقدر نقاب تھوڑا بہت سرکا لیں۔

نواں ادب : جب کسی کے گھر ملنے جائیں تو جب تک یہ اطمینان نہ ہو کہ گھر میں کسی مرد کی نظر نہ پڑے گی اور وہاں کوئی برے کردار والی عورت بھی نہیں ہے تو اپنی عبایا وغیرہ بڑی چادر اتار لے، ورنہ اگر اسیا خطرہ ہوتو اس چادر کو اوڑھے رکھے تاکہ کوئی دل کا گندہ مرد یا وہاں موجود ایسی بری عورت اس کے جسمانی حسن وغیرہ پر بری نظریں نہ ڈال سکے۔نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کے سامنے کسی اجنبی عورت کے اوصاف بیان کرے۔ کیوں کہ اس طرح اس مرد کے فتنہ میں پڑ جانے کا خدشہ ہے۔

دسواں ادب: گھر سے نکلنے کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ عورت محرم مرد کے بغیر سفر شرعی کی مسافت کے بقدر سفر نہیں کر سکتی، ہاں اگر محرم مرد ساتھ ہو تو اتنا بھی اور اس سے زائد مسافت کا سفر بھی جائز ہے۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
ترجمہ: جو عورت اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ تین دن کی مسافت سفر سے زیادہ کا سفر اکیلی کرے، ہاں اگر اس کا والد، بھائی، بیٹا، شوہر، یا کوئی ذی محرم مرد ساتھ ہو تو پھر جائز ہے۔( نسائی )

الغرض’’یوم حجاب‘‘ منانے کی بجائے اصل توجہ اس بات پر ہوکہ ایک تو حجاب کے حوالے سے جو اسلامی تعلیمات ہیں ان کو نہایت جامعیت اور عام فہم انداز میں پھیلا جائے اور دوسری بات یہ کہ مسلمان عورت کو اس عمل کی طرف ترغیب اور تحریک دی جائے اور اسے یہ باورکرایا جائے کہ اس میں اس کے لیے دنیا میں پاکدامنی، شرافت، طہارت نفس اور دیگر متعدد جسمانی اور روحانی فوائد ہیں اور آخرت کے لحاظ سے بھی یہ بہت سے خطرات سے بچانے والا ہے۔

mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372635 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.