بچوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز

ایسا لگتا ہے کہ ہماری گورنمنٹ کے پاس اب ٹیکس لگانے کی کوئی بھی جگہ نہیں رہی اس لیے اب انہوں نے بچوں کی پیدائش پر ٹیکس لگانے پر غور کرنا شروع کردیا ہے اسی لیے ایک دفعہ پھر بچے دو ہی اچھے کے نعرے کو بنیاد بنا کر آبادی روکنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کمائی کا ذریعہ بھی بنایا جا رہا ہے اس کے لیے ہمارے وفاقی وزیر بہبود آبادی فردوس عاشق اعوان نے دو سے زیادہ بچوں کی پیدائش پر ٹیکس لگانے کی تجویز دی اور گورنمنٹ کو اخراجات پورا کرنے کا ایک نیا راستہ فراہم کیا ہے۔ وفاقی وزیر بہبود آبادی فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا عنصر دہشت گردی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ زیادہ بچے پیدا کرنے پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے پالیسی بنائے حکومت اسے نافذ کرنے کو تیار ہے۔ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ غربت اور ناخواندگی کی وجہ سے لوگ ایسے عناصر کے ساتھ مل جاتے ہیں جو انہیں منفی سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ بچے پیدا کرنے پر ٹیکس عائد کرنا ہے تو اس کا آغاز ارکان پارلیمنٹ سے کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آبادی پر کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور اس حوالے سے وہ اپنی کوتاہی کو قبول کرتی ہے۔ہمارا خیال ہے کہ بحیثیت قوم ہم سب کو اپنی اپنی کوتاہی کو قبول کرنا چاہئے۔ یہ وہ کوتاہیاں ہیں، جو آپ کے گھروں کی رونق، خوشیوں کا منبع، گلشن کے پھول اور مستقبل کا عکس ہیں۔ ان پھولوں کو انگاروں میں تبدیل کیا ہے تو اس میں قصور کس کا ہے۔ ان پھولوں کو کیا ہم نے مفت تعلیم، روٹی، سر چھپانے کی جگہ دی ہے۔ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ تو اس دنیا میں آکر خوب مزے لوٹیں اور آنے والے بچوں پر پابندی لگا دیں کہ وہ اس دنیا میں نہ آئیں۔ یہ نظام قدرت ہے۔ اس میں فرعون نے بھی مداخلت کرنے کی کوسش کی تھی۔ لیکن وہ موسیٰ کی آمد کو نا روک سکا۔ آپ کے خیال میں اگر یہ ٹیکس لاگو ہوتا ہے تو کیا یہ حکومتی فیصلہ درست ہوگا یا نہیں؟ اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ مندرجہ بالا بلاگ ایک بہت ہی میعاری ارودویب سائٹ پر جاری ہوا جس پر وطن عزیز کے دیگر بہن بھائیوں کی طرح ہم نے بھی حصہ لیا ۔

راقم السطور نے اس بلاگ میں حصہ لیتے ہوئے عرض کیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرتا کیا نہ کرتا ہماری موجودہ حکومت کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔اقتدار ملا تو خزانہ خالی تھا، توانائی اور آٹا بحرانوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا عفریت منہ پھاڑے استقبال کر رہا تھا، ایسے میں صاحبان اقتدار سے ایسی باتوں کا سرزد ہو نا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ وطن عزیز کی شروع سے ہی یہ بدقسمتی رہی ہے یا اسے آزمائش کہہ لیجئے کہ ارض پاک کو چند ایک کے سواء جو بھی حکمران ملے وہ فہم وفراست سے عاری اور مغرب کی غلامی کے دلدادہ تھے اور ہیں۔ بچے دو ہی اچھے یا زیادہ پیدا کرنے پر حکومت کو ٹیکس دینے کی تجویز ایک لحاظ سے اس لیے بہتر ہے کہ کم علمی کی وجہ سے ہم نے اپنی خواتین کو صرف بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھ رکھا ہے اور جب بات آتی ہے ان کی بہتر پرورش کی تو ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے کی بجائے اسے ہم حکومت پر تھونپ دیتے ہیں یا پھر جاہل ملاؤں کی طرح اپنی شریعت جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں کہ رازق تو رب ہے۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں رازق اللہ تعالی ٰ ہی ہے لیکن اس نے اپنی تمام مخلوقات میں سے اگر ارادے اور اختیار کے وصف کسی کو نوازا ہے تو وہ انسان ہی ہے جسے اس نے اشرف المخلوقات کے شرف سے بھی عطا کیا ہے اور اس حوالے سے اللہ رب العزت نے ہم انسانوں پر کئی ایک ذمہ داریاں بھی عائد کی ہیں جنہیں پورا کرنا ہمارا فرض ہے اور اس میں سب سے پہلا فرض اپنی اولاد کی بہتر پرورش و تربیت کرنا ہے جو وسائل کے بغیر ممکن نہیں۔ وسائل کے حوالے سے ارض پاک تو خود کفیل ہے لیکن اس کے باسی یعنی ہم انتہائی نکمے، سہل پسند٬ غافل خود غرض اور لاپرواہ ثابت ہوئے ہیں کہ اپنی ہر غلطی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری تو احسن طریقے سے نبھائی مگر صاحبان اقتدار ہی مفاد پرست نکلے جس کی وجہ سے ہم مشکلات کا شکار ہیں حالا نکہ ہم ووٹ کا حق استعمال کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ ٹھیک ہے پارٹی تو اچھی ہے لیکن کیا ہمارے حلقے سے جو آ دمی انتخابات میں حصہ لے رہا ہے اس کا اپنا ذاتی کردار کیسا ہے۔ بہر حال یہ تو ایک ایسی لمبی بحث ہے کہ صدیاں بیت جائیں لیکن یہ ختم نہیں ہوگی۔ بچے کی پیدائش پر ٹیکس کے نفاذ کی حکومتی تجویز یقیناً درست نہیں لیکن آخر یہ سوچ ہماری حکومت کے ذہن میں آئی کیونکر اس بارے میں سوچنا ہم عوام کا کام ہے اور اپنے بچوں کو بہتر مستقبل فراہم کرنا سب سے پہلے ہماری اور پھر حکومت کی ذمہ داری ہے۔

کیا ہم اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے سرانجام دہے رہے ہیں؟ میرے خیال میں ارض پاک کے نوے فیصد سے زائد عوام صرف بچے پیدا کرنا تو جانتے ہیں لیکن ان کی بہتر پرورش اور تربیت کا ذمہ دار حکومت کو گردانتے ہیں اور اسی رویے کی وجہ سے ہم آج اس نوبت پر پہنچ چکے ہیں۔اس کے علاوہ ایسے معاشرے میں بچے پیدا کر نا ویسے بھی جرم سے کم نہیں کہ جہاں وہ دنیا میں آنکھ کھولنے سے قبل ہزاروں ڈالر کا مقروض ہو٬ بچپن میں اس کے اغواء ہونے کا ہمہ وقت خدشہ ہو٬ اچھی خوراک٬ بہتر تعلیم٬ صحت کی سہولتوں سے محرومی اور جوان ہو کر بے روز گاری کے عذاب میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کے ہتھے چڑھنے کاخطرہ لاحق ہو اور اگر یہ سب کچھ نہ بھی ہو تو بڑھاپے میں معذوری کی زندگی اس کا مقدر ٹھہرا دی گئی ہو ۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122520 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More