وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

شاعرِ مشرق نے اس ایک مصرعہ میں عورت کا مقام واضح کر دیا ہے- اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ ایک تصویر میں جب تک مصور رنگ آمیزی نہیں کرتا وہ محض خاکہ ہی کہلاتا ہے لیکن جب اس خاکے میں موقع و محل کے مطابق رنگ بھر دیئے جاتے ہیں تو اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے- یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر کسی تصویر کے خاکے میں نا مناسب اور ناموزوں رنگ بلا لحاظ بھر دئیے جائیں تو وہ نہ صرف فنِ مصوری کے معیار کے مطابق تسلیم نہیں کی جاتی بلکہ وہ دیکھنے والے کی توجہ کو بھی اپنی طرف نہیں پھیر سکتی- اس لیے ایک کامل شاہکار مصوری کا حسن نہ صرف اس کے ڈھانچے کی نفاست پر مبنی ہے بلکہ مصور و نقاش کی جمالیاتی حِس کا بھی اس میں بڑا حصہ ہوتا ہے-

اگر ہم اس کائنات کو ایک تصور خیال کریں تو عورت کا وجود یہاں اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا خوش نما اور مناسب رنگ ایک تصویر کی تکمیل کے لیے لازم ہوتا ہے- اگر عورت کی تخلیق نہ کی جاتی تو شاید دنیا اتنی حسین نہ ہوتی- ہم اس دلیل کے لیے واضح مثال حضرت آدم علیہ السلام کی دے سکتے ہیں کہ انہوں نے ہر اس چیز یا نعمت کی موجودگی میں جو قدرت نے انہیں وافر و بہتات عطا کی تھی، ایک ایسے ساتھی کے لیے اللہ تعالٰی سے درخواست کر دی جو ان کی تنہائی دور کر سکے اور ان کی طبیعت بہلا سکے- اور اللہ تعالٰی نے ایک عورت ہی کو اس اہم ذمہ داری کا اہل سمجھا-

لیکن یہ بھی درست و عین حقیقت ہے کہ محض عورت کا وجود ہی کائنات کی تصویر میں رنگ آفرینی نہیں کرسکتا- عورت اس وقت کائنات کی تصویر میں رنگ بھرتی ہے جب کہ وہ ایک مہربان ماں، وفا شعار بیوی، ہمدرد بہن اور فرماں بردار بیٹی کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے- اگر ایک مشفق ماں اپنی تمام کوششیں اپنی اولاد کی صحیح پرورش میں صَرف کرتی ہے تو وہ کائنات میں زندگی ڈال دیتی ہے- عورت کو بحثیت ماں جو مقام قدرت نے عطا کیا، اسکی شہادت خود قرآن کریم سے مل جاتی ہے- اگر یہی عورت اپنے وجود میں وہ تمام شفقت و محبت و انس و خلوص و قوتِ برداشت و ضبط وتحمل نہیں رکھتی، جو اس کا حصہ ہے تو وہ صحیح معنوں میں عورت نہیں کہلا سکتی اور ایسی عورت کا وجود کائنات کی تصویر میں ایسا ہی رنگ معلوم ہو گا جیسا کہ کسی نوآموز مصور کے تصویر میں غلط رنگ بھر دینے پر تصویر حسین معلوم ہونے کی بجائے بھدی معلوم ہونے لگتی ہے اور جس سے بذاتِ خود مصور بونگا قسم کا مصور نظر آتا ہے-

اب بہ حیثیت بیوی دیکھتے ہیں کہ عورت کہاں تک کائنات میں حُسن پیدا کرتی ہے- ایک وفا شعار بیوی گھر کی چھوٹی سی کائنات میں جو رونق اپنی وفاداری و خلوص و محنت و لگن و نیک نیتی سے بھرتی ہے، وہ نہ صرف اس کے بلکہ اس کے خاوند اور بچوں کے لیے بھی حد درجہ اطمینان و طمانیت و سکون و راحت کا باعث ہوتی ہے- ہمارے نبی نے عورت کو آنکھ کی ٹھنڈک فرمایا ہے، تو کیا ایک مکمل اور خوبصورت تصویر ہمارے جمالیاتی ذوق کی تسکین نہیں کرتی؟ ضرور کرتی ہے- پھر بھلا عورت کس طرح اس دنیا کے حُسن میں اضافے کا باعث نہیں ہو سکتی- اس کے برعکس ایسی خواتین جو اپنی فطری خوبیوں کو خیرباد کہہ دیں اور نسوانیت کا جامہ اتار دیں ان کے لیئے یہ کہنا بجا ہو گا کہ:‘وجودِ زن سے ہے عرصہء کائنات میں جنگ‘ کیونکہ نیک و بَد ہر قسم کے لوس اس دنیائے رنگ و بو میں موجود ہیں، پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ جہاں نیکی موجود ہو وہاں کسی طاغوتی طاقت کا ہونا ممکن نہیں ہے- ایک بُری عورت کائنات میں وہی حیثیت رکھتی ہے جیسے گُلستان میں خار اور تصویر میں غلط رنگ-

عورت کے وجود نے حقیقت میں اس دنیا کو رونق بخشی مگر مختلف ادوار میں مختلف مفکروں، فلاسفروں اور مذہبی رہنماؤں نے اسے مختلف ناموں سے موسوم کیا- کسی نے اسے زمین کو بوجھ قرار دیا اور کسی نے اسے کائنات کی سب سے بدترین مخلوق قرار دیا- مگر اسلام نے جو مقام عورت کو بخشا دراصل اُسی کی طرف علامہ اقبال نے اپنے شعر کے اس مصرعہ میں اشارہ کیا ہے- انہوں نے بتایا ہے کہ دنیا کی گہما گہمی، رونق، اور چہل پہل ایک ماں، ایک بیوی، ایک بیٹی اور ایک بہن کے رہینِ منت ہے- اگر دنیا میں عورت کا وجود نہ ہوتا تو یہ دنیا ایک بےرنگ و بے رونق و کاغذی پھول جیسا مقام رکھتی-

خدا نے عورت کی طبیعت میں رحم، محبت، نرمی، خلوص، وفاشعاری اور ہمدردی بہ نسبت مرد سے کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور یہ وہ تمام خوبیاں ہیں جن کا فقدان ہی دنیا کو ایک جہنم کا نمونہ بنا دیتا- مگر سوچیے اللہ نے عورت کو پیدا کر کے کائنات پر کتنا بڑا احسان کیا ہے اور حُسن بھی بخشا ہے- اگر بالفرض اس وسیع وعریض زمین پر محض مرد ہی مرد ہوتے تو کیا زندگی اجیرن نہ ہوتی، کیا ان پر عرصہء حیات تنگ نہ ہوتا، کیا وہ اپنی اس اداس زندگی سے گھبر نہ اٹھتے، اور اس کا جواب اثبات میں ہے-

عورت آنکھ کی ٹھنڈک ہے، دل کا سرور ہے، زخموں کا مرہم ہے، دکھوں کا مداوا ہے، تنہائی کی رفیق ہے، مصیبت میں معاون ہے، نسل انسانی کی بقاء اسی سے ہے- اگر ان تمام باتوں سے ہم انکار کر دیں تو اقبال کے اس مصرعے کی تردید خودبخود ہو جائے گی- مگر ان حقائق سے انکار مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے- آج خواہ مرد اپنی برتری جتانے کے لیے اور عورت کا رتبہ گھٹانے کے لیے کچھ بھی کیوں نہ کہیں مگر وہ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ عورت کا وجود راحت و اطمینان و سکون کا باعث نہیں بلکہ تکلیف کا باعث ہے- اس لیے شاعرِ مشرق نے بجا فرمایا ہے کہ عورت کے وجود نے ہی تصویرِ کائنات میں رنگ بھرا ہوا ہے ورنہ اس دنیا میں سب کچھ ہوتا لیکن یہ رنگینی، رونق، چہل پہل اور حسن نہ ہوتا جو اسے عورت نے بخشا ہے-
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 68440 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.