دل کو ہر طرح سے برباد کیا ہے میں نے

 ایک اخباری خبر کے مطابق نیائیں چوک میں ایک ہزار روپے چالان ہونے پر چاند گاڑی کے ڈرائیور عقیل نے اپنی چاندگاڑی کو آگ لگا کر تباہ کر ڈالا
تو نے تو ایک ہی صدمے سے کیا تھا دوچار
دل کو ہر طرح سے برباد کیا ہے میں نے

عقیل کے احتجا ج اور خود کومکمل برباد کرنے کے فیصلے میں ہمارے بے حس معاشرے کی چیختی اور روتی بلکتی ہوئی تصویر موجود ہے ہر روز خبریں بنتی ،چھپتی اور پھر ردی کی نذر ہوجاتی ہیں،اس نے عزت نفس تو اس دن ہی نیلام کر دی تھی جب سارا دن جھڑکیا ں اور وارڈنوں سے غلیظ گالیاں سننے کے لئے چاند گاڑی چلانے کا فیصلہ کیا تھا،یہ معلوم نہیں کہ چاند گاڑی اسکی اپنی تھی یا ابھی واجب الادا قسطوں کا بوجھ بھی ساتھ ہی لئے پھرتی تھی لیکن اتنا یقین ہے کہ یہ اسکا پہلا چالان نہیں ہو گا،دن بھر دس دس روپے کے عوض سواریاں کھینچنے والے رزق حلال کمانے والے نے اس پہلے کئی چالان بھرے ہوں گے اور کئی دفعہ وارڈنوں کی جیبیں بھی، اس دن جب اس نے چاند گاڑی کا بوجھ ہمیشہ کے لئے اتار دیا کون اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی بجائے سرکار کا ازل سے خالی کھوہ بھرنے کے لئے سارا دن سڑکوں پر مشقت کرے اس فیصلے سے قبل اس نے وارڈن کی منتیں کی ہوں گی،ہزار روپے چالان کے تو تصور نے ہی دیہاڑی دار محنت کش کی روح کو لرزا دیا ہوگا،اس نے ہاتھ جوڑے اور ترلے کئے ہوں گے اسی طرح جیسے ایک طالبہ کی والدہ نے امتحانی سنٹر میں دیر سے پہنچنے پر اندرداخل ہونے سے محروم کردی گئی اپنی بچی کے لئے منت سماجت کی تھی مگر صاحب کو اپنے آدرش اس طالبہ کے مستقبل سے زیادہ عزیز تھے ہاں البتہ وہ طالبہ عزت نفس کی دولت سے ضرور مالا مال تھی جس نے اپنی ماں کو اس بت نما افسر کے پاؤں چھونے سے منع کر دیا تھا، ایک طرف پورا ملک لاقانونیت کا گڑھ بنا ہوا ہے مگر تجاوزات،ٹریفک قوانین اور وقت کی پابندی کے نام پر مجبور ،لاچار بے بس غریبوں کی درگت بنائی جارہی ہے،پولیس کی میرٹ پر بھرتیوں کی داستان بھی کم بھیانک نہیں ہے جہاں امیدواروں کی امیدوں کے چراغ گل کرنے کے لئے انہیں جانوروں سے بھی بدتر انداز میں بھگایا گیا وقت سے پہلے رسہ کھینچا اور سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان ایک دوسرے سے ٹکرانے اور گرنے سے زخمی ہوئے ،ریس سے پہلے چاک و چوبند نظر آنے نوجوانوں کا اس سعی لاحاصل کے بعد یہ حال تھا کہ کسی کے ہونٹ بری طرح لہو لہان تھے اور کسی کی ٹانگیں زخموں سے چور چور تھیں پھربیروزگاری کے ماروں کے چوٹوں سے سوجھے منہ سے بد دعاؤں کے سوا کیا نکل سکتا تھا،میرٹ والی بھرتیوں کا یہ عالم ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ملک میں ظلم کم نہیں ہو رہا مسلسل بڑھ رہا ہے سو فساد بھی اسی تناسب سے اپنی جڑیں پھیلاتا جا رہا ہے، امن اور انتہا کا ظلم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ظلم بند کریں تو امن خود چل کر آپ کے پاس آجائے گا ، غریبوں بھو ک اور افلاس کے ماروں اور مفلسوں کی تقدیر کے فیصلے دولت والوں اور سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والوں کے ہاتھ سے لکھے جارہے ہیں تو ان سے کیا توقع باندھی جا سکتی ہے، نتیجہ خوفناک شکل لئے اور غریبوں پر ہر روز قیامت بن کر ٹوٹ رہا ہے مہنگائی نے خوشیوں کے قاتل کا روپ دھار لیا ہے ،لوگ جائز بل دینے پر راضی مگر سرکار کا اوور بلنگ کے بغیر گذارہ نہیں سو لوگ آٹے روٹیوں کے پیسے بھاری بلوں کی شکل میں دینے پر مجبور ہیں زندگی جبر مسلسل بنی ہوئی ہے اور جرم کا بھی کوئی تعین نہیں ہو پا رہا،جن کے بارے میں چور چور کا شور تھا انکی استقامت اور جمہوریت کے لئے قربانی کو سلامیاں پیش کی گئی ہیں، خداراہمیں خوفناک جھٹکے دینے والے صدمے تو نہ دیں

یہ غم نہ دے کہ مجھ سے اٹھایا نہ جائے گا
پھر دل کسی بھی دل سے لگایا نہ جائے گا
اس تبدیلی پر کس کے نام کا بین کریں تدبیر اور تقدیر دونوں ششدر کھڑی ہیں

توبدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں الجھ جاتی ہیں
FAISAL FAROOQ SAGAR
About the Author: FAISAL FAROOQ SAGAR Read More Articles by FAISAL FAROOQ SAGAR: 107 Articles with 67302 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.