بندے اپنا نامہ اعمال دیکھ

دہشت گردی کے ناسور نے ہماری زندگی اجیرن کر رکھی ہے ،گھروں سے نکلتے ہیں تو دل کو دھڑکا سا لگا رہتا ہے نجانے کب اور کہاں کوئی ڈاکو لوٹ لے یا دھماکہ ، فائرنگ ہو اور زندگی کی شام ہو جائے ۔ہمارے اعمال ایسے کہ
جب بھی کہتا ہوں اے اﷲ میرا حال دیکھ
تو حکم ہوتا ہے بندے پہلے اپنا نامہ اعمال دیکھ

قدرت کی ناراضی ہے کہ سیلاب اور کبھی زلزلوں کی صورت پر ہمارے اوپر عذاب نازل کیا جاتا ہے۔ابھی سیلاب کی تباہ کاریوں کو سلجھانے میں مگن تھے کہ گذشتہ روزبلوچستان کے علاقے آواران میں زلزلہ آیا،جس کی شدت 7.8تھی محض 8سیکنڈ دورانیہ کے زلزلے نے ہزاروں افرادکو موت کی وادی میں دھکیل دیا ،ہزاروں زخمی ہوئے ،لاکھوں متاثرین کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں ۔

جیسے عوام ویسے حکمران ،یہ جملہ آئے روز ہم سنتے ہیں۔ ملاوٹ ،رشوت خوری،ذخیرہ اندوزی، فراڈ، ناانصافی، بے ایمانی، کرنے میں ہمارا کو ہم سر نہیں، پھر بھی ہم صالح اور ایمان دار قیادت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ہمارے معاشرہ اتنا بے حس اور خود غرضی کی کیفیت میں مبتلا ہے کہ اکثر سڑک پرتڑپتے انسان کی مدد نہیں کرتے، پڑوسی کے بچے بھوکے سوئیں ہمیں کوئی غرض نہیں۔معاشرے کی اکثریت اسلام کی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے ،رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو‘‘افسوس تو اس بات کا ہے کہ کوئٹہ میں ابھی لاشیں پڑھی تھیں کہ پاکستان کے معروف ٹی وی چینل پر مارننگ شو پر بے ہودگی اس عروج پر تھی کہ ایک لڑکا اور لڑکی مدہوشی کی حالت میں ڈانس کر رہے تھے ،اس شو کی میزبان اور شریک مہمان ان بے حیاؤں کو داد دے رہے تھے یقین جانیے دکھ کی کیفیت یہ تھی کہ بے اختیار آنسو نکل آئے۔خدا کے بندوں۔۔۔۔۔زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے چینل پر بے ہودگی کے مناظر دیکھا پاکستانیوں عوام کے زخموں پر نمک پاشی اور خدا کے قہر کو مزید دعوت تو مت دو۔۔بلوچستان میں معصوم بچے پانی کے لیے بلک رہے ہیں۔۔مائیں بھوک سے نڈھال ہیں ۔۔۔بوڑھے افراد پتھرائی نظروں سے ہماری امداد کے منتظر ہیں۔۔۔۔زخمی ملبے تلے دبے مدد کے لیے پکار رہیں ہیں،نجانے پیمرا کہاں سویا ہے ؟ اسلامی ملک میں ٹی وی چینلوں پر دیکھایا جا رہا ہے ۔۔۔PGکا لوگو لگا کر جو دل کر ے وہ دیکھاؤ کیا ہمار اخلاقی معیاراتنا گر گیا؟ محض ریٹنگ کے لیے اﷲ کے قہر کو دعوت دینے والوں ڈر جاؤ۔۔۔۔ 2005میں آزادکشمیر سمیت مختلف علاقوں میں شدید زلزلے نے لاکھوں افراد کو موت کی آغوش میں دیا ،اب بلوچستان تباہ ہوا، کل لاہور میں تمھارا سٹوڈیو بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔ٹی وی شو کی ہوسٹ رمضان میں دوپٹہ اُڑھ کرقاریہ بن جاتیں ہیں،کبھی جن نکالنے کی ذمہ داری اٹھاتیں ہیں۔عوام اپنا ردعمل دکھائیں تو موصوفہ رو رو کر بُرا حال کر دیتی ہیں۔۔۔بی بی خدا کے قہر سے ڈرو۔۔۔لوگوں اﷲ کی ناراضی میں شدت آ گئی ہے،اس سے پہلے کہ وہ ہماری زمین کو الٹا دے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو۔

اﷲ کی ناراضی کی دوسری وجہ تصویر کا وہ دوسرا رخ جوایک تلخ حقیقت ہے ہم نے اپنے مسلمان بھائیوں کے قتل میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے امریکیوں کو اڈے فراہم کیے۔ان کے ساتھ مکمل تعاون کیا،ہمارے تعاون کے ساتھ افغانستان میں معصوم کلیوں سمیت لاکھوں افراد شہید ہوئے۔۔۔ہم نے ان کے گھر کو اجاڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،اس خوش فہمی میں مبتلا رہے ڈالر ہی خوشحالی کی ضمانت ہیں۔ہم نے اپنے ہاتھوں سے ان کے گھر میں آگ لگائی،قدرت کا قانون اٹل ہے، وہی ہوا جس کے بارے میں اکثر رہنما اور علماء حضرات ہمیں متنبہ کرتے رہے کہ یہ آگ ایک دن ہمارے گھر آ جائے گی اس کو بھڑکانے میں نہیں بجھانے میں کردار ادا کرو، مگر ہمارے سروں سے جوں تک نہیں رینگی۔ آگ ہمارے گھر آن پہنچی،آئے روز دھماکوں دہشت گردی کے مختلف واقعات نے ہمارے ملک کی معیشت کو تباہ کر دیا،سیاحت ختم ہو گئی،کھیل کے میدان ویران پڑے ہیں۔

اﷲ رب العزت فرماتے ہیں’’ہر غیبت کرنے والے طعنے دینے والے کی خرابی ہے،جو مال جمع کرتا ہے اور اسکوگن گن کر ر کھتا ہے ۔شاید وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کی ہمیشہ کی زندگی کا موجب ہو گا ۔ہر گز نہیں وہ ضرور حطمہ میں جھونک دیا جائے گا۔ ‘‘دوسری جگہ فرماتے ہیں’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے ،یہ وہی بدبخت ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے ،اور نادا کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ،تو ایسے نمازیوں کی خرابی ہے،جو نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں،جو ریاکاری کرتے ہیں ،ہم ان تمام گناہوں کے مرتکب ہوتے ہوئے بھی خدا کے رحمت کے منتظرہیں،اس کے نعمتوں سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے؟ جو بویا جائے وہی کاٹا جاتا ہے ۔ہم نے افغانستان میں ظلم کی فصل بوئی آج کاٹ رہے ہیں ،اپنی ذات تک ہمارے سے جتنا ممکن ہوا کرپشن کی ،اﷲ رب العزت نے ہمارے اوپر ویسے ہی حکمران مسلط کر دیے ۔۔ ہم تمام تر برائیوں کو چھوڑے بغیر نیک بننا چاہتے ہیں۔خدا کے احکامات پر عمل کیے بغیر اس کی رحمت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں،جھوٹ چھوڑے بغیر سچابننا چاہتے ہیں،ظلم چھوڑے بغیر مظلوم کی مدد کرنا چاہتے ہیں،ذخیرہ اندوزی کرتے ہوئے چیزیں سستی ہونے کے منتظر رہتے ہیں،ملاوٹ چھوڑے بغیر خالص چیز کے طلب گار ہیں،یہ سب کیسے ممکن ہے؟ جب اﷲ رب العزت نے فرما دیا۔یہ لوگ اپنی تدبیروں میں لگے رہے،اور میں اپنی تدبیر کرتا رہا‘‘

خدارا لوٹ آؤ خدا کے احکامات کی طرف ،حدیث مبارک ہے ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جسم کے ایک حصہ پر زخم سے جسم کا ہر عضو درد محسوس کرتا ہے‘‘ اپنے مسلمان بھائیوں کا درد محسوس کرنے والے بن جاؤ ۔۔ غیر مسلموں سے سلوک کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے’’جس نے ایک ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھ پائے گا‘‘ نجران کا مشہور معاہد ہ جو عیسائیوں کے ساتھ کیا گیا تھا جس میں درج تھا’’ کہ عیسائیوں کے ساتھ کسی قسم کا ظلم نہیں کیا جائے گا ان کے حقوق کی ادائیگی مکمل طور پر ریاست کے ذمہ ہو گی‘‘

اﷲ رب العزت کے عذاب سے بچنے کا واحد رستہ قرآن وسنت کے احکامات پر عمل درآمد کی صورت میں ہے بصورت دیگر ہم قدرتی آفات سمیت آپس کی خون ریزی سے نہیں بچ سکتے۔اگر کوئی برائی ہوتے دیکھو تو اسے زبان سے روکو اتنی طاقت نہیں تو زبان سے بُرا بھلا کہو اگر یہ بھی ممکن نہیں تو دل میں برا جانو جو سب کم تر عمل ہے۔میری قارئین سے التماس ہے کہ وہ ٹی وی چینلوں میں ہونے والے بے حیائی پر پیمرا کے نام خطوط لکھے کر اپنے احتجاج کو ریکارڈ کروائیں۔اگر بُرائی کو دیکھ کر یوں ہی خاموش بیٹھیں رہیں تو خدا کے عذاب کے لیے تیار ہو جائیں۔زلزلے سے متاثر افراد آپ کی امداد کے منتظر ہے دل کھول کر فلا حی اداروں سے تعاون کیجیے اور اپنی دعاؤں میں ان کویاد رکھیں اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف اور اپنے عذاب سے محفوظ فرمائے آمین۔
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 54922 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More