ہمارا معاشرہ تو ایسا نہ تھا!

ہمارا معاشرہ تو ایسا نہ تھا۔ یہ دھرتی تو بچیوں کے تحفظ کے لحاظ سے مثالی تھی۔ پھر یکایک کیا ہوا،اتنا شدید انحطاط کہ چار پانچ سال کی بچیوں کی بھی عزت محفوظ نہیں․․․․؟ ملک بھر میں یکے بعد دیگرے معصوم اور کم عمر بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کے اندوہناک واقعات سے ہر کوئی سہم گیا ہے۔ گلی، محلے، گاؤں و شہربے یقینی کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ اہل محلہ، دوست، ساتھی، ہمسائے حتیٰ کہ قریبی رشتے دار بھی ’’مشکوک‘‘ نظر آنے لگے ہیں۔ اس طرح ان درندوں نے صرف معصوم بچیوں کے عزت کو ہی پامال نہیں کیا، بلکہ رشتوں سے اعتبار کو بھی ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ہاں پہلے تو یہ صورتحال کبھی نہ تھی۔ جس طرح ہماری ماں سانجھی ہے، اسی طرح ہماری بچیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ ہر کوئی ان نازک کلیوں اور ننھی پریوں کے لیے محبت اور شفقت کے جذبات رکھتا ہے۔ یہی تو ہماری روایت ہے۔جو آج کل کہ نہیں، صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ ہم ایک دوسرے پر اس لحاظ سے اندھا اعتماد اور یقین رکھتے ہیں۔ مگر کون ہیں یہ لوگ جنہوں نے سفاکی کی انتہاء کردی ۔ ہمارے معاشرے میں دہشت گردی تو پہلے ہی عروج پر تھی۔اب معصوم بچیوں کی عزت و جان پر ہونے والے ڈاکوں نے معاشرے میں پائے جانے والے اعتماد اور اعتبار کے جذبوں کا بھی خون کر ڈالا ہے اور یہ مسئلہ دہشت گردی سے بھی خطرناک اور سنگین ہے۔ ابھی لاہور کی پانچ سالہ( س) جسے دوٹانگوں کے بھیڑیوں نے نوچ ڈالا تھا، اذیت ناک آپریشنز سے گزر رہی ہے اور اس کی چیخوں و پکار کی گونج ماند نہیں ہوئی کہ کراچی میں ایک تیرہ سال بچی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ نوشہرہ ورکاں میں ایک اور واقعے میں دو بہنوں کو گولیوں سے چھلنی کرکے سیم نالے میں پھینک دیا گیا۔ ان کے بارے میں بھی یہی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ انہیں بھی قتل سے قبل بھیڑیوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ رینالہ خورد میں بھی گن پوائنٹ پر ایک محنت کش کی بچی جنسی درندگی کا نشانہ بنی۔ اس طرح کے اور بھی واقعات ہر روز اخبارات میں ہمارے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ 6ماہ کے دوران ملک بھر میں جنسی زیادتی کے 1204کیسز سامنے آئے، جن میں 68فیصد لڑکیاں اور 32فیصد لڑکے اس کرب سے گزرے۔ بہت سے واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوئے بلکہ ان کی تعدادرجسٹرڈ ہونے والے کیسوں سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ متاثرہ خاندان ایک دفعہ عزت کھونے کے بعد معاشرے کی آنکھوں اور باتوں سے اپنی عزت بابار تارتار ہونے سے بچانے کے لئے تھانے کچہری کے چکر لگانے سے گریز کرتا ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی اس بدقسمت خاندان پر دستِ شفقت رکھنے کی بجائے اس پر انگلیاں اٹھاتا ہے بلکہ اس سے منہ موڑلیتا ہے ۔اس ظلم کا شکار ہونے والی لڑکیاں زندہ لاش بن کرگزارتی ہیں اور عمر بھر خود کو قصور وار سمجھ کر نفسیاتی کرب کا شکار ہوجاتی ہیں۔ معاشرہ ان کو دھتکاردیتا ہے ۔معاشرے سے کٹ جانے کا خوف اور بدنامی کا ڈر ان کے قدموں کو جکڑ لیتا ہے ۔ دوسری طرف ہمارا میڈیا جس انداز سے ایسے واقعات کو رپورٹ کرتاہے، اس سے متاثرہ فرد اور اس کا خاندان مزید کرب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مجرموں کی گرفتاری کے حوالے سے حکام پر دباؤڈالنے میں میڈیا کا ناقابل فراموش کردار ہے مگر مظلوم خاندان کے فرد سے اسی واقعے کی تکرار اور پھر باربار میڈیا پر اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی روش نے بھی اب ’’مظلوم خاندان‘‘ کے لئے واقعے کو تھانے میں رپورٹ نہ کرنے کی ایک وجہ بنا دیا ہے۔اس طرح میڈیا کے اس رویے نے بھی واقعات کی رپورٹ میں لانے میں رکاوٹ پیدا کی ہے کیونکہ کوئی فرد اور خاندان نہیں چاہتا کہ ان کی یہ روداد عوامی دلچسپی کے لئے پیش کی جائے۔ اس سلسلے میں میڈیا کو ذمہ دارانہ رویہ اپنانا ہوگا اور واقعات کی رپورٹنگ کے دوران مظلوم خاندان کی عزت وتوقیر کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کی رپورٹنگ مظلوم خاندان سے ’’بازپرس‘‘ کی بجائے متعلقہ ’’حکومتی اداروں‘‘ اور ذمہ داران کی ’’باز پرس ‘‘ پر مبنی رپورٹنگ پر زور دینا ہوگا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ رپورٹر حضرات خود چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرکے اپنا کیمرہ وہاں تک لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں اخلاقیات، انسانیت نظریں جھکا لینے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہی اسلامی روایات ہیں۔ مگر افسوس ہم ’’پیشہ ورانہ‘‘ رپورٹنگ کے چکر میں اسلام، پاکستان کی روایات و اقدار سے آزادخیال کرتے ہیں حتیٰ کہ چادراور چاردیواری کے تحفظ کو پامال کرتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کا زیادہ تر مقصد ’’عوامی دلچسپی‘‘ تک محدود ہے۔ ظاہر ہے ’’ریٹننگ ‘‘ کا معاملہ ہے۔ بہت سے قارئین سمجھیں گے کہ شاید میں موضوع سے ہٹ گیا ہوں مگر اس طرح کے معاملات میں میڈیا کے پہلو کو قطعاََ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب بات کرتے ہیں معاشرتی انحطاط کی ۔ یہ طوفان بدتمیزی یکا یک آیا ہے اور اس کی محرکات میں تفریحی میڈیا اور انٹرنیٹ شامل ہیں مگر ان سے بھی بڑی وجہ اخلاقی تعلیمات کی کمی قراردی جاسکتی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں ہم نے دیکھا کہ خاندان اب اخلاقیات کی بجائے اپنے بچے کو نمبروں کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔ انہیں طبیعات، کیمیاء ، ریاضی ، کمپیوٹر، حیاتیات، بنکاری اور شماریات کی فکر ستائے رکھتی ہے اور وہ اپنے بچوں سے انہی کی جوابدہی طلب کرتے نظر آتے ہیں ۔ اب بہت کم والدین اپنے بچے کو سچائی، رواداری، ایثاروقربانی، حسن سلوک، انسان دوستی ، زبان اور ہاتھ کی حفاظت کی درس دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مطمح نظر علم صرف روزگار حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔انہیں صرف یہ فکر ستائے رکھتی ہے کہ ان کا بیٹا بہت بڑا افسر یا بنکار ، انجینئر یا ڈاکٹر بن جائے۔ انہیں یہ فکر شاید ہی ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا اچھا انسان بھی ہو۔ یعنی تعلیم وتربیت صرف دنیاوی علم و دولت حاصل کرنے تک محدود ہوگئی ہے۔ چلیں یہ تو پھر بھی پڑھتے لکھتے ہیں ۔ ہمارے ہاں جہالت بھی بہت زیادہ پائی جاتی ہے ۔ جہالت برائی، انحطاط اور زوال کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے۔ ان جاہل افراد کو معاشرے کے دوسرے لوگوں کی تو کیا فکر یہ اپنے ماں باپ کو ذلیل و خوار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ آج ہی میں اخبارات میں اس سفاک نوجوان کی تصویر دیکھ رہا تھا جس نے نشہ کے پیسے نہ ملنے پر اپنے والدین اور بہن کو قتل کردیا۔ جو والدین اپنی اولاد کو نصیحت اور برے کاموں سے نہیں روکتے، وہ ایسے چراغ ہوتے ہیں جو اپنے گھر کو بھسم کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ایک مشہور قصہ تو ہم میں سے اکثر نے سن رکھا ہے۔ پھر مکرر بیان کئے دیتا ہوں کہ ایک مشہور ڈاکو اور قاتل کو جب تختہ دار کی طرف لے جایا جارہا تھا تو اس نے اپنی ماں کو گلا پھاڑ پھاڑ کر بین کرتے دیکھا۔ اس نے رک کر ماں کی طرف دیکھا اوراس کے قریب جاکر بولا: ماں، اب رونے کا کیا فائدہ،تم میری پہلی چوری پر پردہ ڈالنے کی بجائے مجھے سختی سے ڈانٹ دیتی تو آج تم اپنے جوان بیٹے کوسولی پر چڑھتے ہوئے نہ دیکھتی۔ میری گردن میں پڑنے والے پھندے میں تمہاری ہاتھوں کی ڈوری بھی شامل ہے۔اس طرح کی صورتحال سے بچنے کے لئے والدین کو ’’مار نہیں پیار‘‘ کی بجائے ’’مار اور پیار‘‘ کے دیسی اصول اپنانے ہوں۔ بصورت دیگر ’’ناخلف اولاد‘‘ بنانے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ان کا بھی قصور وار ہوگا بلکہ سب سے زیادہ ہوگا۔ لہٰذا معاشرتی انحطاط کے آگے پل باندھنے اور دو ٹانگوں والے بھیڑیوں درندوں سے نجات کے لئے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی و دینی تعلیم وتربیت پربھی یکساں زوردینا ہوگا۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63094 views Columnist/Journalist.. View More