آج سے پانچ سال قبل کی بات ہے مجھے ایک آفس کولیگ نے
بتایا کہ ہمارے ساتھ بیٹھنے والی ایک لڑکی سگریٹ کی عادی ہے۔ مجھے کچھ تعجب
اور کچھ افسوس ہوا ۔ تعجب اس لئے کہ وہ ایک بڑے اور امیر خاندان سے تعلق
رکھنے کے باوجود والدین کی پابندیوں میں جکڑی ہونے کے باوجود سگریٹ پیتی ہے
اور افسوس اس لئے کہ وہ کافی کم عمر تھی ۔میں نے اپنی ساتھی سے کہا کہ ہم
اسے سمجھاتے ہیں لیکن اس نے مجھے منع کردیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد اس لڑکی نے
کسی دوسری جگہ ملازمت کرلی اس لئے مجھے اس کے حوالے سے زیادہ علم نہیں لیکن
گزرے ہوئے سالوں میں ‘میں نے لڑکیوں میں انتہائی تیزی سے سگریٹ نوشی کو عام
ہوتے دیکھاہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ صنف نازک تیزی کے سگریٹ‘ شراب‘ چرس
اور ہیروئن کی لت میں مبتلاہورہی ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کی خواتین اپنے ذہنی دباﺅ‘ مسائل سے فرار
اور بطور فیشن کسی بھی انداز کے نشے کو اختیار کررہی ہیںجو یقینا خطرناک
رجحان ہے۔ اس ضمن میں کئے گئے آخری قومی سروے (2002 تا 2003) کے مطابق‘
ہیروئن کی لت میں مبتلا افراد کی اوسط عمر 26 سال سے کم ہو کر 22 سال تک
پہنچ گئی ہے جن میں بڑی تعداد خواتین بالخصوص مراعات یافتہ طبقے کی لڑکیوں
کی ہے جب کہ نشہ کر نے والی 92فیصد پاکستانی خواتین نشہ اور ادویات کا غلط
استعمال (مقررہ یا مجوزہ حد سے زیادہ)کر کے نشہ کرتی ہیں۔
ہیروئن کا نشہ 1980ءکی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ اس مکروہ دھندے نے آہستہ
آہستہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ترقی پذیر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے
لیا ‘بالخصوص اُونچے طبقے کی خواتین میں نشہ کرنے کی شرح 40 فیصد تک پہنچ
چکی ہے اس میں سرفہرست سگریٹ نوشی ہے جو نہایت شوق سے سرعام کی جاتی ہے‘پھر
سگریٹ سے آگے بڑھ کر بات شراب نوشی ‘ ہیروئن اور دیگر نشہ آور اشیاءتک جا
پہنچتی ہے ۔ ایک ایسی ہی مالدار خاتون سے ان کے نشہ کرنے کی وجہ پوچھی گئی
تو انہوں نے کہا ”یہ اسٹیٹس کی علامت ہے‘ ہمیں اپنے مغربی طرز کے رہن سہن
کو برقرار رکھنے کے لئے یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ “
نشے کے عادت جہاں انسانی تباہی کا باعث بنتی ہے وہیں وہ کئی معاشرتی اور
سماجی برائیوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ اس لئے نشے کو ہمارے مذہب میں حرام قرار
دیا گیا ہے اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں نشے کو بطور فیشن اپنانے کا
رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ جس کا شکار نوجوان نسل ہے جو ابتداءمیں شوقیہ
سگریٹ پیتے ہیں‘ بعد میں یہ عادت سگریٹ سے بڑھ کر چرس‘ ہیروئن اور دیگر نشہ
آور اشیاءتک جاپہنچتی ہے۔ منشیات کے عادی افراد میں سے ایک وہ ہیں جو زمانے
کے ٹھکرائے ‘ ناکامی کا بوجھ لے کر فرار کا راستہ اختیار کرتے ہوئے نشے کی
لت کا شکار ہوجاتے ہیں جب کہ دوسری جانب وہ افراد ہیں جو شوقیہ نشہ کرتے
ہیں ان کا تعلق دولت مند اور پڑھے لکھے طبقے سے ہے ۔یہ افراد اپنی روزمرہ
زندگی میں کسی تبدیلی یا ایڈونچر کے طور پر نشہ کی عادت میں مبتلا ہوجاتے
ہیں عام طور پر وہ چرس سے نشے کا آغاز کرتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان
میں بڑی تعداد ایسی کم عمر لڑکیوں کی ہے جو مختلف تعلیمی اداروں میں زیر
تعلیم ہیں اور ان کے دوستوں کے حلقہ میں نشہ آور اشیاءکا استعمال عام بات
ہے۔ بیشتر لڑکیاں دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ‘جب کہ ایک بڑی تعداد
وزن پر قابو پانے کرنے کے لئے چرس کا نشہ کرتی ہے۔
خواتین میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی ایک وجہ ان کا با آسانی دستیاب
ہونا ہے۔چرس کا استعمال خواتین میں نسبتاً زیادہ ہے اس وجہ سے وہ نشے کی
عادی ہوتی ہیں۔ علاج کے سینٹر سے رابطہ تو کرتی ہیں لیکن 98 فیصد نشے کی
عادی خواتین علاج نہیں کراتیں جس کی ایک وجہ اُن کے لئے ناکافی سہولتیں اور
علیحدہ مراکز کا نہ ہونا ہے۔
نفسیاتی ماہرین کے مطابق خواتین میں منشیات کی لت میں مبتلا ہونے کے مسئلے
کو اُن کے سماجی تربیت کے مختلف پہلووؤں مثلاً نسل پرستی‘ جنس پرستی اور
غربت سے جدا نہیں کیا جاسکتا اور خواتین کے نشے کی عادت میں مبتلا ہونے کو
سمجھنے کے لئے ان پر غور کرنا ضروری ہے۔منشیات کے ساتھ ساتھ نشہ آور ادویات
کا لمبے عرصے تک استعمال بھی ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔اس سے مختلف طرح کی
بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں جیسے شک کی بیماری، ڈپرشن، دماغ کو نقصان پہنچ
سکتا ہے، زندگی گزارنے کا طریقہ اور کام کرنے کی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ
جاتی ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لئے جن چیزوں پر قابو پانا ضروری ہے ان میں تشدد اور
جنسی زیادتی‘ غیر محفوظ گھر‘ بے روزگاری‘ جنسی کرداروں کے بارے میں پائے
جانے والے عمومی تصورات‘ صحت کی دیکھ بھال اور بچوں کی دیکھ بھال کا فقدان
شامل ہیں اور یہ تمام عوامل یاسیت اور ناامیدی کا سبب بنتے ہیں جن کے باعث
خواتین میں منشیات کے استعمال کا رجحان زور پکڑتا جارہا ہے۔
خواتین کو اس لعنت سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ علم اور صلاحیت ہوتاکہ
وہ اس مسئلے‘ بالخصوص امتناع منشیات کا مثبت طاقت سے مقابلہ کر سکیں۔ وقت
کا یہ تقاضا ہے کہ معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے
افراد ہمارے معاشرے سے منشیات کے خاتمے کے لئے متحد ہو کر کوششیں کریں۔
منشیات کے مکمل خاتمے کے لئے‘ منظم تعلیم اور معاشرے کی مسلسل حمایت کی
موجودگی ضروری ہے جب کہ موثر انداز اور ذہانت سے شعور بیدار کرنے کے
پروگراموں پر عمل درآمد ضروری ہے۔ اس طرح معاشرے کے ہر فرد کے لئے بہتر اور
زیادہ خوشحال مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
حکومت نے ملک میں نشہ آور ادویات کے خاتمے کے لئے چار سالہ جامع منصوبہ بھی
ترتیب دے رکھا ہے جس کا مقصد 2014ءتک ملک میں منشیات اور غیر قانونی ادویات
کی روک تھام کو یقینی بنانا ہے۔ اس منصوبے کے تحت قانون نافذ کرنے والے
اداروں کے تعاون سے ملک میں منشیات کی آسان دستیابی کو ختم کیا جائے
گا۔دیکھئے کہ اب حکومت اس حوالے سے کس حد تک سنجیدہ اقدامات کرتی ہے ۔ |