”کچھ دن تو انتظار کیا ہوتا‘ ادھر شوہر نے آنکھیں بند کی
نہیں کہ محترمہ ہاتھوں پر مہندی رچا بیٹھیں۔“
”ہاں بھائی‘ زمانہ ہی سیاہ ہے ‘ ہمارے زمانے میں تو بیوہ عورتیں گھر سے
نکلنے میں بھی جھجھکتی تھیں لیکن آج تو جیسے سب ہی کچھ بدل چکا ہے ۔“
یہ وہ گفتگو تھی جو ایک محفل میں دو خواتین نہایت اہتمام سے کررہی تھیں اور
کئی خواتین اردگرد بیٹھی ان کی باتوں کی تائید میں سر ہلاتی نظر آرہی تھیں۔
جب میں ان میں سے دو ایک ایسی خواتین کو ذاتی طور پر جانتی ہوں جن کی بیوہ
بہن یا بیٹی بیوگی کا عذاب جھیل رہی ہیں لیکن کسی ایک بیوہ عورت کے لئے وہ
جس بے دردی سے اپنی رائے کا اظہار کررہی تھیں اس پر میں سوائے افسوس کے اور
کچھ نہیں کرسکی۔
ہمارا معاشرہ ویسے تو کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے لیکن کچھ سماجی مسائل
ایسے ہیں جن کو حل کرنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے لیکن ہم اپنی دقیانوسی سوچ
اور گلی سڑی اقدار کی لکیر کو پیٹنے سے باز نہیں آتے ۔ بہت سے لوگ مسائل کا
حل چاہتے ہیں لیکن معاشرے کی روش کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ ان گوناں گو
مسائل میں لڑکیوں کی شادی نہ ہونا ‘ عورتوں کی طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی
شرح اور بیوگی بھی شامل ہیں۔
اس وقت ہمارے ہاں ایسی خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو شادی
کے بعد ناچاقی کی بناءپر خلع یا طلاق لے کر گھر بیٹھ جاتی ہیں یا پھر قدرت
ان کے سروں سے شوہروں کا سایہ چھین لیتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کی تعداد میں بھی
خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے جو شادی کی عمرسے تجاوز کرچکی ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 30سے45سال کی 60لاکھ سے زائد
بیوائیںہیں۔ دوسری طرف گیلپ سروے آف پاکستان کی ایک رپورٹ کہہ رہی ہے کہ
پاکستان میں طلاق کی شرح 48فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس طرح روزانہ کی بنیاد
پر پاکستان میں بیواﺅں اور طلاق یافتہ عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا
ہے‘ادھر پاکستان کے سب سے بڑے اور تعلیم یافتہ شہر کراچی میں ایک سروے
رپورٹ کے مطابق خواتین میں خلع لینے کے رُجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے‘
فیملی عدالتوں سے ماہانہ 500 سے زائد خلع کی ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں‘ ایک
ہزار خواتین خلع کے لئے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں جب کہ پانچوں اضلاع کی
فیملی عدالتوں میں تقریباً 6 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں‘ خلع لینے کی
وجوہات میں جبراً شادی‘ جلد بازی میں کی گئی کورٹ میرج اور معاشرے کی دیگر
فرسودہ روایات کے ساتھ ساتھ خواتین کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کرنا بھی
شامل ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق روزانہ فیملی عدالتوں میںدس سے زائد خواتین
خلع کے لئے رجوع کرتی ہیں جن میں زیادہ تعداد کورٹ میرج‘ جبری شادی کرنے
والی خواتین کی ہے‘ دیگر شوہر کے ظلم سے تنگ آکر رجوع کر رہی ہیں۔
بیوہ ہونا کسی کے اختیار میں نہیں اور اسی طرح خلع یا طلاق یافتہ ہونے میں
بھی ضروری نہیں کہ عورت ہی ذمہ دار ہولیکن معاشرہ ایسی خواتین کو اچھی نگاہ
سے نہیں دیکھتا ۔ مردانہ سماج ایسی عورتوں سے دوستی رکھنے میں کوئی قباحت
نہیں سمجھتے لیکن ان عورتوں سے نکاح ان کی لغت میں نہیں ہے۔ایسی خواتین جن
کے والدین نہ ہوں اور انہیں کسی بھی صورت میں تنہا زندگی گزارنی پڑے‘ ان کے
لئے گھروں سے باہر نکلنا باعث ملامت بن کر رہ جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں
جہاں جوان اور کنواری لڑکیوں کی شادیوںکے لئے جو معیارات قائم ہیں وہاں
بیوہ ‘ خلع یا طلاق یافتہ کے ساتھ شادی بے حد پیچیدہ معاملہ نظر آتا ہے اور
اگر کوئی شخص ایسا کرنے کے لئے تیار ہوبھی جائے تو اسے اپنے گھر‘ خاندان
اورمعاشرے کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اکیلی خواتین نہ
تو اپنے کسی عزیز کے ساتھ سفر کر سکتی ہیں اور نہ ہی کسی عزیز کو اپنے ہاں
بلا سکتی ہیں‘ لوگ ان کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرنا شروع کر
دیتے ہیں۔
اکیلی عورت کے ساتھ غیروں کے سلوک کی تو بات ہی کیا اپنوں کا رویہ بھی
انتہائی تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔بہن بھائی یہاں تک کہ ماں باپ بھی اسے بوجھ
سمجھنے لگتے ہیں ایسے میں اگر ان کے ساتھ بچے ہوں تو مرے پہ سو دُرے کے
مصداق اس کی زندگی میں مزید زہر گھل جاتا ہے اور آخرکار اسے فکر معاش اور
اپنے بچوں کو عزت دار زندگی فراہم کرنے کی غرض سے ملازمت اختیار کرنی پڑتی
ہے۔ ایسے میں بچوں کی دیکھ بھال کے نام پر بھی اسے گاہے بگاہے بھابھیوں
اوربہنوں کی جانب سے بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ وہی صورتحال ہے جس
کی وجہ سے خواتین کی اکثریت شوہر کی مار‘ بے عزتی اور زیادتیوں کو برداشت
کرلیتی ہیں ‘تاہم بیواﺅں کے پاس کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بیوہ
عورت کے ساتھ زیادتی کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہے کہ اس کے سسرال والے
اس سے تقریباً قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ بیوہ ہونے بعد شوہر کی جائیداد میں سے
سسرال والے اکثر حصہ نہیں دیتے اور اگر بیوہ عدالت سے رجوع کرے تو وہاں پر
بھی اسے اتنے مسائل درپیش ہوتے ہیں جن کا مقابلہ کرنا اکیلی عورت کے بس کی
بات نہیں جب کہ اسلام بیوہ عورت کو اپنے سابقہ خاوند کے ترکہ میں سے حصہ
دار قرار دیتا ہے خواہ وہ دوسری شادی کرے یا نہ کرے۔
ہمارے معاشرے میں مرد اپنی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کرتا ہے تو لوگ
اس کے فیصلے کو سراہتے ہیںکیوں کہ ان کے نزدیک گھر اور بچوں کی دیکھ بھال
کے لئے دوسری شادی ضروری ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بیوہ عورت دوسری شادی
کرلے تو اس پرالزامات کی بارش کردی جاتی ہے جو ایک انتہائی قبیح عمل ہے۔
ایک بیوہ عورت کو مرد کی نسبت شادی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ وہ
معاشرتی اور معاشی طور پر مرد سے کمزور ہے اس کے لئے بچے پالنا اور معاشرے
میں تنہا رہنا زیادہ مشکل ہے لیکن ہمارے ہاں مرد تو مرد خواتین بھی تنقیدسے
باز نہیں آتیں ۔
ہم مسلم معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اسلامی روایات پر سختی سے عمل درآمد
ہونا چاہئے لیکن کم از کم شادی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے بلکہ ہم شادی
بیاہ کے معاملے میں غیر مسلموں سے بدتر ہیں جب کہ ہمارے پیارے رسول ا نے
شادی کے حوالے سے جو بہترین مثالیں قائم کی ہیں جن پر عمل پیراءہونے سے بے
شمار مسائل سے بچا جاسکتا ہے ۔ |