میں زینب مارکیٹ کے باہر کھڑی اپنی گاڑی کا
انتظار کر رہی تھی‘ ابھی بہ مشکل 2منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ دو فقیر اپنا
سوال دراز کرنے کے بعد اپنا مقصد حاصل کرکے جاچکے تھے لیکن اس کے بعد اگلے
پندرہ منٹوں میں کئی بھکاریوں نے میرا وہاں کھڑا رہنا محال کردیا‘سخت گرمی
میں ایسے میں مانگنے والوں کی قطاروں نے جیسے میرے اعصاب شکستہ کردیئے ۔
میں نے ایسے میں کسی کو سخت سُست کہا ‘تو کسی کو جھڑک دیا ‘ جونہی مجھے
اپنی گاڑی نظر آئی ‘میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس جانب بڑھ گئی ۔
ویسے تو شہر کراچی میںگداگری عام دنوں میں بھی ایک نہایت کامیاب بزنس ہے‘
شاید اسی وجہ سے پیشے سے منسلک لوگ کوئی دوسرا کام کرنے پر راضی نہیں ہوتے
۔ شہر میں بسنے والے تو رہے ایک جانب جنوبی پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان‘
راجن پور‘ خانپور کٹورہ‘ صادق آباد اور بہاولپور سمیت دیگر علاقوں سے تعلق
رکھنے والے ہزاروں گداگر کراچی میں موجود ہیں ۔ان گداگروں میں بوڑھے‘ جوان
اور خواتین کے علاوہ جسمانی معذور بچوں بھی ہوتے ہیں جو شہر کے سگنل‘
چوراہے ‘ہوٹل ‘ ریسٹورنٹس‘ مساجد‘مارکیٹ اور شاپنگ سینٹروں پر قابض ہوجاتے
ہیں۔ ان گداگروں کاکہنا ہے کہ کراچی آنے کا مقصد زیادہ پیسے حاصل کرنا ہے ۔یہاں
کے خوشحال لوگوں سے انہیں زندگی گزارنے کے لئے مناسب رقم اور اشیائے ضروریہ
مل جاتی ہیں ۔
معاشی بدحالی کے باوجود کراچی کے گداگر ایک عام محنت کش سے کئی گنا زیادہ
پیسے کمالیتے ہیں‘یہاں پر عام دنوں میں صحت مند گداگر کی آمدنی 300 سے 400
روزانہ ہے جب کہ معذور گداگر 500 سے ہزار روپے روزانہ کما لیتے ہیں۔رمضان
کے مہینے میں کروڑوں روپے زکواة و خیرات کی مد میں نکالے جاتے ہیں جس کی
وجہ سے رمضان کے مہینے میں گداگروں کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
سنا ہے کہ پیشہ ور گداگروں کےلئے 3 سے 5 سال قید کی سزا اور 500 سے 5000
روپے تک جرمانہ ہے لیکن کم از کم میں نے تو آج تک کسی گداگر کو سزا ہوتے
دیکھا نہ سنا ۔ویسے بھی میرا ناقص خیال یہ ہے کہ یہ منظم گداگر اگر کبھی
کسی وجہ سے گرفتار ہوتے بھی ہوں گے تو وہ عام شہری کی نسبت کچھ معاشی
استحکام اور کچھ ججوں کی رحم دلی کی وجہ سے جلدہی عدالتوں سے ضمانت حاصل
کرلیتے ہوں گے جسکے نتیجے میں یہ گداگر دوبارہ سڑکوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں امن وامان کی مخدوش صورتحال سے پیشہ ورگداگر
بھی پریشان ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ رات کو اپنے بچوں کے ہمراہ شہر کی
سڑکوں اور چوراہوں پر سوتے ہیں۔ جب کبھی شہر کے حالات خراب ہوتے ہیں تو
فائرنگ کی آوازیں سن کر ہم خوف زدہ ہوجاتے ہیں لیکن شہر میں خراب حالات کے
باوجود سڑکوں پر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔
بھیک مانگنے والوں کو کسی کا ڈر خوف نہیں ہے ۔ سٹی وارڈنز ‘ شہری‘ ٹاﺅن
حکومت اور پولیس کی ناک کے نیچے کھلے عام بھیک مانگی جاتی ہے بلکہ پولیس
والے خود فقیروں کو بھیک دیتے نظر آتے ہیں ۔بعض افراد اس بات کو تسلیم کرنے
میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ بعض پولیس والے خود گداگری کے ” کاروبار“
میں برابر کے شریک ہیں۔اس بات کی تصدیق اس امر سے ہوتی ہے کہ مختلف چوکوں‘
مارکیٹوں اور بینکوں میں پولیس اہلکار وں کی بڑی تعداد تعینات ہوتی ہے جو
چاہیں تو ان بھکاریوں اور گداگروں کے خلاف جوشریف لوگوں کو تنگ کرتے ہیں‘
ٹریفک میں خلل ڈالتے اور جرائم میں ملوث ہوتے ہیں ‘ کے خلاف سخت کارروائی
کرسکتے ہیں مگر سرکاری اہلکاروں کو چھوٹی گاڑیوں‘ موٹرسائیکل سواروں اور
خوش طبعی کے عادی نوجوانوں کو گھیر کر نذرانہ وصول کرنے سے فرصت ملے تو وہ
اس طرف توجہ دیں اور خلق خدا کو عذاب سے چھٹکارا دلائیں۔ پیشہ ور گروہ ان
اہلکاروں کو ”ماہانہ “دیتے ہیں یا ”دیگر“ مصروفیات کی بناءپر یہ اہلکار ان
کے تعرض نہیں کرتے خدا بہتر جانتا ہے ۔
اقوام متحدہ کے مطابق 18کروڑ نفوس پر مشتمل پاکستان کی 49 فیصد آبادی خط
غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جب کہ گزشتہ دنوں وزیر خزانہ نے فرمایا کہ
ہماری60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ گو کہ حکومت کا
کہنا ہے کہ وہ غریبوں کےلئے ہر سال 70 ارب روپے مختص کرتی ہے اسکے باوجود
بھیک مانگتے ہوئے افراد کی تعداد خطرناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے‘ غربت
کے مارے افراد نے گداگری کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔حکومتی نااہلی کے سبب
گداگری ایک منظم کاروبار بن چکا ہے جسے مافیا کنٹرول کرتی ہے-مختلف جگہوں
اور علاقوں میں یہ مافیا اپنے خاص گداگر وںکو روزانہ‘ ہفتہ وار یا ماہانہ
کی بنیاد پر تعینات کرتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ جو مقامات گداگری کے انتہائی
منافع بخش قرار دیئے جاتے ہیں اُن کا باقاعدہ سودا کیا جاتا ہے اور انکے
حصول کےلئے بااثر ٹھیکیداروں نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے ”اپنے
گداگروں“سے ان مقامات پر بھیک منگواتے ہیں۔ ان علاقوں میں بولٹن مارکیٹ‘
صدر‘ طارق روڈ‘ ڈیفنس‘ کلفٹن‘ حیدری‘ کریم آباد ‘گلف ‘ زینب مارکیٹ ‘ صدر ‘
پاپوش نگر ‘زمزمہ سمیت کے علاقے شامل ہیں۔
جس طرح سے ہر پیشے میں اچھے اور بر ُے لوگ موجود ہیں اسی طرح سے گداگری کے
پیشے وابستہ افراد کی اگر اکثریت غلط ہے تو بہت سے مستحق بھی ہیں لیکن
افسوس کہ آج اُن میں تفریق ختم ہوکر رہ گئی ہے۔گداگری ایک معاشرتی روگ اور
قوم کی بدحالی کی علامت ہے ۔ ایک غیرت مند اور خوددار معاشرے کو ترجیحی
بنیادوں پر اس کا قلع قمع کرنا چاہئے ۔لاہور ہائی کورٹ نے چند سال قبل پیشہ
وارانہ گداگری کی حوصلہ شکنی کے لئے حکم جاری کرتے ہوئے مفلس اور نادار
افراد کی مالی معاونت کی بات کی تھی ۔ اگر اسی طرز پر حکومتی سطح پر کام
کرتے ہوئے حقیقی غریبوں کو تلاش کرکے ان کی معاونت کی جائے اور پیشہ ور
گداگروں کو قرار واقعی سزا دی جائے تو معاشرہ اس لعنت سے تیزی سے پاک
ہوسکتا ہے۔ |