زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

پرانی کتاب، پرانے کھلونوں اور پرانے دوستوں سے انسان کی بہت سی یادیں وابستہ ہوتی ہیں جو وقتاً فوقتاً اس کو بچپن کی یاد دلاکر حال کی تلخیوں کو بھلانے میں مدد دیتی ہیں۔ انسان کے پاس سب سے بڑی نعمت اسکے ماں باپ ہوتے ہیں جو اسکی کتاب، اسکے کھلونے، اسکے دوست سب کچھ ہوتے ہیں۔ وہ انہیں پڑھ کر ہی سیکھنا شروع کرتا ہے، اپنی توتلی زبان میں انہی کو دوست سمجھ کر سب کچھ بتانے کی کوشش کرتا ہے اور انہی سے کھیلتا ہے حتیٰ کہ وہ ہر طرح سے پرانے ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں ماں باپ ہی ایسا رشتہ ہے کہ جن کی نیت اور خلوص پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ماں باپ کی محبت اور شفقت کا دنیا میں کوئی مول نہیں جو اپنے بچوں کی خوشی اور خواہشات پوری کرنے کے لیے کچھ بھی کر جانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ یقین جانیئے !جن لوگوں کو ماں باپ کا سایہ ملا ہوا ہے وہ خوش قسمت ہیں، کیونکہ ماں باپ سے محروم ہو کر ہی ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ماں نہ ہو تو دل کو دلاسہ دینے والاکوئی نہیں ہوتا، باپ نہ ہو تو زندگی کی دوڑ میں اچھا مشورہ دینے والاکوئی نہیں ہوتا۔ ہر اولاد کی طرح میں بھی اپنے والدین کی موجودگی میں خود کو اس دنیا کا ایک خوش قسمت ترین انسان سمجھتا تھا مگر ستمبر کا مہینہ ایسا ستمگر بن کرآیا کہ اس میں باپ کی شفقت کا سایہ ہمیشہ کے لیے ہی اُٹھ گیا۔ موت برحق اور اٹل حقیقت ہے ، اس سے کوئی بھی ذی روح انکار نہیں کر سکتا۔ اگر خالق کائنات کی محبوب ترین ہستی کو معافی نہیں تو پھر اور کون اس سے بچ سکتا ہے۔ کوئی مرتا ہے تو فنا ہو جاتا ہے اور کسی کی موت رشکِ حیات بن جاتی ہے۔ کوئی مرے تو اپنے ساتھ اپنی ساری ہستی سمیٹ لے جاتا ہے اور کوئی دنیا سے جاتے جاتے بھی زندوں کے سینوں میں بستیاں بسا جاتا ہے۔ 14ستمبر 1937ء بروز منگل کو پیدا ہونے والے صنوبر شاہ (اﷲ غریق رحمت کرے) کی زندگی کے دسیوں نہیں، بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں پہلو ایک بند کتاب کی مانند موجود ہیں۔ وہ ایک بلند حوصلہ، باکردار، کھرے اور دلیر انسان ہونے کے ساتھ ساتھ سخاوت کا پیکر بھی تھے۔اُن کی ملنساری اور مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ گھر آئے مہمان کی خوب خاطر مدارت کرتے، یہی وجہ ہے کہ گھر، گھر کے بجائے ہوٹل زیادہ لگتا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے مرحوم کو اس قدرت عزت بخش رکھی تھی کہ وہ جرگوں کے فیصلے بھی کیا کرتے تھے۔ بعض اوقات ایسے لوگ بھی مشاورت کے لیے حاضر ہوتے جو کسی مجبوری کی وجہ سے ظاہراً تعلقات قائم نہیں رکھ سکتے تھے۔ ایسے لوگ ملاقات کے لیے رات کے وقت کا انتخاب کرتے اور جو مشاورت ملتی اس پر عمل کرنا اپنے لیے سودمند گردانتے۔ مرحوم نے اپنی زندگی کا ابتدائی دور کراچی کے علاقے محمد علی سوسائٹی میں گزارا۔ کچھ عرصہ پیراملٹری فورس میں بھی رہے۔ کوئٹہ تعیناتی کے دوران دائیں پاؤں کے انگوٹھے پر زخم کی وجہ سے فوجی بوٹ پہن نہ سکتے تھے جس کی وجہ سے سروس چھوڑنا پڑی اور پھر کراچی آکر ٹھیکیداری شروع کر دی۔ وہاں سے واپس آئے تو گاؤں کے ہو کر ہی رہ گئے۔ زمینداری کا پیشہ اختیار کیا اور زمیندار ہی کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوئے۔ محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے تو اپنی زندگی کے ساٹھ سال پورے ہونے پر ریٹائرڈ ہو گئے لیکن اس دوران جن لوگوں سے تعلقات قائم ہوئے انہیں چھوڑا نہیں۔ ملاقاتیں اور ٹیلیفون رابطے جاری رہتے تھے۔ سڑک کنارے مکان کی چھت پر بیٹھے رہتے۔ کوئی جان پہچان والاگزرتا تو اسے آواز ضرور دیتے۔ یہی مقام ان کا رابطہ چینل بھی رہا اور گزشتہ کئی سالوں سے اسی مقام سے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور مزارعوں کو بھی چیک کیا کرتے تھے۔ خود زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھے مگر حالاتِ حاضرہ سے مکمل آگہی رکھنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک، مذاہب اور تاریخی مقامات بارے معلومات کا بیش بہا ذخیرہ ضرور رکھتے تھے۔ روزانہ مقبول ترین عالمی ریڈیو اسٹیشنوں بی بی سی، وائس آف امریکا، ریڈیو صدائے روس، چائنا ریڈیو انٹرنیشنل، ڈوچے ویلے اور ریڈیو تہران کی اُردو، ہندی اور پشتو نشریات سُننا اُن کا معمول تھا جبکہ اخبارات کا مطالعہ اور مختلف تاریخی کتب پڑھنے کا شغف بھی رکھتے تھے۔ جب بھی میرا کسی تاریخی موضوع پر اُن سے تبادلہ خیال ہوتا تو اس گفتگو کے دوران جہاں میں بہت ساری مفید معلومات اکٹھی کر لیتا وہیں مجھے اپنے ناقص علم و فہم کا ادراک بھی ہو جاتا۔ والد مرحوم اپنے آباؤ اجداد کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف خود ڈائریاں لکھا کرتے تھے بلکہ اپنے بزرگوں کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ڈائریاں بھی سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔ یہ ڈائریاں الماری میں موجود ایک خفیہ صندوقچی میں ہوتی تھیں، جن کی پرائیویسی کے لیے ایک عدد چھوٹی سی ’’تالی‘‘ بھی لگی رہتی تھی۔ میری پیدائش سے کوئی دو دہائیاں پہلے میرے دادا جان فوت ہوئے لیکن اُن کے ہاتھ کی لکھی روغنی (لیتھو سیاہی سے لکھے ہوئے) اوراق کی ڈائری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے کتنے باشعور انسان تھے اور اسی سلسلے کو والد مرحوم نے بھی جاری رکھا۔ والد صاحب کی رحلت کے بعد جب صندوقچی کھولی گئی تو ڈائریوں سے مفید مشورے، نصائح اور اولاد کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل تحریر شدہ ملا۔ ان ڈائریوں کی مدد سے بڑے بڑوں کو پہچاننے اور پرکھنے میں مدد مل سکے گی۔ والد صاحب کو فوجی تربیت میں فن سپاہ گری سے بخوبی آگاہی حاصل ہوئی۔ شکار کے بہت شوقین تھے۔ لائسنسی بندوق کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ بندوق کا تیل، پل تھرو اور اس کی ضروری خوراک وافر مقدار میں موجود رہتی تھی۔ فاختاؤں، مرغابیوں، جنگلی کبوتروں اور مچھلیوں کا شکار کرتے رہتے تھے۔ مستقل مزاج انسان تھے اور اپنے پیشے کو عبادت کا درجہ دیتے تھے۔ کاشت کاری کے لیے دور دراز سے نئی نئی اقسام کے بیج لاتے۔ خود کاشت کرتے اور دوسروں کو بھی فراہم کرتے۔ کاشت سے پہلے زمین کی تیاری پر خصوصی توجہ رہتی۔ بیج اور کھاد کا بروقت استعمال بخوبی جانتے تھے۔ زمیندار اور کاشت کار حضرات کو مفید مشاورت انہی سے ملتی تھی۔ والد صاحب کی وفات پر عام تاثر بھی یہی تھا کہ ’’زمینداروں کا باپ‘‘ فوت ہو گیا ہے۔ اُن کے اندر کا ایک سادہ لوح دیہاتی پوری توانائیوں کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہا۔ اپنی خامیوں کو کبھی نہیں چھپاتے تھے بلکہ اس کا برملااظہار کر دیتے تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے انتہائی پابند تھے اور آخری عمر میں قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر کا حامل نسخہ اپنے پڑھنے کیلئے رکھا ہوا تھا۔ وفات سے چند روز پہلے تک قرآن پاک کے اسی نسخے کے نو پارے بمعہ ترجمہ و تفسیر مکمل کر چکے تھے۔ بے شمار واقعات ہیں اور سچ یہ ہے کہ ہم تمام بہن بھائیوں نے اپنے والد سے انتہائی محبت کی اور ان سے محبت پائی۔ مرحوم اپنے بارے میں اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے ساتھ ماں باپ کی دعائیں ہیں۔ جس طرح انہوں نے اپنے والدین کی خدمت کی ، اسی طرح مکافاتِ عمل کے طور پر اُن کو اولاد بھی ایسی ہی نصیب ہوئی۔ والد صاحب سخت خو بھی تھے، گھریلو کام کاج کے دوران ہمیں ڈانٹ بھی سننی پڑتی اور کبھی شاباشی بھی ملتی۔ موسم سرما میں چونکہ مانسہرہ (ہزارہ )کے پہاڑی علاقوں میں برفباری کے باعث خاصی سردی ہو جاتی ہے، اس لیے دسمبر 2012ء میں میرے بڑے بھائی اور بڑی بہن کی فرمائش پر والد صاحب اور والدہ صاحبہ دونوں اُن کے ہاں کراچی چلے گئے۔ وہاں سے واپسی پر فروری 2013ء میں والد صاحب کو گلے میں گلٹی کی شکایت ہوئی۔ اسلام آباد کے کمپلیکس ہسپتال (پمز) چلے گئے، جہاں ٹیسٹ کرائے گئے۔ مارچ میں ٹیسٹ رپورٹس آنے پر کینسر کی علامات ظاہر ہوئیں۔ ڈاکٹروں نے بڑے بھائی سے کہا کہ باباجی چند دن کے مہمان ہیں۔ بھائی نے ہم سے تو بات کی مگر والد صاحب کو نہ بتایا۔ پھر نوری ہسپتال ریفر ہو گئے۔ وہاں علاج معالجہ 19اگست تک جاری رہا۔ 20اگست کو سی ایم ایچ راولپنڈی میں زیرِ علاج رہے۔ مرض میں افاقہ ہوا ، 29اگست کو خود ہی کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے بیماری ختم ہو کر رہ گئی ہے اور پھر واپس اپنے گاؤں چلے گئے۔ ایک دو دن تک مطمئن نظر آئے مگر زندگی نے ساتھ نہ دیا اور 3ستمبر 2013ء بروز منگل کو اپنی عمر کی سات دہائیاں گزار کر اس دنیائے فانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ فرما گئے۔ اِنا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اپنی زندگی کی آخری صبح ہی انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ صرف چند گھنٹوں کے ہی مہمان ہیں۔ ہسپتال جانے کیلئے بغیر کسی سہارے کے گاڑی میں خود چل کر بیٹھے اور ساتھ ہی کلمہ طیبہ کا ورد بھی جاری رکھا۔ راستے میں ایک جگہ گاڑی رکوا کر پانی مانگا جو پلایا گیا ،لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں ملک الموت آن ٹپکا۔ اﷲ تعالیٰ نے آخری لمحے میں بھی انہیں کلمے کی موت نصیب فرمائی۔ کالم پڑھنے والے تمام قارئین سے والد مرحوم کے حق میں دعائے مغفرت کی التجا ہے۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 192445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.