بقلم:لبید خان المظفر
پھر 25.06.2013جمعرات کے دن ہم لوگوں نے مدینہ منورہ جانے کا پروگرام بنایا
، صبح کو 6:00بجے ہم لوگ بس میں بیٹھے، جب بس مکہ مکرمہ سے روانا ہوئی اور3
گھنٹے چلی، ڈرائیورنے گاڑی ایک جگہ روکی اور کہا:کھانا،چائے یا پیپسی وغیرہ
جو آپ لوگوں نے چاہا، وہ جلدی سے نوش کریں، بعدمیں بس روانہ ہوگی، سب لوگ
بس سے اتر گئے اور جس نے جو چاہا اس نے وہ کھایا پیا، پھر بس روانہ ہوئی
اور12بجے مدینہ پہنچ گئی، پھر مدینے میں آگے جارکی اور بس والے نے کہا، جو
یہاں اپنے دوستوں یا رشتے داروں کے پاس رکنا چاہے ، وہ رک جائے، بقیہ لوگوں
کوہم ہوٹل لے جائینگے اور جو اترنا چاہے وہ اتر جائے، تو ہمارے گروپ
لیڈرجناب حاجی عبد اللطیف طاہر صاحب نے کہا ،ہم لوگ اترنا چاہینگے، چنانچہ
ہم لوگ اتر گئے، پھر ہم نے انکل سرورصاحب کے گھر میں رکنا تھا ،ہم نے ان کو
فون کرکے کہا ہم لوگ آگئے ہیں، آپ ہم لوگوں کو فلاں جگہ لینے آجائیں، وہ
اپنی گاڑی لے کر آگئے، پھر اتنے لوگ تو ایک گاڑی میں نہیں آسکتے تھے، تو ہم
نے سوچاکہ کچھ لوگ پہلے چلے جائیں اور کچھ لوگ بعد میں چلے جائینگے ،بہرحال
ہم لوگ ان کے گھر گئے ،پانی وانی پی لیا،کچھ آرام کیااور شام کو مسجد نبویﷺ
گئے، باہر چھاؤکا کچھ عجیب قسم کا نظام تھا، جو نظام میں نے آج تک پورے
world میں نہیں دیکھا تھانہ سناتھا ،اور اندر سے کیا شاندار خوبصورتی ، میں
آپ کو کیا بتاؤں، عورتوں کا الگ اور مردوں کا الگ نظام تھا،زم زم کا پانی
بھی ہرجگہ دستیاب تھا، چاروں طرف ہریالی ہریالی سی تھی، پھر ہم نے مغرب اور
عشاء کی نمازیں وہاں پڑھی، روضہ ٔ اقدس پردادا ،دادی ،نانا ،نانی ،ابو،امی،
فلاں فلاں شخص کا سلام پیش کیا او رواپس نکل آئے،عورتوں کی باری ہمارے بعد
تھی ،اس لئے ہم لوگوں کو عورتوں کا انتظار کرنا پڑا، اور جب وہ لوگ آئے ،ہم
ایک ساتھ گھر کو واپس آگئے، گھر میں جاکر کھانا کھا کر سوگئے، صبح کو فجر
کی نماز کے لئے دوبارہ مسجد نبویﷺ گئے ، وہاں سے واپس آکر ناشتہ کیا، ایسا
ہی کچھ دنوں تک ہوتارہا، مگر ایک دن ہماری خوشی کادن تھا ، جمعہ کے دن
uncle sarwar کی چھٹی تھی ،انہوں نے کہا کہ آج آپ لوگوں کو کچھ جگہیں
دکھاتاہوں، پھر وہ ہمیں مسجد قبا ،مسجد قبلتین، مساجد خندق ،مزارِ حضرت
حمزہ او رکئی جگہ دکھانے لے گئے،جنۃ البقیع تو ہم روز جاتے تھے، انہوں نے
یہ بھی کہا کہ میں آپ لوگوں کو شام کو بازار لے جاؤنگا ،وہاں آپ اپنے رشتے
داروں کے لئے کچھ اشیاء لے لینا، پھر وہ شام کو ہمیں بازار لے چلے اور ہم
نے اپنے رشتہ داروں کے لئے کچھ اشیاء لے لیں اور واپسی گھر کو لو ٹے ، مغرب
ہونے والی تھی اور پھر ہم لوگ مغرب اور عشاء کی نماز حرم میں پڑھتے تھے،تو
حرم چلے گئے ۔
مدینۃ الرسولﷺکے بارے میرے جیسا بچہ کیا لکھے گا،کیا بتائے گا، مناسب معلوم
ہوتاہے کہ یہاں ہم اپنے قارئین کو شورش کاشمیری مرحوم کی ایک لازوال تحریر
سوغات میں پیش کریں، وہ رقمطراز ہیں:’’سرورکائنات ﷺ کی سیرت مطہرہ کا ذکر
کرتے ہوئے ایک انسان کو جوافتخار اور مسرت حاصل ہوتی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ان
الفاظ میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ،ذرا غور فرمائیے ، جس ذات اقدس کی
تعریف وثنا خودرب ذوالجلال نے کی ہو، کلا م اﷲ جس کے اوصاف ومحاسن پر
بولتاہو، فرشتے صبح وشام جس پر درود بھیجتے ہو ں اور جس کا نام لے لے کر
ہردور میں ہزاروں انسان زندگی کے مختلف گوشوں میں زندہ و جاویدہوگئے ہوں ،
اس رحمۃ للعامین ﷺکے بار میں کوئی شخص اپنے قلم وزبان کی تمام فصاحتیں اور
بلاغتیں بھی یکجا کرلے اور ممکن ہوتو آفتاب کے اوراق پر کرنوں کے الفاظ سے
مدح وثناء کی عبارتیں بھی لکھتارہے ،یا مہتاب کی لوح پر ستاروں سے عقیدت
وارادت کے نگینے جُڑتارہے ،تب بھی حق ادا نہ کرسکے گا۔
حضور ﷺ کی سیرت کو کسی بھی انسانی سند کی ضرورت نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ سرور
کائنات ﷺ کے ذکر سے انسان اپنے ہی لئے کچھ حاصل کرتاہے ، جس نسبت سے تعلق
خاطر ہوگا ، اسی نسبت سے حضور ﷺ کا ذکر ایک ایسی متاع بنتاچلاجائیگا ،کہ
زبان وبیان کی دنیا اس کی تصویریں بناہی نہیں سکتیں ، جن لوگوں نے اور ان
کی تعداد لامحدود ہے ،جس جس واسطے سے سردار انبیاء ﷺ کی بارگاہ میں حاضری
دی ہے ،وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اپنے دل ودماغ یا روح ونظر کا
نذرانہ پیش کرتے وقت اس دربار کی رونق میں کوئی اضافہ کیاہے ،اس نہج پر
سوچنا بھی سوء ادب ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ظہور قدسی سے لے کر آج تک بارگاہ
رسالت میں حاضر ہونے والا ہرایک شخص اپنے مقام ومرتبہ کی تشکیل کرتارہاہے ۔
کتنے انسان اس خیرالبشر ﷺ کی بدولت کیاسے کیاہوگئے، پھر یہ سلسلہ چودہ
سوبرس سے رکا نہیں ،جاری ہے، آندھیاں آتی رہیں ، طوفان اٹھتے رہے ،سیلاب
موجزن ہوئے ،بادلوں نے گرجنا شروع کیا ،بجلیاں کوندتی رہیں ،صرصرنے صباکو
روکا ، خزاں نے بہار کا نشیمن لوٹا، پھول بادسموم کا لقمہ ہوگئے ، لیل
ونہار کی گردشیں رک گئیں ، زمانہ ٹھہر تارہا، صبح کا چہرہ بارہا اداس ہو ا
، شمام لہو لہان ہوگئی ، رات کے دل میں خنجرترازوہوئے ،تاریخ نے پلٹے کھائے
، سلطنتیں بن بن بگڑیں ،حکومتیں تہس نہس ہوگئیں ، عروج وزوال کے سینکڑوں
نقشے سامنے آئے ، لیکن سرور کائنات ﷺ سے نوع انسان کی حلقہ بگوشی کا سلسلہ
منقطع نہ ہوا، تاریخ اٹھائیے او رورق پہ ورق پلٹئے ،معلوم ہوگاکہ ایک ذات
نے چودہ صدیوں میں کروڑوں انسانوں کو نشوونمادی ، بالاوبلندکیا، دوام بخشا
او صرف ایک نسبت کی بدولت قیامت تک زندہ کرڈالا ، پھر یہ محض عقیدت کی بات
نہیں ، ارادت کا تذکرہ نہیں ، اخلاص کا فسانہ نہیں ،شوق کی دھن نہیں ، عشق
کا راگ نہیں ، حسن کی ثناء نہیں تعریف کا لہجہ یا ثناء کا زمزمہ نہیں
،ہرایک بات نپی تلی ، صاف ستھری اور بولتی چالتی شہادت کے ساتھ موجود ہے ۔
اس وقت کرۂ ارضی پر مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جو ازروئے قرآن تمام انبیاء
ومرسلین پرعقیدہ ٔایمان رکھتی ہے ،وہ مختلف قوموں کے ان پیغمبروں کی بھی
تصدیق کرتی ہے ،جن کے بارے میں ان کی پیروکار قومیں صرف قیاسی تذکرہ او
رظنی روایتوں پر یقین رکھتی ہیں ، جن کی مقدس کتابیں خود ان کے ہاتھوں
تحریف کا شکار ہوئی ہیں او رجن کی اصلیتوں میں حک واضافہ ہواہے ، جن کے
مذاہب زمانۂ قبل از تاریخ کی نذر ہوگئے ،لیکن محمد عربی ﷺ کا اسلام وہ واحد
دین ہے جس نے تاریخ کی بھی حفاظت کی ہے او رجس کی ایک ایک ادا تاریخ نے
محفوظ رکھی ہے ۔
کوئی دین او رکوئی پیغمبر تاریخ کی شاہراہ سے اس طرح نہیں گزرا جس طرح
ہمارے آقاومولا ﷺ گزرے ہیں ،تاریخ نے ان کی رکاب تھامی اور علم نے ان کے
قدم چومے ہیں ، یہ محض دعوی نہیں ،حقیقت ہے ، ختم المرسلین ﷺ کی سیرت اقدس
کی اقتضاء یہی تھی کہ اس کا ایک ایک لفظ ،ایک ایک حرف ، ایک ایک شوشہ ، ایک
ایک نقطہ محفوظ ہوجاتا اور یہ سب کچھ محفوظ ہوگیا، پھر یہ التزام ان کے
بارے میں ہی نہیں ، بلکہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ دیا، جوان کے ساتھ رہے
،مثلاً ان کے ساتھ ان کے اہل بیت ، ان کی ازواجِ مطہرات، ہماری مائیں ، ان
کے جاں نثار ، ان کے خادم اور ہمارے مخدوم، حتی کہ ان کے دشمن بھی اپنی
تمام کارگزاریوں کے ساتھ تاریخ کے تذکروں مین موجود ہیں ، پھر یہ قافلہ آج
تک چل رہاہے ، اس قافلے میں جلیل المرتبت صحابہؓ ہیں کہ تاریخ ان کے پاؤں
کو بوسہ دے کر نکلتی ہے ، تابعین بھی ہیں کہ تذکرے ان کی روایتوں سے
جگمگاتے ہیں ، تبع تابعین بھی ہیں کہ عقل ان سے عشق کی بھیک مانگتی ہے
،ائمہ بھی ہیں کہ شہادت ان کے ساتھ چلتی ہے ،فقیہ بھی ہیں کہ آستانۂ رسالت
پر کشکول لے کر کھڑے ہیں ،محدث بھی ہیں کہ حضور ﷺ کے مقدس ہونٹوں کی صدائیں
چنتے ہیں ، عالم بھی ہیں کہ نقوشِ قدم کے تعاقب میں چلے جاتے ہیں ،مشایخ کی
بھیڑہے ، اہل اﷲ کا ہجوم ہے ،عابدوں کا حلقہ ہے ،پھر اسی پر اکتفاء نہ
کیجئے ، بڑھتے چلئے ، فاتحین کا لاؤلشکر ہے ،جان بازوں کی فوج ِظفر موج ہے
، سپہ سالاروں کا انبوہ ہے ، شہنشاہوں کا غول ہے ، کیسے کیسے لوگ خانہ
زادوں میں ہیں او رکس کس عجز سے جھکتے چلے جاتے ہیں ،زبانوں میں تاثیرہیں،
تو اس نام سے ، قلم میں ولولہ ہے تو اس کے ذکرسے ،زبان میں بانکپن ہے، تو
اس کے خیال سے ،دل میں سرور ہے تو اس کے تصور سے ،دماغ میں حسن ہے تو اس کے
جمال سے ، آنکھوں میں نور ہے تو اس کے ظہورسے ۔
یہ آج کی دنیا جو سائنس کی بدولت کہاں سے کہاں نکل گئی ہے اور تمام ملکوں
کی زمین سمٹ کر ایک ذہنی وفاق بن گئی ہے ، بزعم خویش ترقی کی اس منزل میں
ہے کہ فکر ونظر کے معیارہی بدل گئے ہیں ، لیکن بڑاانسان بننے کے لئے جن
عالمگیر سچائیوں کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ علم وفلسفہ کی تمام منزلیں قطع کرنے
کے باوجود ابھی پرانی ہیں اواتنی پرانی ہیں جتنی کہ یہ کائنات پرانی ہے ،
ہمارے زمانے کے عظیم ترین مغربی مؤرخ ’’فلپ حتی ‘‘ نے یون ہی نہیں کہاتھاکہ
:’’تمام دنیاکی مائیں ہررو زجتنے بچے پیداکرتی ہیں ، ان میں ایک بہت بڑی
تعداد ان بچوں کی ہوتی ہے جن کے والدین ان کا نام پیغمبر اسلام (ﷺ) کے نام
پررکھتے ہیں اور اس انداز سے رکھتے ہیں کہ اس میں حلقہ بگوش کا ناز
پایاجاتاہے یاپھر یہ نام اس عالیشان پیغمبر ﷺ کے ان اعزہ واقرباء کے نام
پرہوتے ہیں جو ان کے پیروکارتھے اور ان کی بدولت مختلف رشتوں کے باعث زندہ
و جاوید ہوگئے ، محمد عربی ﷺ کے سوا اور کسی پیغمبر کویہ خصوصیت حاصل نہیں
ہوئی اور نہ کوئی امت کرۂ ارضی پر ایسی موجود ہے ،جو اپنے پیغمبر او ران کی
آل پر شب وروز کے ہرحصے میں ا س تواتر وتسلسل کے ساتھ درود وسلام بھیجتی
ہو‘‘۔۔
حضور ﷺ کا ذکر اس کج مج بیان کی گنہگار زبان سے اس آستانۂ حسن وجمال پر ایک
فقیرانہ صداہے ،عجب نہیں یہی توشۂ آخرت ہو۔
سبحان اﷲ ما اجملک، مااحسنک،ما اکملک ‘‘۔
ایک ہفتہ یہاں قیام کے بعد ہم مدینہ ایئرپورٹ سے کراچی کے لئے اشکبار
آنکھوں اور گرفتہ دلوں کے ساتھ پا برکاب ہوئے۔
مولای رب صل وسلم دائماًابداً۔۔۔۔۔علی حبیبک خیر الخلق کلہم ۔ |