آج اپنے آفس سے چھٹی اس لیے لی
تھی کہ پاکستان ٹیم کی ممکنہ جسے کہنا چاہیے ہنڈرڈ پرسنٹ فتح کا بقول شخصے
بقلم خود مزہ لے سکوں مگر یہ کیا کہ ناشتہ کے فوراً بعد ہی پاکستانی ٹیم کا
وہ حشر ہوتے دیکھا کہ جسے تحریر کرنا تو ممکن ہے مگر یہ امکان بالکل نہیں
کہ اسے شائع بھی ہونے دیا جائے گا۔
سری لنکا کے شہر گال میں ہونے والے سیریز کے پہلے کرکٹ ٹیسٹ میچ میں سری
لنکا نے اپنی ممکنہ شکست کو حیرت انگیز فتح میں بدل کر پاکستان کو ٥٠ رنز
سے شکست دے دی۔
سیریز کے پہلے ٹیسٹ کی آخری اننگ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو فتح سے ہمکنار
ہونے کے لیے مجموعی طور پر صرف 168 رنز درکار تھے جس کے تعقب میں پاکستان
کی پوری ٹیم صرف 117 رنز بنا سکی۔
حالانکہ ٹیسٹ میچ کے چوتھے دن جب پاکستان نے دوسری اننگ اکہتر رنز دو
کھلاڑی آؤٹ پر شروع کی تو فتح کے لیے صرف ٩٧ رنز درکار تھے اور اسکے ٨
کھلاڑی باقی تھے۔ تاہم سری لنکن ٹیم کی پیشہ ورانہ کارکردگی کے باعث اور
ہماری ٹیم کی غیر زمہ دارانا کارکردگی کے باعث پاکستانی بیٹنگ لائن ریت کی
دیوار ثابت ہوئی۔ افسوس ناک بات یہ رہی کہ چوتھے دن کے پہلے ہی اوور میں
محمد یوسف اور سلمان بٹ پویلین واپس لوٹ گئے جس کے بعد وکٹیں گرنے کا سلسلہ
جاری رہا اور بالآخر پاکستان کی پوری ٹیم نے ڈریسنگ روم میں ہی جا کر آرام
کرنا زیادہ مناسب سمجھا اور اس طرح پاکستان کی ٹیم جو میچ کے تینوں دن پورے
میچ پر سری لنکن ٹیم پر حاوی رہی صرف دو تین گھنٹوں میں واضع فتح کو افسوس
ناک شکست میں تبدیل ہونے سے روکنے سے قاصر رہی۔
اب پاکستان کی حالیہ فتوحات پر اگر عوام نے اور اداروں اور حکومت نے جس قدر
ٹیم کو سپورٹ کیا اور ان کو نوازا۔ اب ہم اگر اس غیر زمہ دارارانہ شکست پر
ٹیم کو کچھ کہیں تو لوگ کہیں گے جیت گئے تھے تو شاباشی مل رہی تھی اور اب
ہار گئے ہیں تو سب کوس رہے ہیں۔ تو میرے بھائیوں یہی تو سپرٹ ہونی چاہیے کہ
فتح پر خوشی اور انعامات ملنے چاہیے اور شکست پر اور وہ بھی انتہائی غیر
زمہ دارانہ اور شرمناک شکست پر کیا ہم عوام کو اتنا بھی اختیار حاصل نہیں
کہ ان کی خرابیوں پر کچھ کہہ سکیں جس طرح ان کی اچھائیوں پر ان کو کہا جا
رہا تھا۔
یہ تو شکر کریں ہمارے کھلاڑی کہ فتح کی صورت میں ملنے والے انعامات شکست کی
صورت میں واپس نہیں لیے جاتے وگرنہ لگ پتہ جاتا ہمارے قومی کھلاڑیوں کو کہ
غیر زمہ داری سے کھیلنے کا انجام کیا ہوتا ہے تو پھر دیکھتے کہ ہمارے قومی
کھلاڑی کب تب غیر زمہ داری سے کھیلتے۔
بات صاف ہے بھائی کہ اچھا کرو چاہے ہار جاؤ مگر خدارا اتنا برا مت کھیلو کہ
عوام سے ملنے والی داد و ہیش کو چند ہی دنوں میں نعروں اور لعن طعن میں
بدلتا دیکھنا پڑے۔
مگر رونا تو اسی بات کا ہے کہ یہ بے چارے کھلاڑی بھی تو ہماری ہی قوم سے
ہیں تو جیسی قوم ہو گی ویسے ہی کھلاڑی ہونگے، ویسے ہی لکھاری ہونگے، ویسے
ہی دانشور ہونگے، ویسے ہی زمہ داران ہونگے، ویسے ہی سیاستدان ہونگے اور
بالآخر ویسے ہی حکمران ہونگے۔ اور ویسے ہی عوام ہونگے۔
اللہ ہمارے تمام مزکورہ بالا شعبہ جات کے لوگوں کو ہدایت و رہنمائی عطا
فرمائے آمین (یاد رہے مزکورہ بالا میں یہ عاصی و گناہ گار بھی کسی نا کسی
شعبے میں ضرور شامل ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا ) |