حضور اکرم ﷺ 23 سال کے مختصر سے عرصے میں ایک عظیم انقلاب
برپا کرکے اور دنیا کا عظیم الشان نظام قائم کرکے گئے تھے، پھر خلفائے
راشدین نے اس نظام کو مزید پھیلایا اور مضبوط کیا۔ لیکن بدقسمتی سے آہستہ
آہستہ اس نظام کو کچھ لوگوں نے خراب کرنا شروع کیا اور تنزلی آتی گئی، لیکن
پھر بھی جیسے کیسے یہ نظام خلافت 1924ءتک قائم رہا۔
1924ءمیں باقاعدہ اس نظام کے خاتمے کا اعلان ہوا اور اس وقت سے لے کر آج تک
امت مسلمہ بغیر خلافت کے ایک مسلسل گناہ کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس نظام کو
قائم کرنے کے لئے بہت سی تحریکیں چلیں لیکن آپس کے فروعی اختلافات کی وجہ
سے کامیابی نہ مل سکی۔ اور آج جس دور میں ہم موجود ہیں یہ فروعی اختلافات
اپنے عروج کو پہنچ چکے ہیں، بے شمارقابل اور باصلاحیت علماءاپنا قیمتی وقت
اور زندگی کا بہترین سرمایہ ان فروعی اختلافات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں،اس سے
بھی عجیب بات یہ ہے کہ کئی قابل قدر شخصیات ایسے اختلافات میں اپنا وقت اور
صلاحیت برباد کررہی ہیں جن کا فیصلہ صحابہ کرام کے دور میں بھی نہیں
ہوسکا۔اسلام دشمنوں نے بڑی چالاکی اور مکاری کے ساتھ امت کے باصلاحیت لوگوں
کا رُخ دوسری طرف موڑ دیا ہے جس کی وجہ سے دشمن تو اپنا کام بڑے آرام سے
کررہا ہے لیکن امت کا درد رکھنے والوں کے آگے ان کے اپنے ہی رکاوٹ بن جاتے
ہیں۔
اس حوالے سے ہمیں حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی اس فریاد پر
غور کرنا چاہئے جسے مفسر قرآن مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
”مفتی محمد شفیع مرحوم ومغفور فرماتے ہیں کہ میں حضرت مولانا سید محمد انور
شاہ کاشمیری رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک دن نماز فجر کے وقت اندھیرے میں
حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں۔ میں نے
پوچھا”مزاج کیسا ہے“ انہوں نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے میاں مزاج کیا پوچھتے ہو،
عمر ضائع کردی.... میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمرعلم کی خدمت میں اور
دین کی اشاعت میں گزری ہے، ہزاروں آپ کے شاگرد علماءہیں جو آپ سے مستفید
ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی
عمر کام میں لگی۔ تو حضرت نے فرمایا کہ” میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی
عمر ضائع کردی“ میں نے عرض کیا کہ حضرت اصل بات کیا ہے؟ فرمایا ”ہماری
عمروں کا ہماری تقریروں کا ہماری ساری کوششوں کا خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے
مسلکوں پر حنفی مسلک کی ترجیح قائم کردیں، امام ابو حنیفہ کے مسائل کے
دلائل تلاش کریں، یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی
زندگی کا۔
اب غور کرتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی! پھر فرمایا” ارے میاں اس بات
کا کہ کون سا مسلک صحیح تھا اور کون سا خطاءپر ؟ اس کا راز تو کہیں حشر میں
بھی نہیں کھلے گا اور نہ دنیا میں اس کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی قبر میں
منکر نکیر پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا؟(نماز
میں) آمین زور سے کہنا حق تھا یا آہستہ کہنا حق تھا، برزخ میں بھی اس کے
متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا، روز محشر
اللہ تعالیٰ نہ امام شافعی ؒ کو رسوا کرے گا نہ امام ابوحنیفہ ؒ کو ، نہ
امام مالک کو،اور نہ امام احمد بن حنبل کو.... اور نہ میدان حشر میں کھڑا
کرکے یہ معلوم کرے گا کہ امام ابوحنیفہ نے صحیح کہا تھا یا امام شافعی ؒ نے
غلط کہا تھا، ایسا نہیں ہوگا۔
تو جس چیز کا نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے نہ برزخ میں ، نہ محشر میں اس کے
پیچھے پڑکر ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی جو سب
کے زندیک مجمع علیہ اور وہ مسائل جو سبھی کے نزدیک متفقہ تھے اور دین کی جو
ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاءکرام لے کر آئے تھے جن
کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا وہ منکرات جن کو مٹانے کی
کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی آج اس کی دعوت ہی نہیں دی جارہی ، یہ ضروریات
دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے اور اغیار سبھی دین
کے چہرے کو مسخ کررہے ہیں اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا
چاہئے تھا وہ پھیل رہے ہیں، گمراہی پھیل رہی ہے ، الحاد آرہاہے، شرک وبت
پرستی چلی آرہی ہے، حرام وحلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے لیکن ہم لگے ہوئے ہیں
ان فرعی وفروعی بحثوں میں، اس لئے غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کررہا ہوں کہ
عمر ضائع کردی۔(وحدت امت،ص13 مفتی محمد شفیعؒ)۔
حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی اس فریاد پر تمام امت کو بالعموم
اور علمائے کرام کو بالخصوص توجہ فرمانی چاہئے اور امت مسلمہ کے حقیقی
مسائل کی طرف رُخ کرنا چاہئے۔اس وقت امت کا سب سے بڑا مسئلہ اس نظام کا
قیام ہے جس کے لئے انبیاءمبعوث ہوئے، خاص طور پر نبی اکرم ﷺ کی بعثت ہوئی،
آج امت اس نظام سے محروم ہے اور بدقسمتی سے ہمارے دینی رہنما بھی اس لاحاصل
کام میں لگ چکے ہیں جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا سوائے اس کے کہ آخر کار
کف افسوس ملنا پڑے گا۔ مشکلات تو ان قوموں کو پیش آتی ہیں جن کے پاس نہ
کوئی راستہ ہوتا ہے اور نہ کوئی بتانے والا، ہمارے پاس تو نبی اکرم ﷺ والا
راستہ بھی ہے اور بتانے والا قرآن بھی، کمی صرف یہ ہے کہ ہم اس طرف متوجہ
نہیں ہو رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،۔
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ
کشمیری ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اجتہادی مسائل اور ان کے اختلاف جن میں ہم
اور عام اہل علم الجھتے رہتے ہیںاور علم کا پورا زور اس پر خرچ کرتے ہیں،
ان میں صحیح وغلط کا فیصلہ دنیا میں تو کیا ہوتا میرا گمان تو یہ ہے کہ
محشر میں بھی اس کا اعلان نہیں ہوگا کیونکہ رب کریم نے جب دنیا میں کسی
امام مجتہد کو باوجود خطا ہونے کے ایک اجر وثواب سے نوازا ہے اور ان کی خطا
پر پردہ ڈالا ہے تو اس کریم الکرما کی رحمت سے بہت بعید ہے کہ وہ محشر میں
اپنے ان مقبولان بارگاہ میں سے کسی کی خطاءکا اعلان کرکے اس کو رسوا کریں۔
مفتی شفیع رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ہماری دینی جماعتیں جو تعلیم دین یا
ارشاد وتلقین یا دعوت وتبلیغ اور اصلاح معاشرہ کے لئے قائم ہیں اور اپنی
اپنی جگہ مفید خدمات بھی انجام دے رہی ہیں ان میں بہت سے علماءوصلحاءاور
مخلصین کام کررہے ہیں۔ اگر یہی متحد ہو کر تقسیم کار کے ذریعہ دین میں پیدا
ہونے والے تمام رخنوں کے انسداد کی فکر اور امکانی حد تک باہم تعاون کرنے
لگیں اور اقامتِ دین کے مشترک مقصدکی خاطر ہر جماعت دوسری کو اپنا دست
وبازو سمجھے اور دوسروں کے کام کی ایسی ہی قدر کریں جیسی اپنے کام کی کرتے
ہیں تو یہ مختلف جماعتیں اپنے اپنے نظام میں الگ الگ رہتے ہوئے بھی اسلام
کی ایک عظیم الشان طاقت بن سکتی ہیں اور ایک عمل کے ذریعے اکثر دینی
ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہیں(وحدت امت26)۔
مفتی صاحب رحمہ اللہ نے یہ ارشادات کئی سال پہلے فرمائے، آج تو صورتحال اس
سے بھی بدتر ہو چکی ہے، پہلے جو فروعی اختلافات صرف اختلافات تھے آج
بدقسمتی سے ان اختلافات پر باقاعدہ جماعتیں اورتنظیمیں بن چکی ہیں جن کے
لئے باقاعدہ فنڈنگ ہوتی ہے دفاتر بنے ہوئے ہیں بڑے بڑے ہوٹلوں میں پروگرامز
ہوتے ہیں۔ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسلام اور قرآن کا نام
لینے والے مسلمان آج سارے جرائم اور بداخلاقیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، ہمارے
بازارجھوٹ،فریب،سود،قمار سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کے چلانے والے کوئی یہودی
نہیں،ہندو بنئے نہیں، اسلام کے نام لیوا ہیں، ہمارے سرکاری محکمے رشوت،ظلم
وجور،کام چوری، بے رحمی اور سخت دلی کی تربیت گاہیں بنے ہوئے ہیں اور ان کے
کارفرما بھی نہ انگریز ہیں ، نہ ہندو بلکہ محمد مصطفی ﷺ کے نام لینے والے
اور روز آخرت پر ایمان کا دعویٰ رکھنے والے ہیں........ان حالات میں کیا ہم
پر یہ واجب نہیں کہ ہم غور وفکر سے کام لیں اور سوچیں کہ اس وقت ہمارے آقا
رسولِ کریم ﷺ کا مطالبہ اور توقع اہل علم سے کیا ہوگی؟ اور اگر محشر میں آپ
نے ہم سے سوال کر لیا کہ میرے دین اور شریعت پر اس طرح کے حملے ہو رہے تھے،
میری امت اس بدحالی میں مبتلا تھی، تم وراثت نبوت کے دعویدار کہاں تھے؟ تم
نے اس وراثت کا کیا حق ادا کیا؟ تو کیا ہمارا یہ جواب کافی ہو جائے گا کہ
ہم نے رفع یدین کے مسئلہ پر ایک کتاب لکھی تھی یا کچھ طلباءکو شرح جامی کی
بحث حاصل ومحصول خوب سمجھائی تھی، یا حدیث میں آنے والے اجتہادی مسائل پر
بڑی دلچسپ تقریریں کیں تھیں، یا صحافیانہ زور قلم اور فقرہ بازی کے ذریعہ
دوسرے علماءوفضلاءکو خوب ذلیل کیا تھا........اگر ان(فروعی بحثوں) میں کچھ
للٰہیت اور اخلاص ہوتا تو ہم ان حالات کے تحت اسلام اور دین کے تقاضوں کو
پہچانتے اور فروع سے زیادہ اصولِ اسلام کی حفاظت میں لگے ہوتے۔(وحدت امت)
واقعتا آج ہم اصولِ دین کو بالکل چھوڑ کر فروعی اختلافات میں پڑے ہوئے ہیں،
ہم نے اپنی اپنی جماعتوں کو بُت بنا دیا ہے جن کی ایسی پوجا کی جاتی ہے کہ
ان کے علاوہ کسی اور کو قطعا برداشت کرنے کے لئے نہیں، اس سے بھی بڑا ظلم
یہ ہے کہ ایک ہی مسلک والے اپنی مختلف مقاصد کے لئے بنائی جانے والی
جماعتوں اور تنطیموں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ایک دوسرے کے خلاف
جلسے ہوتے ہیں، اخبارات میں بیان بازی ہوتی ہے، تقریرں میں جملے کسے جاتے
ہیں نعرے بازی ہوتی ہے۔
مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: حالات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ
مقصد اصلی ہی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے اس لئے ہماری توانائی اور علم
وتحقیق کا زور آپس کے اختلافی مسائل پر صرف ہوتا ہے، وہی ہمارے جلسوں
،وعظوں رسالوں اور اخباروں کا موضوع بحث بنتے ہیں ہمارے اس عمل سے عوام یہ
سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ دین اسلام صرف ان دو چیزوں کا نام ہے اور
جس رُک کو انہوں نے اختیار کرلیا ہے، اس کے خلاف کو گمراہی اور اسلام دشمنی
سے تعبیر کرتے ہیں،....اسلام وایمان ہمیں جس محاذ پر لڑنے اور قربانی دینے
کے لئے پکارتا ہے وہ محاذ دشمنوں کی یلغار کے لئے خالی پڑا نظر آتا
ہے،....آخر ہم اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ بعثتِ انبیاءاور نزول قرآن کا
وہ مقصد عظیم جس نے دنیا میں انقلاب برپا کیا اور جس نے اولاد آدم کو
بہیمیت سے نکال کر انسانیت سے سرفراز کیا۔ اور جس نے ساری دنیا کو حلقہ
بگوش بنادیا کیا وہ صرف یہی مسائل تھے جن میں ہم اُلجھ کر رہ گئے ہیں
۔(وحدت امت)
مفتی صاحب رحمہ اللہ کے اس دردِ دل کی روشنی میں ہمیں حضور ﷺ کا مقصد بعثت
:
ھوالذی ارسل رسولہ باالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ
کو مستحضر کرکے اپنی محنتوں کا رُخ اس طرف موڑنا چاہئے۔اور قرآن مجید جو
اللہ کی عظیم کتاب ہے اس کی طرف خصوصی طور پر رجوع کرنا چاہئے۔ مفتی صاحب
نے شیخ الہند رحمہ اللہ کا وہ واقعہ بھی روایت کیا ہے جس میں انہوں نے قرآن
سے تعلق جوڑنے کے حوالے سے اہم ہدایات فرمائیں تھیں مفتی صاحب فرماتے ہیں:
شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب قدس اللہ سرہ مالٹا کی چار سالہ جیل سے
رہائی کے بعد دارالعلوم دیوبند میں تشریف لائے تو علماءکے ایک مجمع کے
سامنے آپ نے ایک اہم بات ارشاد فرمائی۔ فرمایا:
ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں، یہ الفاظ سُن کر سار مجمع
ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استاذ العلماءدرویش نے اسّی سال علما کو درس دینے
کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟، فرمایاکہ میں نے جہاں تک
جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیامیں مسلمان دینی اور دنیوی
ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ایک ان کا
قرآن کو چھوڑ دینا، دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی، اس لئے
مَیں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں
کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لئے لفطی تعلیم کے
مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کئے جائیں ، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت
میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے
آمادہ کیا جائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ
کیا جائے۔
مفتی صاحب فرماتے ہیں” نبَّاضِ امّت نے مِلّتِ مرحومہ کے مرض کی جو تشخیص
اور تجویز فرمائی تھی باقی ایّام زندگی میں ضعف وعلالت اور ہجوم مشاغل کے
باوجود اس کے لئے سعی پیہم فرمائی۔(وحدت امت) |