بڑھتی ہوئی عریانی کی طرف بھی توجہ دیں

پاکستان میں لڑکیوں کی فطری شرم و حیاء کو ختم کرنے کا کام تعلیم کے پرائمری لیول سے ہی شروع کردیا جاتا ہے جب ننھے بچوں بچیوں سے سٹیج پر Tableu کے نام سے اداکاری کروائی جاتی ہے۔ اس کے بعد تعلیم کی ہر سطح پر Co-education کے ذریعہ لڑکوں اور لڑکیوں کے آپس میں ملنے اور بات چیت کرنے کی جھجھک مٹائی جاتی ھے۔ کالج، یونیورسٹی کی سطح پر تو صنف کا فرق ہی مٹ جاتا ھے۔

عام پردہ دار خواتین کو ریل کے سفر کے دوران مردوں کے ساتھ ایک ہی ڈبے میں سفر پر مجبور کیا جاتا ہے، جس سے شیرخوار بچوں کی مائیں سخت پریشان ہوتی ہیں۔ پردے کی جو سہولتیں تقسیم برصغیر سے قبل عورتوں کو میسر تھیں اور آج بھی ہندوستان میں نظر آتی ہیں وہ ایک ایک کرکے ختم کر دی گئیں۔ اکثر بازاروں اور دیگر مقامات پر عوام کی سہولت کے لئے صاف ستھرے Toilets کا نظام ھی ختم کردیا گیا ہے، خواتین کے لئے علیحدہ Toilets ہونا تو دور کی بات ہے، جس سے دور سے آنے والی خواتین کو بہت پریشانی ہوتی ہے۔ سنیماؤں اور دیگر تفریحی مقامات پر خواتین کے لئے علیحدہ بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی، انہیں مردوں کے درمیان بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ نئے فیشنوں کے نام پر بازاروں میں خواتین کے ایسے سلے سلائے کپڑے بیچے جارہے ہیں جن سے جسم کی پردہ پوشی کم سے کم ھوتی جارہی ھے۔ اب تو زیریں(lower )جسم پر چپکنے والے ایسے باریک لباس پہنے جارہے ہی کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کوئی لباس پہنا ہؤا ہے، اور قمیضوں کے چاک اتنے اوپر کردئے گئے ہیں کہ کمر سے ٹخنے تک کا جسم بے لباس نظرآتاہے۔

یہ ان لوگوں کا کارنامہ ہے جو عورتوں کی نمائش کے ذریعہ اپنا مال بیچتے ہیں۔ ان پر مسلمان ملکوں کے کرتا دھرتاؤں کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ھے۔ تمام اسلامی اقدار “آئین پاکستان“ میں دفن ہیں، انکا معاشرے میں اطلاق کم ہی نظر آتا ہے۔ بے حیائی کی اس دوڑ میں نو دولتئے اور ان کی حرص میں ان جیسے بننے کی کوشش کرنے والے پیش پیش ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو بے پردگی اور عریانیت کو ہی دین کی معراج سمجھتے ہیں۔ ہمارے دین کے ٹھیکیدار بھی اس معاملے میں خاموش رہنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں اپنے حلوے ماندے سے کام ہے اور بس۔

اب کچھ دنوں سے "فیشن شوز" کے نام پر عورتوں کو نیم عریاں لباس میں مردوں کے سامنے ٹہلایا جا رہا ہے، جسکو “catwalk" کہتے ہیں اور جو میرے نزدیک اسلام میں حرام ہے۔ اس پر بھی کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ عورتوں کو مکمل برہنہ کرنا تجارتی مصلحتوں کے خلاف ہے کیونکہ اسکے بعد کچھ دیکھنے کے لئے باقی نہیں رہے گا اور ان شوز سے عوام کی دلچسپی ختم ہو جائے گی۔ امریکہ وغیرہ کے ہوٹلوں میں عورتوں کو topless لباس پہنا کر یہ تجربہ کیا جاچکا ہے۔ معلوم ہئوا کہ نیم عریاں لباس زیادہ منافع بخش ہے اور اس سے لوگوں کی دلچسپی قائم رہتی ہے، اس لئے وہ "ٹاپ لیس" سے نیم عریانی کی طرف واپس آگئے ہیں۔ پاکستانی اب نیم عریانیت کی منزل کی طرف گامزن ہیں ، اللہ رحم کرے۔اسی شرمناک عریانیت کا نتیجہ ہے کہ میڈیامیں کمسن بچیوں، تنہا لڑکیوں اور بے بس طالبات کے ساتھ زیادتیوں میں اضافہ کی خبریں تسلسل سے آرہی ہیں۔

یہ سب کچھ دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ پاکستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو جائے، جو ان عریاں شوز کا انعقاد کرنے اور ان میں حصہ لینے والوں کو فی کس چالیس کوڑے اور ان کے پیش کردہ لباس پہننے والوں کو دس، دس کوڑے ماریں، کیونکہ برائیوں سے روکنے کے کئے جسمانی سزاؤں سے بہتر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ٹیلیویزن پر ان “شوز“ کا دکھانا قطعی ممنوع اور قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔

ظفر عمر خان فانی
About the Author: ظفر عمر خان فانی Read More Articles by ظفر عمر خان فانی: 38 Articles with 39198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.