صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اﷲ
نے سرکٹ ہاؤس ملتان میں کابینہ کمیٹی برائے محرم الحرام کے دیگر اراکین
صوبائی وزیر ماحولیات شجاع خانزادہ، آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب اور
ہوم سیکرٹری کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے
کہ محرم الحرام کے موقعہ پر سیکیورٹی کے فل پروف انتظامات کرنے کے لئے وزیر
اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر خصوصی کابینہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جو تمام
ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرکے اقدامات کا جائزہ لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا
کہ طویل مشاورت اور بحث مباحثہ کے بعد محرم الحرام کے دوران اٹھائے جانے
والے اقدامات کی ایک فہرست مرتب کی گئی ہے ۔ کمیٹی اس بات کو یقینی بنائے
گی کہ طے شدہ تمام اقدامات بروئے کار لائے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ
کمیٹی برائے محرم الحرام عاشورہ کے دنوں میں امن وامان کو یقینی بنانے
کیلئے بنائی گئی ہے۔ سرکٹ ہاؤس بہاولپور میں ڈویژنل امن کمیٹی کے اجلاس سے
خطاب کرتے ہوئے رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ محرم الحرام کے دوران صوبہ بھر میں
فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے اور امن وامان کو یقینی بنانے کے
لئے ہر ممکن اقدامت کئے جارہے ہیں۔ صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ صوبہ
کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے مقامی نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے علماء اور
سول سوسائٹی کے اراکین اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ان کا کہناتھا کہ مذہبی
منافرت اور اشتعال انگیز لٹریچرشائع کرنے والے اور وال چاکنگ مرتکب افراد
کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے بہاولپور ڈویژن کے مختلف مکاتب
فکر کے علماء کرام کی سوچ کو مثبت اور پر امن قرار دیا۔ ضلعی امن کمیٹی کے
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ کوارڈی نیشن آفیسر وہاڑی جواد اکرم نے کہا
ہے کہ بیرونی عناصر کے مکروہ عزائم کو ناکام بنانے کے لئے اتحاد ، بردباری،
فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور برداشت وقت کی اہم ضرورت ہے۔جواد اکرم نے کہا کہ
اسلام امن وآشتی کا مذہب ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ ہمیں عدم برداشت پر مبنی
رویہ کو ختم کرکے مثبت سوچ کو فروغ دینا ہے۔ایک محفوظ اور پرامن معاشرہ کی
تشکیل ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔ انہوں نے مختلف مکاتب فکر کے علماء سے
امن قائم رکھنے کے لئے اپنی خدمات جاری رکھنے کی اپیل کی۔ ڈسٹرکٹ کوارڈی
نیشن آفیسر لیہ ندیم الرحمن نے ضلعی امن کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے
کہا ہے کہ محرم الحرام کے مقدس اور بابرکت مہینے کے ایام کے دوان اتحاد بین
المسلمین کے فروغ اور امن اومان کے قیام کے لئے امن کمیٹیوں کو مزید فعال
اور موثر بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں ٹی ایم اے و دیگر
اداروں سے باہمی رابطے وتعاون کے لئے خصوصی انتظامات عمل میں لائے جارہے
ہیں۔ جس کا بنیادی مقصد اتحاد بین المسلمین کو فروغ دے کر مثالی بھائی چارے
کی فضا قائم کرکے امن وامن کے قیام کو ممکن بنانا ہے۔ ڈی سی او راجن پور
غازی امان اﷲ نے ضلعی امن کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علماء
کرام محبت اخوت اوربھائی چارے کادرس دیں ہم آہنگی اورامن کو برقرار
رکھیں۔ان کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہیے کہ وہ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرے۔
انہوں نے کہا کہ مشکوک افراد پر نظر رکھیں۔ ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم
کو ناکام بنانے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ اس موقع پر ڈی پی او احسان
منظور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنا پولیس کی ذمہ داری
ہے۔ ڈی او سپیشل برانچ ملک عبدالقیوم نے سول ریسٹ ہاؤس لودھراں میں پولیس
اہلکاروں اور رضا کاروں کے تربیتی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محرم
الحرام کے ایام کے دوران سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کو یقینی بنایا
جارہا ہے۔ محرم الحرام کے ایام کے دوران مجالس اور جلوسوں کی نگرانی کے لئے
تربیت یافتہ پولیس اہلکاروں اوررضاکاروں کی تعیناتی کی جارہی ہے۔ یہ توتھی
محرم الحرام میں امن کے قیام کے سلسلہ میں صوبائی حکومت اور مختلف اضلاع
میں انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے انتظامات کی ایک جھلک۔ اب اس سلسلہ میں
مزید کیا کہاجارہا ہے۔ اس پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ بہاولپور میں قومی
امن کمیٹی برائے بین المذاہب کے مرکزی چیف کوآرڈینیٹر سید مبشر عباس صفوی
نے کہا ہے کہ تمام مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم
کرکے ملک میں پائیدار امن قائم کیاجا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی
سلامتی ترقی اورخوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ ملک دشمن عناصر کے مذموم مقاصد
کو خاک میں ملادیا جائے۔ شیعہ علماء کونسل کے ڈویژنل صدر سید قمر زیدی اور
دیگر نے بہاولپورمیں شیعہ علماء کونسل کی تنظیم سازی کی تقریب سے خطاب کرتے
ہوئے کہا کہ محرم الحرام ہمیں برداشت اور قربانی کا درس دیتا ہے۔ ہمیں آپس
میں قومی ملی ودینی اتحاد کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے امن او ربھائی چارے کی
فضا کو قائم رکھنا چاہیے۔اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ
عزاداری سیدالشہداء پر کسی بھی قسم کی پابندی اور قدغن کو برداشت نہیں کیا
جائے گا۔ لیہ میں شیعہ علماء کونسل کی طرف سے منعقدہ عزاداری کانفرنس سے
خطاب کرتے ہوئے ضلعی صدر نیئر عباس کاظمی نے کہا ہے کہ محرم الحرام کا تقدس
ہم سب پر واجب ہے ۔ اور اس سلسلہ میں امن وامان قائم رکھنا قانون کی
پاسداری کرنا اور اسلامی بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینا او رمقصد کربلا کو
اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ واقعہ کربلا صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ
دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے تمام مکاتب فکر کو
مخاطب کرتے ہوئے باہمی بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینے کے لئے اپنا اپنا
کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے انتظامیہ کی جانب سے محرم الحرام کے
سلسلہ میں کئے گئے اقدامات کو سراہا اور ہرقسمی تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
پاکستان علماء کونسل ضلع خانیوال کے صدر مفتی محمد عمرفاروق اور دیگر
عہدیداروں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام دشمن او
رپاکستان مخالف طاقتیں مسلمانوں کے درمیان فروعی اختلافات کو فروغ دے کرملت
محمدیہ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی وحدت اور طاقت کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم
شازشیں کررہی ہے ۔ ایسے حالات میں ہر کلمہ گو مسلمان کو چاہیے کہ وہ وطن
عزیر میں امن وامان کے قیام اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کی
فضا کو برقرار رکھنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ ملتان میں آئی ایس او
ملتان ڈویژن کے 39ویں سالانہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امامیہ سٹوڈینٹ
آرگنائزیشن کے مرکزی صدر اطہر عمران طاہر نے کہا ہے کہ محرم الحرام سے قبل
سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ عزاداری سیدالشہداء ہماری میراث
ہے جو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ محرم الحرام میں کسی
قسم کی پابندی اور رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پنجاب اور وفاق حکومت
شرانگیز بیانات دینے سے گریزکرے۔ اور عزاداری کو محدود کرنے والوں کو لگام
دے۔ احمد پور شرقیہ سے خبر ہے کہ سفیران امن قافلہ کے سربراہ حافظ محمد
یونس نے محرم الحرام کے سلسلہ میں منعقدہ امن کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے
ہوئے کہا کہ محرم الحرام میں امن وامان کی صورتحال کو برقراررکھنا ہر شہری
کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کے ساتھ ہم سب کو بھی کردارادا
کرنا ہے۔
یوں تو ملک میں ایسی فضا قائم ہوچکی ہے کہ حکومت کو روزانہ ملک میں امن
قائم کرنے کے لئے غورکرناپڑتا ہے۔ تاہم جوں ہی محرم الحرام کے مقدس اور
بابرکت ایام قریب آنے لگتے ہیں تو حکومت ملک میں امن قائم کرنے اور رکھنے
کے لئے اور بھی زیادہ چوکس ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں عزاداری
کے جلوسوں پر حملے اور فائرنگ کے مختلف واقعات ہوچکے ہیں۔ ا س وقت اسلام
دشمن اور پاکستان دشمن عناصر نے ہمارے ملک کا امن تباہ کرنے کے لئے یہاں
فرقہ واریت کو ہوادی۔ یہ حملے صرف عزاداری کے جلوسوں اور مجلسوں پر ہی نہیں
ہوئے۔ مساجد میں بھی نمازپڑھتے ہوئے نمازیوں کو شہید کیا گیا۔ مذہبی جلسوں
کو نشانہ بنایا گیا۔ کراچی میں عید ملادالنبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے
جلسہ میں حملہ کیا گیا جس میں کئی علماء شہید ہوئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ
مذہبی لوگ کرارہے ہیں۔ وہ مولویوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ
قوم کو امن کا درس نہیں دیتے۔ یہ فرقہ واریت مولویوں نے نہیں کسی اور نے
پھیلائی ہے۔ اگر مولویوں واقعی اتنے بڑے اختلافات ہوتے تو ملی یکجہتی کونسل
اور متحدہ مجلس عمل کبھی نہ بنائی جاسکتیں۔ اگرچہ یہ سیاسی اتحاد تھے تاہم
ہمارے مذہبی رہنماؤں میں کسی بھی حوالہ سے ہم آہنگی تھی تو تب ہی یہ اتحاد
قائم ہوسکے۔ چلو ایک منٹ کے لئے یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ فرقہ واریت کے
ذمہ دار مولوی ہیں۔ تو اس بات کا جواب کسی کے پاس ہے تو بتادے کہ گذشتہ عام
انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور جلسوں پر بھی تو حملے ہوتے رہے
ہیں۔ مولوی تو اپنے مخالف مکتب فکر کے خلاف ایسا کام کرتے رہے ہیں تو ان
سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور جلسوں پر حملے کس مولوی کے کہنے پر شروع
ہوئے۔ فرقہ واریت کے ذمہ دار مولوی ہی ہیں تو پشاور پر چرچ پر حملہ کس فرقہ
نے کرایا۔ یا کیا۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ بات ہورہی تھی کہ حکومت کو
ہرسال محرم الحرام میں امن کے قیام کے لئے خصوصی اقدامت کرنے پڑتے ہیں۔
تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے ممکنہ طور پر بچاجاسکے۔ حکومت محرم الحرام
میں امن کو قائم اور برقرار رکھنے کے لئے خصوصی اقدامات کرتی ہے۔ تمام
اضلاع میں انتظامیہ متحرک ہوجاتی ہے۔ وہ سرکاری طور پر متعدداجلاس بلاتی
ہے۔ جس میں محرم الحرام میں امن قائم کرنے اور رکھنے کے لئے انتظامات کا
جائزہ لیاجاتا ہے۔ ان انتظامات میں بہتری کے لئے غورکیا جاتاہے۔ ہر ضلع میں
امن کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیں۔ جو ملک میں امن قائم کرنے کے لئے انتظامیہ
کی معاونت کرتی ہیں۔ مجالس عزااور عزاداری کے جلوسوں کی سیکیورٹی سخت کی
جاتی ہے۔ کسی بھی شرانگیزی اور ناخوشگوار واقعہ سے ممکنہ طور پر بچنے کے
لئے مجالس عزااور عزاداری کی طرف جانے والے راستوں کو سیل کردیا جاتا ہے۔
خفیہ ایجنسیاں بھی اس طرف زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ محرم الحرام میں اشتعال
انگیزی پر قابو پانے کی غرض سے ہر ضلع کی انتظامیہ کچھ علماء اور زاکرین کی
زبان بندی کردیتی ہے کہ یہ ان ایام میں تقریر یا خطاب نہیں کرسکتے۔ اس کے
ساتھ ہی ہر ضلع کی انتظامیہ متعدد علماء پر پابندی لگا دیتی ہے کہ یہ اس
ضلع میں داخل نہیں ہوسکتے ۔ حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کے ان ہی انتظامات
کی وجہ سے گذشتہ پانچ سالوں ن میں محرم الحرام میں امن کے سلسلہ میں بہتری
آئی ہے۔ اگر کہیں بدامنی کے واقعات ہوئے بھی ہیں ۔ تو حکومت نے پوری کوشش
کی کہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ حکومت پہلے ہرسال تنہا ہی ملک میں امن قائم کرنے
کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس سال تو وہ او ر بھی زیادہ متحرک ہوگئی ہے۔ اب تو
سول سوسائٹی بھی اس کی معاونت کررہی ہے۔ حکومت خفیہ اداروں کی رپورٹس کی
روشنی میں کچھ اضلا ع کو حساس قرار دے کر وہاں سیکیورٹی کے اور بھی سخت
انتظامات کرتی ہے۔ عوام کو امن اور تحفظ فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ
داری ہے۔ حکومت ہر سال اپنی یہ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اب اس
سے آگے ہم جو بات کرنے جارہے ہیں۔ اس بات سے آپ کو اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔
یہ ایک حساس موضوع ہے۔ اس طرف ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دلائی ۔ صرف ملتان
سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ نے انتظامیہ کو متوجہ کیا ہے۔ آپ کو یا کسی
اور کو ہماری اس بات سے اختلاف ہوتو یہ آپ کا اور سب کا حق ہے۔ مگر ہم جو
بات کرنے جارہے ہیں وہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں
کہ امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام سے سب مسلمان عقیدت رکھتے
ہیں۔ سب مسلمان آپ علیہ السلام کی شہادت پر غم کا اظہارکرتے ہیں۔ اہلبیت
اطہار سے محبت اور عقیدت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کیونکہ یہ ایمان کا حصہ
ہے۔ اس کے بغیر ایمان بھی مکمل نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اندازسب کا
اپنا اپنا ہے۔ شیعہ اپنے انداز میں امام عالی مقام علیہ السلام کا غم مناتے
ہیں سنی اپنے انداز میں مناتے ہیں۔ سب مسلمان اہلبیت اطہار سے محبت کرتے
ہیں۔ کوئی ماتم کرکے امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام اوراہلبت
اطہار سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتا ہے اور کوئی نوافل اداکرکے۔ شہداء
کربلا کے ایصال ِثواب کے لئے سب مسلمان سبیلیں بھی لگاتے ہیں۔ کوئی مجلس
عزا منعقد کرتا ہے اور ماتمی جلوس ، عزاداری کے جلوس نکالتا ہے ۔ تو کوئی
شہادت کے عنوان سے جلسے منعقد کراتا ہے۔ صرف اہل تشیع ہی عشرہ محرم الحرام
نہیں مناتے ۔ سنی بھی مناتے ہیں۔ اہل سنت کی مساجد میں بھی محرم الحرام کے
پہلے عشرہ میں روزانہ فضائل اہل بیت اورشہادت شہداء کربلا پڑھی اور سنائی
جاتی ہے۔ جب موضوع پر اختلاف نہیں۔ غم منانے اور عقیدت کے اظہار کے طریقہ
کارپر اختلاف نہیں تو یہ عزاداری کی مجلسوں اور جلوسوں پر حملے کیوں ہوتے
رہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ کوئی اور کراتا رہا ہے۔ یہ کوئی بتا سکتا ہے کہ
بلوچستان میں گیس پائپ لائن بچھی ہوئی ہے ۔ اس پائپ لائن کو متعددبار حملہ
کرکے پھٹایاگیا ہے۔ ا س پائپ لائن کا تعلق کونسی مذہبی جماعت یا کون سے
فرقہ سے ہے ۔ اور جوحملے کرتے رہے ہیں ۔ ان کا تعلق کس فرقہ سے ہے۔ ملک میں
اکثریت سنیوں کی ہے۔ وہ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ہمارے شہر میں
عزاداری کے جلوسوں کے راستے کے بازاربند کر دیئے جاتے ہیں۔ کاروبار نہ ہونے
کے برابر رہ جاتا ہے۔ کبھی کسی نے شکائت نہیں کی۔ حکومتوں اورانتظامیہ کے
سیکیورٹی انتظامات اپنی جگہ درست اور بہتر ہیں تاہم اس سیکیورٹی میں عام
آدمی کی مشکلات کو بھی مدنظررکھا جائے تو بہتر ہوگا۔ ہماری معلومات کے
مطابق عراق میں جب تک صدام صدررہے ۔ اس کے دور میں تعزیہ اور ماتمی جلوس
سڑکوں پر نکالنے کی اجازت نہیں تھی یہ سب کچھ ایک چاردیواری کے اندر ہی
ہوتا تھا۔ اس وقت تک ان ماتمی مجلسوں پر حملے نہیں ہوئے۔ جوں ہی ان کی
حکومت ختم ہوئی تویہ عزاداری کے جلوس سڑکوں پر نکالے جانے لگے۔ تو حملے بھی
شروع ہوگئے۔ یہ بات لکھنے کا ہمارا یہ مقصداور اشارہ یا مشورہ یہ ہرگز نہیں
ہے کہ پاکستان میں بھی عزاداری کی مجلسوں اور جلوسوں کو چاردیواری میں
محدود کردیا جائے۔ آج حکومتی وزراء سے سول سوسائٹی تک سب کہہ رہے ہیں کہ
ہمیں امن قائم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ سب یہی چاہتے ہیں
تو اب ہم جو تجاویز لکھنے جارہے ہیں۔ ان پر غور کریں اورعمل بھی کرکے
دیکھیں تو بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ راستے اور بازار سیل ہونے کی وجہ سے
عام آدمی کو بہت مشکلات کاسامنا کرنا پڑتاہے۔ جگہ جگہ راستے سیل ہونے کی
وجہ سے طویل طویل چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ اگر کوئی امام مسجدجارہا ہو اور اس
نے نماز پڑھانے جانا ہو اور وقت بھی کم ہوتو اس کو بھی طویل چکر کاٹنے پر
مجبور کیا جاتا ہے۔ چاہے نمازقضا ہی کیوں نہ ہوجائے۔ شہر کے باہر سے بھی
مسافرآتے ہیں۔ ان کو بھی راستے بندہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامناکرنا پڑتا
ہے۔ اگر امن قائم کرنا اور رکھنا ہے تو ہم سب کو کھلے دل اور روشن دماغ کا
مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہ نہ ہو کہ کوئی کہے کہ میں نے تو یہ ڈنڈا اپنی حفاظت
کے لئے اٹھایا ہواہے ۔ یہ جو اس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے نا یہ اس کے ہاتھ میں
نہیں ہوناچاہیے اس سے امن کو خطرہ ہے۔ جو ڈنڈا ہمارے ہاتھ میں ہے اس سے امن
کو کوئی خطرہ نہیں اور اگر کسی اور کے ہاتھ میں ہے تو اس سے امن کو خطرہ
ہے۔ عشرہ محرم الحرام میں مسلمان اپنے رشتہ داروں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے
اور قبروں کی لپائی کرنے جاتے ہیں۔ قبرستانوں کی طرف جانے والے راستوں میں
عزاداری کے جلوسوں کی وجہ سے رکاوٹیں کھڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ جس سے قبرستان
جانے والوں کے لئے مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔اہل سنت کے علماء اور نعت خوانوں
کو شہادت ِ حسین علیہ السلام کے جلسوں میں جانا ہوتا ہے۔راستے سیل ہونے کی
وجہ سے ان کو بھی طویل چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ چوبارہ روڈ لیہ پر قائم امام
خانہ میں عشرہ محرم الحرام میں دووقت مجلس عزاہوتی ہے۔ دونوں اوقات میں
سیکیورٹی کے طورپر چوبارہ روڈسیل کردی جاتی ہے۔ اس روڈ کو لمبائی میں
دوحصوں میں بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جو امام خانہ والی سائیڈ ہے اس کو سیل
کردیا جائے اور جو دوسری طرف سڑک ہے اس کو آمدورفت کے لئے کھلا رہنے دیا
جائے۔ زیادہ نہیں توپیدل جانے اور سائیکل موٹرسائیکل کاراستہ تو
دیاجاناچاہیے۔ اسی طرح ملک بھر میں جہاں بھی ایسا ہوتا ہے۔ وہاں وہاں اس
مشورہ پرعمل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے سیکیورٹی میں بھی کوئی فرق نہیں آئے
گااور عوام کو بھی طویل چکر نہیں کاٹنے پڑیں گے۔ جگہ جگہ اور گلی گلی
عزاداری کے جلوس نکالنے سے بہتر ہے کہ ان کو محدود کردیا جائے۔ لیہ کو ہی
لے لیں عزاداری کا ایک جلوس امام خانہ حسینیہ چوبارہ روڈسے نکالاجائے جو
صدربازارسے نہ گزرے بلکہ اسلم موڑسے ہوتا ہوا اپنی منزل کی طرف جائے۔ اور
ایک جلوس عیدگاہ میں قائم جامعۃ القائم سے نکالاجائے ۔ جو اسلم موڑسے
ہوتاہوا اپنی منزل کی طرف جائے۔ جس نے شرکت کرنی ہے وہ اپنے تعزیے وغیرہ لے
کر ان ہی عزاداری کے جلوسوں میں شامل ہوجائے۔ اس سے انتظامیہ کو سیکیورٹی
کے لئے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی ۔ اور عوام کو بھی مشکلات کا سامنا
نہیں کرنا پڑے گا۔ یہی اصول ملک بھر میں اپنایا جائے۔ عزاداری کے جلوس
بازاروں اور زیادہ آبادی زیادہ آمدورفت کے علاقوں سے نہیں کم آبادی اور کم
آمدورفت کے علاقوں سے گزارے جائیں۔ عزاداری کے جلوسوں کے روٹس تبدیل کرنے
سے نہ تو اﷲ پاک اور اس کا رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم ناراض ہوں گے اور نہ
ہی اہلبیت۔ اس سے کسی کی عقیدت اور محبت میں کوئی فرق آئے گا۔ اہلسنت نے تو
اپنے بزرگان دین اور اولیاء کاملین کے عرس بھی منسوخ کردیئے تھے۔ کئی سالوں
سے ملتان میں ہونے والا دعوت اسلامی کااجتماع نہیں ہورہا۔ اگربزرگانِ دین
کے عرس اوردعوتِ اسلامی کا اجتماع منسوخ ہوسکتا ہے ۔ جس کا کسی نے برانہیں
منایا۔ تو عزاداری کے اوقات اورروٹس کیوں تبدیل نہیں ہوسکتے۔ جس طرح اہلسنت
نے کھلے دل کامظاہرہ کیا ہے اسی طرح عزاداربھی وہی مظاہرہ کریں۔ہم کب تک
راستے بندکرتے رہیں گے۔ اور کب تک اپنے ہی شہر میں مشکوک بنے رہیں گے۔
عزاداری کی تمام مجالس دن کے اوقات میں نہیں رات کے اوقات میں کرائی جائیں۔
تو سیکیورٹی کے مسائل کم ہوجائیں گے۔ گزشتہ سال تو ریلوے پھاٹک بھی سیل کیا
گیا تھا۔ اس سے بھی کسی کو نہیں گزرنے دیاجاتا تھا۔ یہ پھاٹک سیل کرنے
کاکیاجوازبنتاتھا۔ ریلوے روڈتک تو روڈٹریفک کے لئے کھلا ہونا چاہیے تاکہ
عوام اس راستے سے آجاسکیں۔ بیشک مجلس کی طرف کسی کو نہ جانے دیں۔ ریلوے
اسٹیشن اوربازار میں جانے کے لئے کسی کو نہ روکیں۔ اب عزادار کے روپ میں
بھی تو کوئی دشمن آسکتا ہے۔ ا س کو کیسے روکو گے۔ ہر ایک کومشکوک سمجھنے سے
نہ پہلے امن قائم ہواہے نہ اب ہوگا۔ ایک دوسرے کو عزت احترام دینے سے ہی یہ
مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ان مشوروں پر تمام ذمہ داران مثبت غورکرکے
تجربہ کے طورپر ہی سہی عمل کرکے دیکھیں ۔ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
|