مضبوط جمہوریت کے لئے تعلیم انتہائی اہم ہے

کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے تعلیم کی اہمیت کا فروغ بے حد ضروری ہے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کا دستیاب ہونا بھی از حد ضروری ہے کیونکہ زبان و ادب ہی ہمیں تہذیب سکھاتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہر والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کو لازمی اسکول، مدرسے، کالج اور جامعات کی طرف راغب کریں۔ تعلیم کا حصول انسانی حقوق کو سمجھنے اور اس کے تئیں ذمہ داری نبھانے میں بھی معاون و مددگار ہوتا ہے۔ جہاں تعلیم کا مقصد امن ، ہمدردی ، محبت اور آپسی تعلقات کے مابین رابطہ قائم کرنا ہے وہیں انسانیت کے حقوق کی ذمہ داری نبھانا بھی ہے۔ تعلیم جب تک دلوں کو روشن نہ کرے اس وقت تک نامکمل ہے۔ ملک کے اربابِ اختیار کو چاہیئے کہ وہ تعلیم کے حصول میں طلباء کے لئے نئے نئے زاویے متعارف کروائیں تاکہ آج کی نسل تعلیم کی طرف راغب ہو۔ تعلیم کے بعد ہی یہ نسل نئی نئی چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت سے بہرمند ہوکر آنے والے وقتوں میں نئی جدتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔پاکستان ویسے بھی ہر دور میں تعلیم کا مرکز رہا ہے مگر تعلیمی اداروں میں ہمیشہ سے ہی بہتر سہولتوں کا فقدان دیکھنے میں آتا ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ طلبا ء و طالبات کو ان اداروں میں بہتر سہولتیں فراہم کریں ۔ آج ملک میں یہ حال ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے طالب علموں کو باہر کے ملکوں میں جانا پڑتا ہے۔ چونکہ انسانی تہذیب کی ترقی میں تعلیم کا سب سے اہم رول رہا ہے اس لئے آج یہ یقینی بنانا ہوگا کہ تعلیم صرف روزگار پانے اور زندگی کا معیار بلند کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اکیسویں صدی کے مادیت پسندی کے دور میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ آج ملک کو کافی تعداد میں یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کی بھی ضرورت ہے کہ جن میں مستقبل کے معماروں کی تعلیم کو یقینی بنایا جا سکے۔
عرضِ پاک کی یہ ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے ملک کے اکثر شعبے قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک مختلف نوعیت اور ادھورے تجربات کا ہی شکار ہیں۔ ان میں شاید سرفہرست ’’ تعلیم‘‘ ہی کا شعبہ ہے۔ اس حساس نوعیت کے شعبے میں آج بھی ایسی ایسی بے ضابطگیاں دیکھنے میں آ تی ہیں کہ بس خدا کی پناہ! اور اس بے ضابطگیوں کے باعث ہی منظم نظام کی تشکیل میں رکاوٹیں حائل ہیں اور یہ شعبہ تاحال ناقص حکمتِ عملی کا شکار نظر آتا ہے۔سرسٹھ برس پر محیط یہ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم یہ فیصلہ آج تک نہیں کر پائے کہ ذریعۂ تعلیم کیا ہونا چاہیئے ؟ ہمارا جدید نظامِ تعلیم کن کن تبدیلیوں کا متمنی ہے؟ تعلیمی نظام کی یہ شکستگی ہمارے ہونہاروں کے لئے تاریک مستقبل کا پتہ دیتی ہے۔ دنیا کے طول و عرض میں طبقاتی فرق کہیں نہ کہیں موجود ہے مگر اکثر جگہوں پر یہ طبقاتی فرق اب ناپید ہو رہی ہے اس کے برعکس ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں تعلیمی شعبے کو طبقاتی چھاپ کی بدترین شکل کھائے جا رہی ہے۔ایک ہی ملک میں مختلف نظامِ تعلیم اور طریقۂ تعلیم رائج ہے ، ملک میں تعلیم کے نام پر کی جانے والی اصلاحات سوائے سیاسی نعروں کی حیثیت کے اور کچھ نہیں۔ کتابیں مفت فراہم کرنے کا ڈھونگ رچائے جانے سے غریب بچے اعلیٰ تعلیم و معیاری نصاب اور باسہولت درس گاہوں تک آسانی سے رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ شاید آپ کو بات بُری لگے مگر یہی حقیقت ہے جسے ہم سب کو کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہیئے کیونکہ تعلیم ہمارے یہاں برائے فروخت والی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کے لئے اپنے اسلاف سے فیضانِ نظر کا بھولا ہوا سبق دوبارہ یاد کرائیں۔ شاعر بھی کمال الفاظ گری کرتے ہیں کہ:
یہ فیضانِ نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

تعلیم کی فراہمی یقینا حکومت سر انجام دے رہی ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی ماحول کو بھی بہتر بنائے گاؤں اور وہ علاقے جہاں معیارِ تعلیم نہایت ناقص ہے وہاں ان قابل اساتذہ کو بھیجا جائے جو ملک و قوم کے کام آنا چاہتے ہوں اور وقتاً فوقتاً ان کے کام کی نگرانی کے لئے بھی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لئے گائیڈ لائن بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے علم اور علم حاصل کرنے والے بچوں کو بہتر طریقے سے تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکیں۔ بار بار تعلیمی نصاب کو نہ بدلا جائے بلکہ اس کے لئے بھی ٹھوس اور مربوط پالیسی ترتیب دی جائے تاکہ کچھ سالوں تک ایک ہی نصاب چلتا رہے اور تعلیم میں بہتری بھی آتی رہے۔ایسے تمام علاقوں میں جہاں درسگاہیں ختم یا بند ہو چکے ہیں انہیں دوبارہ کھولنے کے انتظامات کیئے جائیں تاکہ وہاں بھی علم کے پیاسے سیراب ہو سکیں۔

ایک روزنامہ میں شائع ہونے والے رپورٹ کے مطابق بنیادی تعلیم سے محروم دنیا کا ہر نواں بچہ پاکستانی ہے جہاں لگ بھگ ستّر لاکھ سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کی حکومت ہر آنے والے نئے بجٹ میں تعلیم کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آج جامعات کا یہ حال ہے کہ وہاں اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے رقم دستیاب نہیں ہے۔ اور ہر ماہ یہ اساتذہ اور ملازمین شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ انہیں بروقت سیلری دی جائے گی یا نہیں؟پاکستان میں اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے چار کروڑ طلباء تعلیم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جبکہ ملک بھر کے ساٹھ فیصد سے زائد تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، ایک اندازے کے مطابق ملک بھر کے شہروں میں پچیس طلباء کے لئے ایک استاد جب کہ گاؤں میں تیس طلبہ کے لئے ایک استاد مقرر ہے۔ جہاں مہنگائی کی وجہ سے غریب خاندانوں کے بچوں نے تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دی ہے وہیں حکومت کی جانب سے بھی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

ہماری اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم میں معراج پانے کے بعد دین و دنیا میں سر بلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمان تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنا لئے گئے یا پھر جب بھی انہیں تعلیم کے مواقع سے محروم کیا گیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔ آج ہمارے اپنے ملک کو یرغمال بنانے والی طاقتیں بھی یہاں تعلیمی و علمی اداروں پر اپنے تخریبی ہتھکنڈوں کے ذریعے بربادی کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں تعلیمی عمل کو متاثر کرنے کا مقصد مسلمانوں کو تعلیم سے محروم کرنا ہے۔ دشمن طاقتیں تعلیم سے بدگمان کرکے ملک کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔وڈیرے، چوہدری، قبائلی سرداران اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں کے بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اب تعلیم کو بڑا خطرہ دہشت گردوں کی وجہ سے بھی لاحق ہو گیا ہے جن میں غیر ملکی لوگ بھی شامل نظر آتے ہیں جو تعلیم کے میدان میں ہمارے ملک کے ہونہاروں کو دور رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ فرض بھی ریاست پر ہی عائد ہوتا ہے کہ وہ ہر بچے کے لئے مساوی تعلیم کی فراہمی کا بندوبست کرے۔ بصورتِ دیگر اعلیٰ تعلیم و ہنر سے محروم قومیں ایسی تاریک راہوں کی مسافر ہو جاتی ہیں جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ روشن پاکستان کی خاطر ملک میں ہر ادارے بشمول حکومت کے تعلیم کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تبھی ہم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے قابل ہو سکیں گے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.