اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ایک تقریب منعقد ہوئی ‘ سٹیج
پر دو ریٹائرڈ جرنیل‘ تین سیاست دان اور دو نامور مذہبی سکالر تشریف فرما
تھے‘ دوران تقریب لاہور کے ایک پروفیسر صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا ’’ہم
میں سے ہر ایک کو چاہئے قرآن خود سمجھے ‘ قرآن سمجھنے کیلئے کسی لمبے چوڑے
علم کی ضرورت نہیں، اس کیلئے آپ نہ تو کسی مولوی کے محتاج ہیں اور نہ ہی آپ
کو کسی مدرسے میں داخلہ لینے کی ضرورت ہے، مجھے سمجھ نہیں آتی مدارس والے
صرف و نحو اور اسی طرح کے دیگر غیر ضروری علوم میں مغز ماری کیوں کرتے ہیں،
میں انہیں بھی کہتا ہوں وہ صرف ونحو وغیرہ میں وقت ضائع کرنے کے بجائے
ڈائریکٹ قرآن سمجھیں‘ آپ لوگ گھر بیٹھ کر روزانہ ایک گھنٹہ قرآن کا مطالعہ
کریں چھ ماہ بعد آپ ایک بہترین مذہبی سکالر ہوں گے‘‘ پروفیسر صاحب نے اور
بھی بہت کچھ فرمایا جو یہاں نقل کرنا مناسب نہیں ‘ پروفیسر صاحب کے ارشادات
سٹیج پر بیٹھے مذہبی سکالر بھی بغور سن رہے تھے‘ مجھے یقین تھا سر عام عوام
کو گمراہ کرنے پر سکالر صاحبان پروفیسر صاحب کی گرفت کریں گے مگر ایسا نہ
ہوا، ممکن ہے اس موقع پر کچھ کہنا وہ مصلحت کے خلاف سمجھتے ہوں، میں نے
انتظار کیا اور جب مجھے یقین ہو گیا کوئی بھی جواب دینے کو تیارنہیں تو میں
نے کہا مجھے پروفیسر صاحب کے ارشادات کے حوالے سے کچھ کہنا ہے‘ منتظمین نے
مجھے اجازت دے دی۔میں نے عرض کیا ’’پروفیسر صاحب نے جو فرمایا ہے مجھے اس
سے اتفاق نہیں‘ اگر بات صرف پروفیسر صاحب کی ہوتی تو شائد میں جواب نہ دیتا
لیکن یہ سوچ چونکہ اب وبائی شکل اختیار کر رہی ہے اس لئے جواب دینا ضروری
ہے ، قرآن سمجھنا بڑی سعادت کی بات ہے مگر قرآن پاک کو اس طرح نہیں سمجھا
جا سکتا جیسا پروفیسر صاحب نے فرمایا ہے۔ قرآن مجید سمجھنے کیلئے عربی زبان
اوردینی علوم کا ماہر ہونا ضروری ہے جس شخص کو عربی زبان اور دینی علوم میں
مہارت نہیں وہ خود قرآن مجید نہیں سمجھ سکتا‘‘ میری بات سن کر ہال میں
خاموشی چھا گئی اورلوگ میری طرف متوجہ ہو گئے۔ میں نے عرض کیا ’’ آپ لوگ
عالم دین نہیں ہیں اس لئے میں آپ کو عام اور سادہ سی مثالیں دے کر سمجھاتا
ہوں‘ آپ بتائیں ایس ٹی کولرج‘ ملٹن‘برناڈشا اور شیکسپیئر کو سمجھنے کیلئے
آپ کو کیا کرنا ہوگا؟‘‘ سب بولے انگریزی سیکھنا ہو گی۔ میں نے کہا ’’آپ میں
ایسے لوگ بیٹھے ہوں گے جو انگریزی بول سکتے ہیں‘ میں انگریزی کے چند شعر
پڑھتا ہوں وہ مجھے سمجھا دیں کہ شاعر نے کیا کہا ہے‘ میں نے کولرج کے اشعار
پڑھے بشمول پروفیسر صاحب کے کوئی بھی ان کی وضاحت نہ کر سکا۔ میں نے کہا ’’
ہم سب اردو بول سکتے ہیں لیکن ہم میں کتنے ہیں جو اقبال اور غالب کو سمجھتے
ہیں؟کہنے کا مطلب یہ ہے محض عربی زبان جاننے والا بھی قرآن مجید کو خود
نہیں سمجھ سکتاجب تک کہ عربی میں خاص مہارت حاصل نہ کرلے اور اگرآپ قرآن
مجید کی تشریح کرنا چاہتے ہیں تواس کیلئے ضروری ہے آپ کو دینی علوم میں خاص
مہارت ہو ،حدیث پر گہری نظر ہو‘ آپ عرب معاشرے سے بھی واقف ہوں‘ آپ کو آیات
اور سورتوں کے شان نزول وغیرہ کا بھی علم ہو‘‘ پروفیسر صاحب میری باتیں سن
کر چیں بجبیں ہو رہے تھے میں نے پیار سے انہیں مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ’’
پروفیسر صاحب آپ کے بیٹے کیا کرتے ہیں؟ جی ایک پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد
میں پڑھتا ہے اور دوسرا لاء کالج لاہور میں‘‘ ’’ انہیں انگریزی آتی ہے؟‘‘
’’جی ہاں آتی ہے‘‘ ’’پروفیسر صاحب پھر تو آپ ان پر ظلم نہیں کر رہے ؟ وہ بے
چارے کالجوں میں دھکے کھا رہے ہیں‘ آپ ان سے کہیں بیٹا تمہیں انگریزی آتی
ہے تمہاری کتابیں انگریزی میں ہیں‘ گھر آجاؤ خود ہی پڑھو اور سمجھو‘ کالج
جانے،ہوسٹلوں میں دھکے کھانے اور کسی کا شاگرد بننے کی کیا ضرورت ہے؟؟‘‘پروفیسر
صاحب نے بغور میری طرف دیکھا ا ور پھر نظریں جھکالیں۔اسلام آباد میں چند
دانشوروں اورافسران کا ایک گروپ ہے‘ وہ بھی قرآن مجید کو خود ہی سمجھنے کی
ترغیب دیتے ہیں ‘ ایک دن انہوں نے مجھے اپنی محفل میں دعوت دی‘ محفل میں سب
اپنے خیالات کا اظہار کرچکے تو میں نے عرض کیا ’’ آپ کے خیالات بہت اچھے
ہیں اور آپ کا جذبہ بڑا پیارا ہے مگر جس راستے کا آپ نے انتخاب کیا ہے وہ
آپ کوگمراہی کی طرف لے جائے گا‘‘ کیا مطلب ہے آپ کا ؟ان کے امیر صاحب نے
قدرے کرخت لہجے میں پوچھا ؟ ’’ مطلب آپ کو بعد میں بتاؤں گا پہلے آپ ایک
قرآن مجید تو منگوائیں‘‘ قرآن مجید لایا گیا ‘ میں نے تیسویں پارے کی سورہ
نازعات کھولی اور قرآن مجید امیر صاحب کی طرف بڑھایا کہ وہ اس سورۃ کا
ترجمہ اور تشریح فرمادیں‘ امیر صاحب نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ
قرآن تو بغیر ترجمے کے ہے‘ میں نے عرض کی جناب والا جو آدمی قرآن مجید کو
خود سمجھتا ہے اسے ترجمے والے قرآن کی کیا ضرورت ہے ؟اور آپ تو ماشاء اﷲ اس
گروپ کے امیر ہیں! امیر صاحب فوراً گرم ہوگئے کیونکہ میں نے ان کی دکھتی رگ
پر ہاتھ رکھ دیا تھا‘ کافی دیر بحث ہوتی رہی آخرکار جب ان کے سطحی قسم کے
دلائل ختم ہوگئے تو میں نے عرض کیا، جناب والا معاملہ یہ ہے کہ جب آپ قرآن
مجید اپنے طور سمجھنے کی بات کرتے ہیں تو حقیقت میں آپ قرآن مجید نہیں سمجھ
رہے ہوتے بلکہ آپ ترجمہ سمجھ رہے ہوتے ہیں اگر آپ تفہیم القرآن‘ تفسیر
عثمانی‘ معارف القرآن‘بیان القرآن‘ احسن التفاسیر‘ القرآن‘ ضیاء القرآن‘
تیسیر القرآن، احسن البیان یا جواہرالقرآن پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے
کہ آپ قرآن مجید نہیں بلکہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مولانا مودودی ‘ مولانا شبیر
احمد عثمانی ؒ‘ مفتی محمد شفیعؒ‘ جناب ڈاکٹر اسرار احمد‘ مولانا جوناگڑھی‘
مولانا احمد رضا خانؒ‘ پیر کرم شاہ الازہریؒ مولانا عبدالرحمن گیلانی،
مولانا صلاح الدین یوسف یا مولانا غلام اﷲ خانؒ نے قرآن کو کیسا
سمجھا۔’’بھائی صاحبان‘‘ آپ اُن علماء کرام کو استاد بنانے کیلئے تیار ہیں
جو دنیا سے چلے گئے اور جو دنیا میں موجود ہیں ان کے پاس خود جاتے ہیں نہ
اوروں کو جانے دیتے ہیں‘ آپ سوچیں کیا آپ قرآن کی خدمت کررہے ہیں یا خود
گمراہ ہونے کے ساتھ دوسروں کو بھی گمراہ کررہے ہیں‘ آپ دنیاوی علوم سیکھنے
کیلئے کالج اور یونیورسٹی جاتے ہیں ‘ اپنے بچوں کو سکول اورکالج بھیجنا فرض
عین سمجھتے ہیں مگر قرآن مجید سیکھنے کیلئے خود مدرسہ جاتے ہیں نہ بچوں کو
جانے دیتے ہیں‘ آپ دنیاوی علوم میں تخصص کیلئے 16 برس لگاتے ہیں جبکہ قرآن
حکیم جو تمام علوم کا مجموعہ ہے اسے سیکھنے کیلئے صرف چھ ماہ کافی سمجھتے
ہیں وہ بھی گھر میں صوفے پر بیٹھ کر‘ خدا کیلئے ہوش کے ناخن لیں اور خدا کے
کلام کو مذاق نہ بنائیں خود گمراہ ہوں نہ دوسروں کو گمراہ کریں اور اگر آپ
اپنی ضد پر قائم ہیں کہ بغیر استاد ،بغیر دینی علوم اور عربی زبان میں
مہارت حاصل کئے گھرمیں بیٹھ کر قرآن مجید کو سمجھا جا سکتا ہے تو آئیے
دلائل سے بات کریں ہم ہر وقت ہر جگہ اور ہر فورم پر آپ سے بات کرنے کے لیے
تیار ہیں کیونکہ یہ ہمارے دین کا مسئلہ ہے!!! |