پاکستان میں چین کا نام بدنام

پاکستان کی طرف سے 1950ء کے شروع میں پیپلز ریپبلک آف چائنا کو سب سے پہلے تسلیم کئے جانے کے بعد سے چین اور پاکستان کے درمیان نہایت قریبی تعلقات استوار ہیں ۔پاکستان نے جہاں چین کو سب سے پہلے تسلیم کیا،چین سے امریکہ کے تعلقات کی بہتری میں اہم کردار ادا کیا،چین کی سفارتی سطح پر مدد کی ،وہاں پاکستان کے لئے چین کی دفاعی امور سے متعلق مدد ومعاونت نہایت اہمیت کی حامل ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے درمیان وسیع تر باہمیمفادات پر مبنی گہرے تعلقات کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔یوں چین کے ساتھ قریبی تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی حصہ ہے۔چین مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کا حامی ہے جبکہ پاکستان زنگ جیانگ،تبت اور تائیوان کے مسائل پر چین کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔بھارت اور امریکہ کو پاکستان اور چین کے درمیان گہرے اعتماد پر مبنی ان تعلقات پر گہری تشویش لاحق ہے جس کا اظہار وقتا فوقتا ہوتا رہتا ہے۔

چین پاکستان میں گوادر پورٹ سمیت بنیادی ڈھانچے سے متعلق کئی اہم منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔چین اور پاکستان کے درمیان ’’فری ٹریڈ‘‘ کا سمجھوتہ ہے۔چین پاکستان میں توانائی پیدا کرنے کے کئی منصوبوں کی تعمیر کا کام بھی کر رہا ہے جن میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں جاری کئی منصوبے بھی شامل ہیں۔اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم 5.704بلین یو ایس ڈالر ہے اس آئندہ دو سال میں یہ تجارتی حجم دس بلین تک پہنچنے کی توقع ہے۔

چین میں تیار کردہ مصنوعات تیزی سے عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔امریکہ،یورپ ،ایشیا سمیت دنیا کے تمام حصوں میں چین کی مختلف مصنوعات بڑے پیمانے پر فروخت ہو رہی ہیں۔عام استعمال کی اشیاء کے علاوہ چین مختلف شعبوں سے متعلق مصنو عات تیار اور فروخت کر رہا ہے۔شاید ہی ایسی کوئی چیز ہو جو چین تیار اور فروخت نہ کرتا ہو اور اسی حوالے سے کہا گیا کہ اب بھارت میں بھگوان بھی میڈ ان چائنا ہے(یعنی بھگوان کے بت بھی چین سے تیار ہو کر آ رہے ہیں)۔پاکستان میں چین کی بنی اشیاء کے معیارسے متعلق عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ’’ چلے تو چاند تک ،نہ چلے تو شام تک ‘‘۔ پاکستان میں بھی چین کی بنی اشیاء کی فروخت غالب ہے کیونکہ اکثر صرف چین کی بنی مصنوعات ہی میسر ہیں۔ لیکن پاکستان میں چین کی فروخت ہونے والی مصنوعات کا معیار صارفین کو چین کی بنی اشیاء سے متنفر کر رہا ہے۔ پاکستان میں چین کی بنی کوئی چیز بھی استعمال کی جائے ،استعمال پر اس کا گھٹیا ترین معیار صارف کو ’’ لوٹ لئے جانے‘‘ کا احساس دلاتا ہے ۔اس کے برعکس امیر ،ترقی یافتہ ملکوں میں فروخت ہونے والی چینی مصنوعات کا معیا ر اچھا ہوتا ہے۔

گزشتہ سال سرینگر میں چین کی کئی مصنوعات کے معیاری ہونے حیرت ہوئی۔معلوم کرنے پر علم ہوا کہ بھارت میں ’’ کوالٹی کنٹرول‘‘ کا قانون سختی سے نافذ ہے۔سیلر کے لئے لازم ہے کہ مصنوعات پر کوالٹی کنٹرول کا ٹیگ آویزاں ہو۔کشمیر کے ایک بڑے تاجر سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ خریداری کے لئے چین جاتے رہتے ہیں ۔انہوں نے اپنا مشاہدہ بیان کیا کہ خریداری کے لئے چین جانے والے پاکستانی تاجر گھٹیا سے گھٹیا معیار کی مصنوعات خریدتے ہیں اور اسی میں ان کی دلچسپی ہوتی ہے۔اس سے مجھے ایک پاکستانی پٹھا ن تاجر کی ایک بات یاد آ گئی۔ مختلف نوعیت کی مصنوعات خریدنے کے لئے باقاعدگی سے چین جانے والے اس پٹھا ن تاجر نے ایک چھوٹا ریڈیو سیٹ دکھاتے ہوئے دریافت کیا کہ یہ کتنے کا ہو گا؟نئے ڈیزائین کے اس چھوٹے پاکٹ ریڈیو کو دیکھ کر انسان سوچتا ہے کہ کم از کم بیس تیس روپے کا چین سے خریدا ہو گا۔لیکن اس پٹھان تاجر کا کہنا تھا کہ اس کی قیمت ایک روپیہ ہے،بیس تیس روپے کا ریڈیو خرید کر بیچنے میں زیادہ منافع ہے یا ایک روپے کے ریڈیو سیٹ میں؟حیرانی کے اظہار پر اس پٹھان نے مسکراتے ہوئے اپنی چالاکی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ چین میں ریڈیو بیچنے والے اسے مختلف قیمتوں کے ریڈیو دکھاتے جاتے اور وہ ان سے مزید کم قیمت والے ریڈیو دکھانے کا اصرار کرتا رہا۔آخر تنگ آ کر چینی تاجر نے پاکستانی تاجر سے دریافت کیا کہ آخر آپ کو کس قیمت کا ریڈیو چاہئے؟ پاکستانی پٹھان تاجر نے جواب دیا کہ کم سے کم قیمت کا ریڈیو دکھاؤ،اس کو چلاؤ تو ’’ٹوں‘‘ کی آواز آنی چاہئے ،باقی چلے نہ چلے اس کی خیر ہے۔یوں اس پٹھان تاجر کو ایک روپے والا ریڈیو مل گیا۔ایک تاجر دوست کا سنایا واقعہ بھی یاد آگیا۔اس دوست کا کہنا تھا کہ وہ چین کے ایک شہر میں خریداری کے لئے موجود تھا کہ وہاں اس کی ملاقات ایک بھارتی تاجر سے ہوئی۔بھارتی تاجر نے اس سے پوچھا کہ اس شہر میں کیا کیا چیزیں ملتی ہیں۔میرے دوست نے جواب میں کہا کہ چیزیں تو بہت سی ہیں لیکن زیادہ منافع پلاسٹک کے کھلونوں میں نظر آتا ہے۔ میرے اس تاجر دوست کا کہنا تھا کہ اس کی یہ بات سن کر بھارتی تاجر مسکرانے لگا اور اس سے کہا کہ میں اتنا بیوقوف تو نہیں ہوں کہ چینیوں کو ڈالر دیکر ان سے پلاسٹک خریدوں گا،ڈالر دوں گا تو کوئی کام کی چیز ہی لوں گا۔

یوں پاکستان میں چین کی بنی مصنوعات وغیرہ کے نہایت غیر معیاری ہونے کی شکایات اب عام ہیں اور پاکستان میں چین کی مصنوعات گھٹیا ترین معیار کی علامت بن چکی ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ پاکستانی تاجر چین سے مال لاتے ہوئے زیادہ منافع کے لئے کم سے کمتر معیار کی اشیاء تلاش کرتا ہے ۔اس سے شاید تاجر تو بھاری منافع کما لیتے ہوں لیکن اس سے پاکستانی صارفین کو ایک طرح سے دھوکہ دہی کی سی صورتحال کا سامنا ہے۔عوام کوملک میں میڈ ان چائنا کے علاوہ کچھ ملتا نہیں اور ہمارے تاجر چین سے غیر موزوں معیار کی اشیاء لا کر عوام کو لوٹ رہے ہیں۔اس سے ملک میں چین کی بنی اشیاء کا معیار بدنام ہو رہا ہے کیونکہ وہ یہ کم ہی جانتے ہیں کہ ایسا اس لئے ہے کہ ہمارے تاجر چین سے کمتر ترین معیار کی اشیاء ہی لاتے ہیں، عوام کا عمومی تاثر یہی ہے کہ چین کی بنی ہر چیز کا معیار نہایت خراب ہوتا ہے۔پاکستان میں صرف چین ہی نہیں ملکی سطح پر تیار اشیاء کا معیار بھی کمتر نظر آتا ہے ۔معلوم نہیں کہ پاکستان میں کوالٹی کنٹرول کا کوئی سرکاری نظام ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس کے وجود کا کوئی ثبوت یا کوئی علامت موجود ہے؟
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699344 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More