شادی میں طعام کا قصہ

شادیوں میں طعام کا مسئلہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر ساری توانائیاں صَرف کر دی جائیں۔ شادیوں میں کھانے کا معاملہ شہر میں آج کل زیرِ بحث موضوع بنا ہوا ہے۔ ویسے بھی شادیوں میں طعام کے اہتمام کا معاملہ ایک خالص اختیاری فعل ہے جو اپنی مرضی اور خوشی سے طعام کا انتظام کرنا چاہے وہ کرے اور جو نہ کرنا چاہے وہ نہ کرے۔ لڑکی والوں پر دباؤ ڈالنا یا زبردستی کرنا یا کھانے کی شرط رکھنا یقینا بُری بات اور ناجائز بھی ہے۔ البتہ جو والدین اپنی بیٹی کی شادی میں اپنی مرضی اور خوشی سے مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنا چاہیں، ان پر کھانا نہ کھلانے کے لئے دباؤ ڈالنا بھی نا مناسب ہے کہ جبر و کراہ ہر دو صورتوں میں مناسب اور جائز نہیں ہے۔ہمیں شدت پسندی کی بجائے میانہ روی اور اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، ہاں البتہ مسابقت سے بچنے اور فضول خرچی نہ کرنے کی ترغیب اور تلقین ضرور کرنی چاہیئے۔ جہیز ، جوڑے وغیرہ کی رقم اور بڑے شادی ہالوں میں شادی کا مطالبہ بالکل ناواجبی ، ناجائز اور لڑکی والوں پر ظلم ہے۔ اس کی مخالفت ضرور کرنی چاہیئے۔ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صرف پانچ فیصد لوگ ہی اپنی خوشی سے شادیوں میں کھانا کھلاتے ہیں وہ دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں ان کا یہ کہنا ان کی روایتی مہمان نوازی پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ بہت سے لوگوں کی دلی خواہش ہوتی ہے اور وہ اس قابل بھی ہوتے ہیں کہ وہ مہمانوں کے لئے تناول طعام کا اچھے اچھے ڈشوں کا انتظام کریں اور بغیر کھانا کھائے واپس نہ جائیں، اس میں بے انتہا خلوص و محبت ہوتا ہے۔ لہٰذا کوئی خوشی سے آپ کو کھانے کی دعوت دے تو ضرور قبول کرنا چاہیئے ۔ خوش دلی کے ساتھ آپ میں تحفے تحائف کا تبادلہ بھی کرنا چاہیئے کہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور یہ عمل مسنون، مستحب اور پسندیدہ ہے۔

کچھ دنوں پہلے ہی کی بات ہے کہ سندھ حکومت اور مرکزی حکومت نے بھی (غالباً) ایک بل پاس کیا تھا جس میں ون ڈش کی اجازت دی گئی تھی ۔ یہ پابندی ٹھیک ہے مگر اس میں ترمیم کی ضرورت ہے کہ صاحبِ استطاعت لوگ اپنے مہمانوں کی تواضع اپنی جیب کو مد نظر رکھتے ہوئے کریں اور غریب ون ڈش کا اہتمام کریں، اس پر لڑکے والوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے کہ دلہن والوں نے ون ڈش کا اہتمام کیوں کیا؟اور قانون ایسا ہونا چاہیئے کہ سب پر یکساں لاگو ہو۔ گذشتہ دنوں آپ نے خود ہی دیکھا کہ قانون بنانے والوں نے قانون کی دھجیاں کیسے بکھیر یں ۔ ون ڈش کی جگہ طرح طرح کے لوازمات کا اہتمام کیا گیا ، اور یہ پروگرام اور طعام کہیں اور نہیں وہیں کیا گیا جہاں قانون بنایا جاتا ہے۔ یعنی کہ سندھ اسمبلی کے احاطہ میں۔اور قانون کچھ عرصہ پہلے بنایا گیا تھا کہ رات بارہ بجے کے بعد تقریب ختم ہونی چاہیئے تاکہ بجلی کی بچت کی جا سکے۔ مگر یہاں اُس قانون کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا اور رات گئے تک پروگرام جاری رہا۔ (یہ سب کچھ میں نہیں کہہ رہا بلکہ میڈیا پر چلنے والی خبروں سے آگاہی ہوئی جو لمحہ لمحہ کی رپورٹ بریکنگ نیوز کے طور پر چلاتے رہے)راقم کا کہنا تو بس اتنا ہے کہ جو بھی قانون بنے یا بنایا جائے اس کو سب پر یکساں لاگو ہونا چاہیئے نہ کہ رعب اور شخصیت دیکھ کر۔ عام علاقوں میں رات بارہ بجے کے بعد وردی والے شادی ہالوں میں ببانگِ دہل پہنچ جاتے ہیں کہ ٹائم اِز اوور……جبکہ وہاں نہیں پہنچتے جہاں رعب دار لوگوں کا پروگرام ہو رہا ہو۔

یہاں پر اس بات کا خاص اُن مہمانوں کو رکھنا چاہیئے کہ جو شادیوں میں کھانے کا زیاں کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیئے کہ جنہوں نے آپ کو دعوت دی ہے اور اچھے اچھے کھانوں کی ڈشیں آپ کے لئے سجائی ہیں وہ یقینا اپنے حلال کمائی سے اور خاص آپ کی تواضع کے لئے ہی ایسا عمدہ انتظام کیا ہے تو کھانا اتنا ہی پلیٹوں میں لیجئے جتنا آپ تناول کر سکیں تاکہ رزق کی بھی بے حرمتی نہ ہو اور کھانا ضائع بھی نہ ہو۔ اکثرشادی ہالوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ پلیٹوں میں اس قدر کھانا بھر لیتے ہیں کہ اتنا ان کا پیٹ بھی سمیٹ نہیں پاتا اور بالآخر وہ انہی پلیٹوں میں چھوڑ دیتے ہیں۔ جسے بعد میں وہاں کی انتظامیہ کچرے کے ڈبوں کی نظر کر دیتے ہیں۔ یہ خاص کر اُن لڑکی والوں کے پیسے کازیاں ہے۔ مہمانوں کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ اُن پر یہ وقت آئے گا کیونکہ لازمی ہے کہ ان کے یہاں بھی بیٹے بیٹیاں ہونگی اور وہ ان کی بھی شادیاں کریں گے، اور اگر اُس وقت اس طرح کا معاملہ درپیش ہو جائے تو انہیں دُکھ تو ہوگا۔

صرف کھانا ہی کا رونا کیوں ؟ ہمارے یہاں تو مختلف قسم کی رسومات رائج ہیں یا کر دیئے گئے ہیں۔ آج بھی اکثر جگہوں پر پنجاب میں بارات کے دن دولھا پر پانی ڈالنے کی رسم موجود ہے، پختون گھرانوں میں دولھا کو ایک پلنگ پر بٹھا ر خوب اُچھالا جاتا ہے۔ بارات کے موقعے پر مرد دولہا پر پانی ڈالنے کی رسم کرتے ہیں سہرا بندی کے بعد دودھ پلائی کی رسم بھی ہوتی ہے۔اس موقع پر دولہا کے گھر کی عورتیں بَری کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ جسے مہمانوں کو دکھایا جاتا ہے۔ کچھ گھروں میں اب بھی جوتے چھپانے کا رسم بھی ہوتا ہے۔صوبہ سندھ میں ایک رسم یہ ہے کہ دولہا اور دلہن کو آمنے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے۔ رشتہ دار خواتین ان کے سر تین بار آپس میں ٹکراتی ہیں۔سندھی گھرانوں میں شادی کا کھانا لڑکے والوں کی طرف سے ہوتا ہے۔بعض سندھی گھرانوں میں شادی سے پہلے ’’ بکئی ‘‘ نامی رسم بھی ہوتی ہے یہ رسم چونکہ شادی سے پہلے ہوتی ہے اس لئے اس میں چہیز وغیرہ دکھایا جاتا ہے۔ (رپورٹ)بلوچستان میں مختلف علاقوں میں بھی شادی کی مختلف رسومات ہیں۔ بلوچوں میں منگنی کو ’’ ابر بندی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ وہاں یہ بات بھی عام ہے کہ شادی میں کھانے اور دیگر رسومات کی ادائیگی کے اخراجات لڑکے والے ادا کرتے ہیں۔ عام طور پر لڑکے والے لڑکی کے ماں باپ کو شادی سے پہلے پیسے دیتے ہیں جسے ’’دلور‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ رقم اب شاید لاکھوں میں ہوتی ہوگی۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو پورے ملک میں مختلف طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔ جو کہ شاید غیر اسلامی رسومات ہیں۔ شاعر کی زبان ہوتی تو وہ یوں گویا ہوتے:
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سُو بدل جائے

اور شادی کے بعد نا اتفاقی کا رواج بھی آج کل بہت عام ہے ان کے لئے تو صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ابو درداء رضی اﷲ عنہ نے اپنی بیوی سے کہا تھا : ’’ جس وقت تم مجھے غصہ میں دیکھنا تم مجھے منا لینا اور جب تم غصہ میں رہو گی میں تمہیں منا لوں گا، اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ہم دونوں میں نباہ مشکل ہو جائے گا۔‘‘غور کیجئے! اگر آج کی نسل بھی اگر اس قول پر عمل کرنا شروع کر دے تو کبھی کسی کا بسا بسایا گھر برباد نہیں ہوگا۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.