اس وقت یوں تو لکھنے کے لئے اور
بھی اہم سے اہم موضوع میرے سامنے ہے۔ تاہم میری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے موضوع
پرلکھا جائے جس پر کوئی اس وقت کوئی نہ لکھ رہا ہو۔جس موضوع پر کسی کے
لکھنے کا امکان نہ ہو۔ اور اگر اس موضوع پر لکھا جائے تو بہت کم لکھا جارہا
ہو۔ آج لکھنے پہلے ہم نے ایک ایسے ہی موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ محکمہ ریلوے
کی زبوں حالی سب کے سامنے ہے۔ اس محکمہ اب سسکیاں لے رہا ہے۔ اس محکمہ میں
کرپشن کی داستانیں نئی نہیں ہیں۔ ملتان سے شائع ہونے والے ایک قومی روزنامہ
میں ریلوے کے آڈٹ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ جس کے مطابق 2012ء 2013ء کے دوران
محکمہ میں تیس ارب پندرہ کروڑ کی مالی بے ضابطگیوں کا نکشاف ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ریلوے انتظامیہ کی بدانتظامی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے
وزارت ریلوے انجنوں کی مرمت میں تاخیر سے پندرہ ارب 81کروڑ ، چائینزکمپنی
ڈانگ فونگ الیکٹرک کارپوریشن کی جانب سے انجنوں کی تیاری میں تاخیر سے تین
ارب سات کروڑ نوے لاکھ روپے، ریلوے زمین پر غیر قانونی تجاوزات اور قبضے سے
چارارب اناسی کروڑ چالیس لاکھ روپے، مختلف اداروں کی جانب سے کرایوں کی
مدمیں واجبات کی عدم ادائیگی سے ایک ارب پچیس کروڑ اسی لاکھ جبکہ ریلوے
انجنوں کی مرمت کے لئے ضروری مشینری کی خریداری سے ایک ارب بیس کروڑ پچاس
لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ اسی طرح کنکریٹ سلیپر فیکٹری کوٹری کی
مدمیں کرائے اور جرمانے کی عدم وصولی سے آٹھ کروڑ بیس لاکھ 71
ہزارروپیریلوے کنٹریکٹ میں بے قائدگیوں اور میٹریل بروقت سپلائی نہ ہونے سے
سات کروڑ بیس لاکھ 69ہزارروپے ریلوے انجنوں کی مرمت کے لئے غیر ضروری
مشینری کی خریداری سے ایک ارب بیس کروڑ پچاس لاکھ روپے ٹریننگ چارجز کے نام
پر غیرضروری اخراجات سے چھ کروڑ نوے لاکھ روپے جبکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان
کی جانب سے جاری آڈٹ رپورٹ 2012-2013ء کے مطابق ریلوے کو ریلوے کوچز اور
ویگنز کے پارٹس کی مسنگ سے سات کروڑ بیس لاکھ اڑتالیس ہزارروپے بزنس ٹرین
کنٹریکٹ کی مدمیں بقایا جات کی عدم وصولی سے دس کروڑ دس لاکھ روپے ریلوے
ریڈی ایٹر زکی چوری سے پچاس لاکھ پچھتر ہزار وپے کیرج فیکٹری لاہور میں
ریلوے میٹریل کی چوری سے دس لاکھ اڑتیس ہزار روپے پاکستان لوکو فیکٹری
رسالپور کی انتظامیہ کی جانب سے ساڑھے آٹھ ہزار کلو گرام کیلشیم کاربائیڈ
کی چوری سے دس لاکھ ستائیس ہزار روپے اسی طرح لیز پر دی گئی اختیارات میں
تجاوز کرکے ملازمین کی بھرتی سے پانچ کروڑ بیس لاکھ بہتر ہزار روپے
اختیارات میں تجاوز کرکے غیر ضروری ایچ ایس ڈی آئل کی خریداری سے چارکروڑ
پچاس لاکھ نواسی ہزار روپے کسٹم ڈیپارٹمنٹ کو بغیر تصدیق کئے بلا جواز
ادائیگیوں سے ایک کروڑ تیس لاکھ باون ہزار روپے جبکہ سابق وفاقی وزیر غلام
احمد بلور کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کو ٹی اے ڈی اے کی مد میں
ادائیگیوں سے وزارت ریلوے کو پچاس لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ آڈٹ رپورٹ کے
مطابق وزارت ریلوے کو 73 ڈیزل الیکٹرک لوکو موٹو کی مرمت میں مجرمانہ
تاخیرسے حاصل ہونے والی آمدنی کی مد میں بارہ ارب انچاس کروڑ اسی لاکھ
چالیس ہزار روپے 81 ڈیزل الیکٹرک لوکو موٹو انجنوں کی مرمت میں تاخیر سے
ممکنہ حاصل ہونے والی آمدن کی مد میں تین ارب 34کروڑ بیس لاکھ 86ہزار روپے
چینی کمپنی کی جانب سے ریلوے انجنوں کی بروقت تیاری میں تاخیر سے تین ارب
سات کروڑنوے لاکھ پچاسی ہزار روپے ، ٹریکشن موٹرز اور لوکو موٹو پر غیر
ضروری اخراجات سے باون کروڑ بیس لاکھ انیس ہزار ، کیرج فیکٹری اسلام آباد
کے غیر ضروری اخراجات سے چوالیس کروڑ پچاس لاکھ روپے سٹیل شاپ مغل پورہ کے
نامکمل اہداف سے اکتالیس کروڑ اسی لاکھ روپے این ایل سی سے کرائے کی عدم
وصولی سے ایک کروڑ پچاس لاکھ چوراسی ہزار روپے مختلف اداروں کی جانب سے
کرایوں کی عدم ادائیگی سے ایک ارب پچیس کروڑ اسی لاکھ چوالیس ہزا رروپے ،
مختلف فرمز کی جانب سے کسٹم ڈیوٹی سیلز ٹیکس کی مد میں بقایا جات کی عدم
وصولی سے بیس کروڑ چالیس لاکھ اٹھائیس ہزار روپے، ریلوے اراضی پر تجاوزات
اور قبضے سے چارارب اناسی کروڑ چالیس لاکھ نو ہزار روپے کا نقصان پہنچایا
گیا۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی ریلوے کی بہتری کے لئے تمام تر
کوششوں کے باوجود ریلوے کو نئے مالی سالی کی پہلی سہ ماہی کے دوران آٹھ ارب
روپے سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق
نے خسارہ کی وجہ مال بردار گاڑیوں کی تعداد میں کمی ، انجنوں کی تعداد میں
کمی، انجنوں کی عدم دستیابی، ایندھن کی قیمتوں اور ملازمین کی تنخواہوں
اورپنشن میں اضافہ کو قرار دیا ہے۔ وزارت ریلوے کی مالی دستاویزات کے مطابق
پاکستان ریلوے نے رواں مالی سالی کے پہلے تین ماہ کے دوران چار ارب چھیاسی
کروڑ کے ہدف سے ستر کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی حاصل کی۔ لیکن وہیں اسے اس
عرصہ کے دوران آٹھ ارب چوالیس کروڑ روپے سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔
دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال میں ریلوے کا تینتیس ارب پچاس کروڑ روپے
کے خسارے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اگر پہلے تین ماہ کے خسارے کی شرح آئندہ
بھی برقرا ر رہی تو ریلوے کولگائے گئے تخمینہ سے چھبیس کروڑ روپے سے زیادہ
کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔ دستاویز میں حالیہ ہونے والے خسارے کی وجہ
مال بردار گاڑیوں کی تعداد میں کمی ریلوے انجنوں کی عدم دستیابی ریلوے
انجنوں کی عدم دستیابی ، ملازمین کی تنخواہ، پنشن ، یوٹیلٹی یونٹ ریٹس اور
ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ قرار دیا گیا ہے۔ ریلوے میں مالی بے ضابطگیوں
کی داستان اسی پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ اور بھی داستانیں ہیں۔ ان میں سے ایک
یہ ہے کہ ہیڈکوارٹر اور ریلوے انتظامیہ ملتان نے ملی بحران کی آڑ لے کر
ریٹائرڈ ملازمین اور بیوگان کے منظورشدہ الاؤنس اور بقایا جات کی مد میں
37کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات دبا لئے ۔جس کے حصول کے لئے متاثرین کئی
برسوں سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت
ریلوے ملتان ڈویژن میں ریٹائرڈ ملازمین اور بیوگان کے تین ہزار پچاس کیس
ایسے ہیں کہ جس میں ریلوے ہیڈ کوارٹر اور ریلوے انتظامیہ ملتان نے ان کے
سینتیس کروڑ تین لاکھ بارہ ہزار روپے کے واجبات دبا رکھے ہیں۔یہ وہ کیسز
ہیں جس پر حکومت پاکستان اور عدالتوں نے بھی ان متاثرین کے حق میں فیصلے
دیتے ہوئے ہیڈ کوارٹر اور ریلوے انتظامیہ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان
ملازمین کے الاؤنسز اور بقایا جات کی فوری طور پر ادا کرے۔ لیکن کئی سال سے
ریٹائرڈ بوڑھے ملازمین اور بیوگان اپنے واجبات وصول کرنے کے لئے ڈی ایس آفس
کے چکر لگا رہے ہیں۔ لیکن ان کی شنوائی نہیں ہورہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ
یہ واجبات ملتان ڈویژن کے ہیں جبکہ تمام ڈویژنوں میں اس کی تعداد آٹھ گنا
سے زائد ہے۔ اس طرح تمام ڈویژنوں کی کل رقم تین ارب بیس کروڑ چھیانوے ہزار
بنتی ہے۔ تاہم مالی بحران کی وجہ سے ہیڈ کوارٹر اور ریلوے انتظامیہ ملتان
نے اس میں سے نصف رقم ضرورت کے تحت استعمال کر لی ہے۔ اگروہ یہ ساری رقم ہی
استعمال کر لیتے تو ان کا کس نے کیا بگاڑ لینا تھا۔ یہ بھی ان کا ان
ریٹائرڈ ملازمین اور بیوگان پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے حق کی رقم نصف
استعمال کی ہے۔ بقایا نصف جو ہے وہ بھی کسی وقت ضرورت پڑنے پر استعمال کر
لی جائے گی۔ کیونکہ یہ رقم ان ریٹائرڈ ملازمین اور بیوگان کے تو کسی کام کی
نہیں ہے۔ وہ تو اپنے الاؤنسزاور بقایا جات وصول کرنے کی غرض سے ڈی ایس آفس
ملتان کے فضول میں چکر لگا رہے ہیں۔ یہ رقم تو ان ریٹائرڈ ملازمین اور
بیوگان کو ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ تو ریلوے ہیڈ کوارٹر اور ریلوے انتظامیہ
ملتان ڈویژن کو ضرورت ہے۔اس لئے انہوں نے اس رقم میں سے نصف استعمال کرلی
ہے۔نصف پھر کبھی استعمال کرلیں گے۔ ہماری ان ریٹائرڈ ملازمین اور بیوگان سے
ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ وہ بار بار ڈی ایس آفس ملتان کے چکر نہ لگائیں۔ نہ
جانے وہ کہاں کہاں سے آتے ہیں۔ یہ ایک دو نہیں تین ہزار پچاس کی تعداد میں
ہیں۔ ریلوے ملتان ڈویژن ملتان کے ملازمین اور بھی بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔
آپ کے آنے سے ان کے کام میں رکاوٹ آتی ہے۔ آپ کو تو اس رقم کی ضرورت ہی
نہیں ہے آپ اپنا وقت بھی ضائع کررہے ہیں۔ اور ان ریلوے ملتان ڈویژن کے
ملازمین کا وقت بھی ضائع کررہے ہیں۔ یہ رقم آپ کو ضرورت ہوتی تو مل
جاتی۔ریلوے ہیڈکوارٹر اور ریلوے انتظامیہ ملتان ڈویژن آپ سے بہتر جانتے ہیں
کہ آپ کی ضروریات کیا ہیں۔ اور کیا آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے آپ سے پھر
ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ گھر بیٹھ جائیں۔ نصف کی ادائیگیاں فنانس ڈویژن نے
سرد خانے کی نذرکردی ہیں۔ لیکن ریٹائرڈ ملازمین اور بیوگان کئی برسوں سے
اپنے واجبات کے لئے ڈی ایس آفس کے چکرلگا رہے ہیں جنہیں پرسانل برانچ کوائف
میں اعتراضات لگا کر ٹال رہی ہے۔ ان اعتراضات کی آنکھوں دیکھی بلکہ آپ بیتی
بھی ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ ہم اپنا شناختی کارڈ بنوانے کے لئے
اپنے شہر میں شناختی کارڈ کے دفتر میں گئے واضح رہے کہ اس وقت کمپیوٹرائزڈ
شناختی کارڈ نہیں بنا کرتے تھے۔ مینوئل شناختی کارڈ بنائے جاتے تھے ۔ ہم
اپنا شناختی کارڈ بنوانے کے لئے ضروری کاغذات لے کر شناختی کارڈ کے دفتر
میں گئے تو انہوں نے ہمارے کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد کاغذات ہمارے حوالے
کرتے ہوئے کہا کہ ان میں فلاں کمی ہے اس کو پورا کرکے آئیں۔ ہم نے وہ کمی
پوری کردی دوسرے دن پھر شناختی کارڈ کے دفتر پہنچ گئے۔ انہوں نے ہمارے
کاغذات کی جانچ پڑتال کی اور ایک اور اعتراض لگا کر کاغذات ہمارے حوالے کر
دیئے ۔ ہم نے وہ اعتراض دورکیا پھر اس سے اگلے دن ہم پھر شناختی کارڈ کے
دفتر پہنچ گئے۔ دفتر کے عملہ میں سے ایک ملازم نے ہمارے کاغذات کا جائزہ
لیا اور ہمیں واپس کرتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ کمی ہے یہ ابھی جمع نہیں
ہوسکتے۔ یہ کمی پوری کرکے آئیں۔ اسی طرح ہم مسلسل پانچ دن شناختی کارڈ کے
دفتر جاتے رہے۔ اور روزانہ وہ کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر ہمارے کاغذات
واپس کردیتے رہے۔ آخری روز ہم نے کہا کہ ہم کئی دنوں سے آرہے ہیں۔ اپنا کام
چھوڑ کر آتے ہیں اور آپ روزانہ نیا اعتراض لگا کر ہمارے کاغذات ہمارے حوالے
کردیتے ہیں۔ ہم سے روزانہ کرایہ بھی نہیں ادا کیا جاسکتا۔ آپ جتنے اعتراضات
ہیں۔ ہمیں ایک ہی مرتبہ بتا دیں ہم وہ دور کرکے آجائیں گے ہمارا یہ کہنا
تھا کہ انہوں نے ہمارے کاغذات جمع کر لئے۔ اعتراض لگانے کا مقصد صرف وہ
نہیں ہوتا بلکہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اور یہ ہر ایک کو سمجھ نہیں آتا۔ اب
باربار اعتراض سن سن کر اور چکر لگا لگا کر عوام ایسے اعتراضات میں چھپے
اعتراض کو سمجھنے لگے ہیں۔ جو ان اعتراضوں کو نہیں سمجھ سکتے وہ ہمای طرح
بار بار چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اور جو سمجھ جاتے ہیں وہ اسی وقت اعتراض دور
کردیتے ہیں اور اپنا کام کراکے چلے جاتے ہیں۔ ڈی ایس آفس ملتان میں جو
ریٹائرڈ ملازمین اور بیوگان اپنے واجبات وصول کرنے کے لئے آتے ہیں۔ اور ان
کو پرسانل برانچ جواعتراض لگا کر ٹال رہا ہے۔ یہ ریٹائرڈ ملازمین اور
بیوگان پرسانل برانچ کے اعتراضوں کو سمجھ نہیں سکے ہیں۔ اور اگرکسی کو سمجھ
آئی بھی ہے تو وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ اعتراض دورکرسکیں۔ اس لئے
وہ چکر لگانے اور ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اور شعبہ اکاؤنٹ کی طرف سے
نولفٹ کا بورڈآویزاں ہے۔ ریلوے کی اس سرد مہری کا شکار ہوکر پچھلے دو برسوں
میں ایک ریٹائرڈملازم ڈی ایس آفس میں دل برداشتہ ہوکر چل بسا ۔ جبکہ دوسرا
گھر میں وفات پا گیا۔ اس ضمن میں آل پاکستان پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن
ملتان کے صدر ملک عبد الرزاق ریاض بھی اپنے عہدیداران کے ہمراہ واجبات کے
حصول کے لئے آئے روزپریس کانفرنس کرکے اور اجتماعی مظاہروں کے ذریعے
آوازبلند کررہے ہیں۔ لیکن ان کی فریاد سننے کی بجائے ریلوے وزارت ریلوے اور
ہیڈ کوارٹر کے افسران نے کان بند کررکھے ہیں۔
ریلوے میں مالی بے ضابطگیوں کی یہ داستانیں نئی نہیں ہیں۔ ریلوے کی
کارکردگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سال میں تیس ارب کی کرپشن
ہوئی ۔ اوررواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں آٹھ ارب کا خسارہ آیا۔ حکومت
پاکستان نے جن اداروں کی نجکاری کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ ان اداروں کی
فہرست میں ریلوے بھی شامل تھا۔ اور اس کے نجکاری کرنے کی وجہ اس کا خسارے
میں ہونا بتایا گیا تھا۔ گزشتہ دور حکومت میں جن محکموں کو بے یارومددگار
چھوڑ دیا گیا تھا ان میں ریلوے بھی شامل تھا۔ ریلوے کو اس سٹیج تک لے آنے
میں کسی ایک کا نہیں بہت سوں کا ہاتھ ہے۔ اس بہتی گنگا میں جس کا بس چلا اس
نے ہی ہاتھ ڈالا۔ اور اس کارخیر میں جس کا جی چاہا اس نے ہی اس میں حصہ
لیا۔ ریلوے کے سابق وزیر جو کہ ایک ٹرانسپورٹر بتا ئے جاتے ہیں۔ انہوں نے
تو ا س محکمہ کے ساتھ اپنی محبت کا ثبوت یہ دیا۔ کہ کوئی اور شاید ہی ایسی
محبت کا ایسا ثبوت دے سکے۔ یوں تو ریلوے کو اس تباہی کے دہانے پہنچانے کے
لئے تیس سال سے زائد کا عرصہ لگا گیاہے۔ تاہم اس مین تیزی اس وقت آئی جب
بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ شہید بی بی کے قتل کے خلاف ملک بھر میں احتجاج
اور مظاہروں کا سلسلہ کئی روزتک جاری رہا۔ اس احتجاج میں قومی املاک کو آگ
لگائی گئی۔اسی طرح ریل گاڑیوں کو بھی آگ لگائی گئی۔ کئی انجن ناکارہ ہوگئے۔
بہت سے ڈبے آگ میں جلا دیئے گئے ۔ اس کے بعد اور پہلے لوڈشیڈنگ کے خلاف
احتجاج میں بھی اور قومی املاک نذرآتش کرنے کے ساتھ ساتھ ریل گاڑیوں کو بھی
آگ لگائی گئی۔ اس وجہ سے انجنوں اور ڈبوں کی تعداد کم ہوگئی۔ محکمہ ریلوے
کو نصف سے زیادہ گاڑیاں بند کرنی پڑیں۔ مال گاڑیاں بھی بند کردی گئیں۔ اور
جو مسافر گاڑیاں چلائی جاتی رہی ہیں ان کے ڈبوں کی تعداد بھی کم کردی گئی۔
ریلوے کے کئی انجن تو بینظیر بھٹو کے قتل اور لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کے
دوران جلائے گئے۔ جبکہ جو خوش قسمتی سے بچ گئے تھے۔ وہ بھی نہ بچ سکے۔ ہوا
یوں کہ ان انجنوں میں استعمال شدہ اور غیر معیاری آئل استعمال کیا گیا۔ جس
کی وجہ سے یہ انجن بھی ناکارہ ہوتے چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گاڑیوں
کے انجن راستے میں ہی جواب دینے لگے۔ کبھی تو یہ کسی ریلوے اسٹیشن پر ہی
خراب ہوجایا کرتے تھے اور کبھی تو ایسا ہوتا کہ یہ ایسی جگہ خراب ہوجاتے
جہاں سے دونوں طرف کوئی ریلوے اسٹیشن نزدیک نہیں ہوتاتھا۔ ایسے ہی ضلع لیہ
کی حدود میں کوٹ سلطان کے مقام پر ریلوے اسٹیشن ہے۔ اس ریلوے اسٹیشن پر ایک
مسافر ٹرین کا انجن خراب ہوگیا۔ اس ریلوے اسٹیشن پر اس ٹرین کے مسافروں نے
احتجاج کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی سے کوٹ سلطان تک چوتھی مرتبہ انجن خراب
ہورہا ہے ۔ اور ابھی آگے کراچی بھی ابھی دور ہے نہ جانے آگے اور کتنی بار
انجن خراب ہوجائے گا۔ ایک طرف ریل گاڑیوں کی تعداد کم ہوگئی اور جو رواں
دواں تھی ان کے ڈبوں کی تعداد بھی کم ہوگئی۔ یوں ٹرینوں میں مسافروں کی
گنجائش بھی کم ہوگئی۔ اب ملازمین بھی بدستور کام کرتے رہے ۔ وہ تنخواہیں
بھی وصول کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر اخراجات میں کوئی کمی نہ آئی ۔ ان
میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اب آمدنی میں کمی اور اخراجات میں اضافہ سے ریلوے
مالی بحران کی زد میں آگیا۔ ایسی کوئی بات نہیں کہ محکمہ ریلوے اور ریلوے
انتظامیہ کو اس بات کا کوئی احساس نہیں تھا ۔ بلکہ وہ تو اس بحران کو ختم
کرنے کا آسان طریقہ بھی استعمال کرتے رہے۔ کہ انہوں نے خسارہ پورا کرنے کے
لئے کرایوں میں اضافہ کرناشروع کردیا۔ اور یہ سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری رہا۔
ریلوے انتظامیہ کرایوں سے ہی خسارہ پورا کرنے میں اتنے سنجیدہ ہوگئے کہ جس
فاصلہ کا کرایہ ٹرانسپورٹ پر پندرہ روپے لیا جاتا تھا اسی فاصلہ کا کرایہ
پچاس روپے سے بھی زیادہ وصول کیا جانے لگا۔ اب کیا کسی کو سانپ نے تو ڈ س
نہیں لیا تھا کہ وہ ریلوے میں سفر کرتا۔ اس وجہ سے مسافروں نے ریلوے میں
سفر کرنا کم کردیا۔ انجنوں کی مرمت بھی بروقت اور درست نہ کی جاتی رہی۔
بجلی کے بلوں کی رقم ملازمین کی تنخواہوں سے کاٹ کر نہ جانے کس گڑھے میں
ڈالی جاتی رہی کہ ریلوے اسٹیشنوں کی بجلی بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہر
تین سے چارماہ بعد کاٹ لی جاتی رہی۔ ریلوے کے مالی بحران کی شدت کا اندازہ
اس سے لگایا جاسکتا کہ ریلوے ملازمین میں سے اکثر کی تنخواہیں اتنی کم ہیں
کہ وہ ریلوے کی مسجد میں اپنی تنخواہ میں سے دس سے بیس روپے بھی نہیں دے
سکتے۔حکومت پاکستان اپنے اداروں کے ساتھ مخلص ہے اور اداروں کی ترقی چاہتی
ہے تو ریلوے میں کرپشن ، مالی بے ضابطگیوں او ر خسارے کی تحقیقات کرے اور
یہ تحقیقات1970ء سے شروع کی جائیں۔ اوپر سے نیچے تک جو بھی کسی بھی حوالہ
سے ذمہ دار نکلے ۔ اس سے سب کچھ وصول کیا جائے۔ خواجہ سعدرفیق ریلوے کو اس
کے معیار پر لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ تاہم جب تک کرپشن کا احتساب نہیں کیا
جاتا اس وقت وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ آمدنی
میں اضافہ ہوا ہے۔ خسارے میں کمی آئی ہے۔ جب سے وہ ریلوے کے وزیر بنے
ہیں۔کوئی ٹرین بند نہیں ہوئی۔ انجنوں نے بھی روٹھنا کم کردیا ہے۔ مسافروں
نے بھی ناراضگی ختم کردی ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ریلوے کی سانسیں بحال
کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ وہ اس کرپشن کا راستہ بند کرجائیں یا کم کر
جائیں تو یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ |