بد قسمتی یہ ہے کہ

ہم دو انتہاؤں میں بٹے ہوئے ہیں۔ہم کو اﷲ نے دنیا میں جس کام کے لئے بھیجا ہے ہم اس کی طرف پوری توجہ ہی نہیں دے پارہے۔وہ کام کیا ہے ؟ یہ کہ ہم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔یہ کام کون کرے گا ؟اس کام کا آغاز گھر کا سربراہ اپنے گھر سے کرے گا۔خاندان اور برادری کے لوگ اپنے میں سے ایک کو اپنا سربراہ بنائیں گے اور وہ کچھ خاص لوگوں کی شوریٰ بنائے گا اور ان کے مشوروں سے خاندان اور برادری کے مسئلے مسائل اﷲ اور اس کے آخری پیغمبر ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نبٹانے کی کوشش کرے گا۔اس کو جرگہ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ایک شہر میں حکومت (اگر اسلامی ہو) تو وہ شہری نظام کو دینی طریقوں کے مطابق بنانے کی کوشش کرے گی۔اسی طرح نچلی سطح سے لیکر پوری ریاست کا نظام ان اہل لوگوں کے سپرد کیا جانا چاہئے جو دینی سوچ بھی رکھتے ہوں اور حکومتی امور کو چلانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جو لوگ دینی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ حکومتی امور کو چلانا نہیں جانتے اور جو لوگ حکومتی امور کو چلانا جانتے ہیں وہ دینی سمجھ نہیں رکھتے ۔اس لحاظ سے اوپری سطح پر حکومتی نظام چلانے والے ماہرین کو دینی علوم کے ماہرین کے ساتھ مل کر ان کے مشوروں سے تمام امور کو سلجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔اس کے لئے عدالتی نظام کو بھی اور انتظامیہ کو بھی مغربی سوچ رکھنے والوں کی بجائے علمائے کرام کے ہر طبقے سے ہر سطح پر ایک شوریٰ سی بنانی چاہئے جو ملک کے نظام کو اسلامی بنانے میں حکومت کی مددگار ثابت ہو۔جیسے اسلامی بنکوں میں مفتیان دین کی مدد لی جاتی ہے۔سب سے بڑا کام ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کرنا ہے۔اس کام میں بڑی محنت کی جارہی ہے اور اب مغربی ممالک میں بھی یہ کام شروع ہو چکا ہے۔اگر ہم اس سلسلے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو غیر مسلم ممالک بھی ہماری تقلید کرنے لگیں گے ۔یہ تو اﷲ کا واضح حکم ہے کہ سود سے دولت تباہ ہوتی ہے اور زکوٰہ ادا کرنے میں دولت میں برکت پیدا ہوتی ہے ۔یہ بات عام لوگ نہیں سمجھ پاتے وہ تو یہ سوچتے ہیں کہ سود میں تو رقم زیادہ ملتی ہے اور صدقات،خیرات اور زکوٰہ میں رقم جیب سے نکلتی ہے تو دولت میں برکت کیسے پیدا ہو سکتی ہے ؟لیکن جب ہم قرآن و احادیث کا مطالعہ سمجھ کر کرتے ہیں تب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ اور ہمارے آخری نبی ﷺ کی بتائی ہوئی باتیں کبھی غلط نہیں ہو سکتیں۔جو لوگ ان باتوں پر عمل شروع کر دیتے ہیں وہ اس کا عملی تجربہ حاصل کر لیتے ہیں۔لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں صرف ایک جماعت ہے جو حکومتی امور کے ماہرین اور دینی سوچ کے پختہ لوگ اپنے یہاں موجود پاتی ہے لیکن اس کو لوگ ووٹ دینا پسند نہیں کرتے ۔فلاحی کام میں بھی یہ جماعت سب سے آگے ہے ۔اس کے پاس حکومتی معاملات چلانے کے ماہرین بھی موجود ہیں اور دوسری جماعتوں یا ٹیکنو کریٹس سے بھی ہر شعبہ کے ماہرین کی خدمات یہ جماعت حاصل کر سکتی ہے۔لیکن اس کو لوگ پتہ نہیں کیوں حکومتی ایوانوں میں نہیں لانا چاہتے در اصل عوام اچھے برے کی تمیز اگر سیکھ جائیں ،برادری اور وڈیرہ شاہی کی لعنت سے باہر نکل آئیں اور یہ بات تسلیم کر لیں کہ اسلامی نظام میں ہی تمام انسانیت کے مسائل کا حل موجود ہے ۔اور یہ خود بخود نافذ نہیں ہو جاتا اس کے لئے خلوص نیت سے محنت کے ساتھ کام کرنے کا تہیہ کرنا پڑتا ہے تب جاکر نظام حکومت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔مولوی حضرات جو حکومتی ایوانوں میں اکثر منتخب ہو کر آتے رہتے ہیں وہ دین اسلام کو عملی طور پر نافذ کرانے میں آج تک کامیاب نہ ہو سکے۔تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شریعت ملک میں نافذ نہیں ہو سکتی۔اس کام کے لئے دینی جماعتوں کا ایک گروہ جو تبلیغ کا کام پوری دنیا میں کر رہا ہے لیکن دین کو قانون کی شکل دے کر اس کے نفاذکے لئے جدو جہد کرنے کو وہ درست نہیں سمجھتے۔اگر یہ لوگ اس کام کا بھی بیڑہ اٹھا لیں تو معاشرہ کی اصلاح میں بہت آسانی پیدا ہو جائے ۔یہ لوگ لوگوں کو دین کی طرف لاتے ہیں لیکن معاملات میں لوگوں کے اندر وہ تبدیلی نہیں آتی جو دین کا تقاضہ ہے۔یہ لوگ ووٹ دیتے ہیں لیکن دنیا داروں کو دیتے ہیں اور ان کا معیار کچھ نہیں ہوتا۔PPP کو بھی ووٹ دیں گے اور PML N کی بھی طرف جائیں گے مگر جو جماعتیں ملک میں نظام اسلام لانا چاہتی ہیں ان کی طرف ان کی توجہ نہیں جاتی۔یہ بھی ہماری بد قسمتی ہے کہ معاشرہ میں اصلاح کرنے والا ایک بہت بڑا گروہ انتظامی امور میں اصلاح کی بالکل کوشش نہیں کرتا ۔آج اگر یہ لوگ اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلی لے آئیں تو لوگو ں کے نماز روزے کی طرف آنے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کو گند سے پاک کرنے کے لئے انتظامیہ،مقننہ اور عدلیہ کا نظام بھی دین اسلام کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔خالی دعاؤں سے تو معاشرہ میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔نہ اسلحہ اٹھا کر انقلاب لایا جاسکتا ہے۔اس کے لئے اﷲ اور رسول ﷺ سے محبت کرنے والوں کو ملک میں نفاذ اسلام کے لئے یکسو ہونا پڑے گا ۔دنیا میں جو اسلامی تحریکیں چل رہی ہیں ان کا ساتھ دینا پڑے گا۔اور یہ کام ہونا ہے آج نہیں تو کل اﷲ جس سے یہ کام لینا چاہے گا وہ لیگا کیونکہ یہ اﷲ کا فرمان ہے کہ دین اسلام غالب ہونے کے لئے آیا ہے اور وہ غالب ہوکر رہے گا ۔ہم سب کی جو ذمہ داری ہے وہ ہم صحیح طرح نبھائیں گے تو ہم بھی کامیاب ٹھیریں گے ورنہ اﷲ کے حضور ایک دن ہم سب کو جواب دینا پڑے گا کہ ہم نے اپنے حصہ کا کام کیا کہ نہیں۔اﷲ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فر مائے(آمین)
Zahid Raza Khan
About the Author: Zahid Raza Khan Read More Articles by Zahid Raza Khan: 27 Articles with 31705 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.