کہاوت مشہور ہے کہ دنیا میں ہم
جو فصل بوئیں گے مستقبل میں وہی کاٹیں گے۔ دین کو دنیا سے لاگ نہیں کیا جا
سکتا ، اگر ہم سب کی دنیاوی حالت خراب ہے ، معاشی طور پر ہم پسماندہ ہیں،
تعلیمی طور پر بہت پیچھے ہیں تو یہ امید کہ ہماری عاقبت یا مستقبل تابناک
ہوجائے گا ، کیسے درست ہو سکتا ہے؟آج ہر طرف یہی شور سننے کو مل رہا ہے کہ
مسلم اُمہ تباہ حال ہیں، کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں، جس طرف نظر دوڑائیں
مسلمانوں کو کمزور کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ جنہوں نے کبھی دنیا کے اکثر
حصوں پر حکمرانی کی تھی، آج وہی مسلمان محکومی کی زندگی گزار رہا ہے۔جہاں
وہ صاحبِ اقتدار ہے وہاں بھی دوسروں کے زیرِ سایہ ہے، دوسروں کی مدد کا
محتاج ہے ، دوسروں کی سرپرستی میں جی رہا ہے۔ وہ مسلمان جس نے دریاؤں و
سمندروں پر حکومت کی آج وہی مسلمان حیران و پریشان، افسردہ و غمناک زندگی،
بے بس و بے کس اور لاچار و مجبور نظر آتا ہے۔شاید ہم لوگوں نے کبھی یہ
سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟مسلمانوں کو یہ دن کیوں
دیکھنے پڑ رہے ہیں؟ اس سب کے پیچھے کیا اسباب و عوامل کار فرما ہیں جنہوں
نے مسلمانوں کے عروج کو زوال میں بدل دیا، اقتدار کو محکومی سے، عزو و
ناموس کو ذلت و خواری سے اور امن و امان کو بے سکونی میں بدل دیا۔آج
پاکستانی عوام (جو کہ مسلم اُمہ میں شمار کئے جاتے ہیں) کی زندگی میں مختلف
مشکلات موجود ہیں، نفرت، تعصب اور کم علمی و کوتاہی کی عمل کے سبب ہم
معاشرے کے حاشیہ پر آ گئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ہمارے یہاں عزت و آبرو لٹ رہی
ہے، دنگا و فساد کے ذریعے جان و مال خطرے میں رہتا ہے، اور کل تو قدیم عرب
کی طرح ایک سفاک باپ نے بیٹی پیدا کرنے پر بیٹیوں سمیت اپنی بیوی کو ہلاک
کر دیا۔پاکستان میں بھائیوں کی طرح رہنے والے عوام کے تانے بانے کو توڑنے
میں لگے ہوئے ہیں، مگر حکومتِ سابق ہو یا حکومتِ وقت کوئی بھی ٹھوس عملی
اقدامات اٹھانے کی نہیں سوچ رہا ہے۔عوام کے ساتھ حکومت کی یہ نا انصافیاں
اس حد تک ہے کہ عوام پر مہنگائی کا سیلاب برپا کر دیا گیا ہے مگر داد رسی
نہیں ہو رہی۔ یہ کیسا ظلم ہے جس کی انتہا کوئی نہیں۔ لوگوں کے کاروبار تباہ
و برباد ہو چکے ہیں اور پھر جب احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا ہے تو پُر امن
لوگوں پر ہی لاٹھی ڈنڈے چلائے جاتے ہیں۔
غریب عوام میں تعلیم کی کمی کے سبب بے روزگاری بہت ہے اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ
ہونے کی وجہ سے اعلیٰ عہدوں پر بھی نہیں ہیں۔ اور جو اعلیٰ عہدوں پر ہیں وہ
یا تو سفارشی ہیں، یا دولت مند ہیں رشوت دے کر نوکریاں حاصل کرنے والے ہیں۔
یا پھر وڈیرے، جاگیردار، سردار کی اولادیں ہیں جو بڑے بڑے عہدوں پر
بُراجمان ہیں۔ یہ کیا غریب عوام کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے۔متوسط طبقے کے
مسلمانوں کی توجہ مدرسوں اور مسجدوں کی طرف ہوتی ہے یہ اچھی بات ہے لیکن
ساتھ ہی افسوس کی بات یہ ہے کہ مدرسوں اور مسجدوں میں عصری تعلیم کا نصاب
نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے وہ دنیاوی تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ کچھ افراد کو
دیکھا گیا ہے کہ وہ مدرسے چھوڑ کر دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسکولوں
کا رُخ کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہاں بھی دنیاوی تعلیم کا رواج ڈالا
جائے۔تعلیم انسان کو بہتر انسان بناتی ہے۔ مذہب اسلام نے اسی لئے تعلیم کو
ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض قرار دیا ہے اور تعلیم صرف مذہبی تعلیم کو
نہیں کہتے بلکہ مذہبی تعلیم عصرِ حاضر کی تعلیم کے بغیر ادھوری لگتی ہے اور
اگر دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو دونوں طریقۂ تعلیم کو حاصل کرنا ضروری ہے۔
شرط یہ ہے کہ ذوق سفر عزم جواں تک مقام
منزلیں بڑھ کر کریں گی خود ہی راستے پیدا
اتحاد و اتفاق، بھائی چارگی اور آپس کے میل محبت خیر و برکت اور بھلائی کا
ذریعہ ہے۔ بچپن سے ہم یہ کہانی سنتے آ رہے ہیں کہ ایک لاٹھی کو کوئی بھی
توڑ سکتا ہے لیکن جب ایک جگہ لاٹھیوں کا گٹھر ہو جس میں بہت ساری لاٹھیاں
بندھی ہوں تو پھر اسے توڑنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ایسی کہانیاں
عموماً ہر گھر میں بچوں کو سنائی جاتی ہے جہاں ایک ماں باپ کے کئی نرینہ
اولاد ہوتے ہیں، وہ انہیں بچپن میں اس طرح کے واقعات سنا کر اتحاد و اتفاق
کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں تاکہ بڑے ہوکر یہ متحد رہ سکیں، اور دنیا کی
کوئی بھی شر پسند طاقت ان کے اتحاد کو پارہ پارہ نہ کر سکے، وہ لوگ جو اپنے
والدین کے اطاعت شعار اور ان کی باتوں کو اپنے لئے مشعلِ راہ سمجھ کر پوری
زندگی ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرتے رہتے ہیں دیکھا یہی گیا ہے کہ
وہ ہمیشہ آپس میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کوئی بھی بیرونی
طاقت ان کے اس اتحاد کو پارہ پارہ نہیں کر پاتی ہیں، ان کی آپسی محبت اور
بھائی چارگی دنیا والوں کے لئے ایک مثال بن جاتی ہے اور وہ اپنے اس اتحاد و
اتفاق کے ذریعہ بڑی بڑی شیطانی طاقتوں کو مات دے دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس
جو لوگ اتحاد و اتفاق کے بجائے اختلاف و انتشار میں زندگی گزارتے ہیں انہیں
کوئی بھی شخص بڑی آسانی سے زیر کر دیتا ہے۔ اور اس کے دامِ فریب میں پھنس
کر آسانی سے اس کا شکار ہو جاتا ہے۔بہرِ کیف! اب بھی وقت ہے کہ ملتِ
اسلامیہ کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتیں، تنظیمیں آپس میں سر جوڑ کر
بیٹھیں ، اور آپس کے فروعی اختلافات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک نقطۂ ’’ لا
الہٰ الا اللّٰہ ‘ محمد رسول اللّٰہ ‘‘ ﷺ پر جمع ہو جائیں، ہر وہ شخص جو اس
کلمہ کا پڑھنے والا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اتحاد و اتفاق کے ساتھ دنیا کے قدم
سے قدم سے ملائے، خواہ مسلک کے اعتبار سے وہ کوئی بھی ہو، کیونکہ کسی بھی
مسلک سے تعلق رکھنے والا ہو آخر کلمۂ توحید کا اقرار کرنے والا تو ہے، ان
سب کو ایک پلیٹ فارم ہو ہونا چاہیئے، اگر آج بھی ایسا نہ ہوا تو علامہ
اقبال کی زبان میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ: ’’ متحد ہو تو بدل ڈالو زمانے کا
نظام……منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو‘‘۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ آج مسلم اُمہ اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے
کریں، اختلاف کو مٹانے اور آپسی بھائی چارگی کو پروان چڑھائیں، ایک دوسرے
کے دکھ درد میں شریک ہوں اور ساتھ ہی تعصب اور فرقہ بندیوں کی زنجیروں اور
بندشوں کو توڑ پھینکیں اس کے بعد اﷲ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کی سعی
کریں۔خدا کے فضل و کرم سے اسلام کی دولت ہمیں وراثت سے نصیب ہے مگر ہم ہیں
کہ اپنی عداوتوں کو ختم کرنے کے بجائے بڑھاوا دینے میں لگے ہیں ، آپس کے
اختلاف کو مٹانے کے بجائے طول دینا پسند کرتے ہیں، کیا ان حالات میں ہم آگے
بڑھ سکتے ہیں؟ ترقی کر سکتے ہیں؟ کیا اتحاد و اتفاق کی دولت کے بغیر کوئی
قوم باعزت زندگی گزار سکتی ہے؟علامہ محمد اقبال نے سچ کہا ہے:
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید و مبین
بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے گی |