غربت و افلاس کا عفریت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے
ہوئے ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ایک ایساطبقہ ضرورموجود ہوتا ہے جن کا رہن
سہن،کھانا پینا،اوڑھنا بچھونا اور طور اطوار کسی بھی دیکھنے والے کو فورا
باور کرادیتے ہیں کہ یہی غریب اور مفلس لوگ ہیں۔جو غربت کی نقاہت کی بنا پر
خط غربت سے بھی نیچے پھسل چکے ہوتے ہیں۔یورپ کے امیر ترین ملک ہوں یا نام
نہاد مہذب اقوام، ایشیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر مماکل ہوں یا پھر خلیج کی
ریاستیں ہرجگہ یہ محصوص طبقہ حسرت و یاس کی تصویر بنا زبان حال سے اپنا پتہ
دیتا دکھائی دیتا ہے۔ امیر ترین ممالک مثلا سعودی عرب اور اسرائیل میں بھی
مفلوک الحال باسیوں کی ایک دنیا آباد ہے۔ سعودی عرب میں تو کچھ علاقے ایسے
ہیں جہاں پر تین تین دن تک لوگ صرف پانی پی کر گزارنا معمول ہے۔ جبکہ
شہزادے اور حکمران عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یورپ میں بھی مفلسی اور
مفلوک الحالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن منظم انداز میں اسے ڈیل
کرلیاجاتا ہے۔اور بسا اوقات ہی منظر عام پر آتی ہے۔ پاکستان اور دوسرے
ایشیائی ممالک کی طرح ان علاقوں میں بھی پیشہ ور لوگ چھونپڑ پٹیوں میں اپنی
گزر اوقات کرتے ہیں۔ لیکن پیشہ ور بھکاریوں کی بہتات نہیں وہاں پر غریب لوگ
بھی کچھ نہ کچھ کرکے اپنے پیٹ کے جہنم کو بھرنے کا ’’ترلہ‘‘کرتے نظر آتے
ہیں کچھ ایسے افعال جیسے کہ کاغذ چننا، کباڑ اکٹھا کرنا، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر
سے کھانا تلاش کرنا ہر جکہ معیوب سمجھا جاتا ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کی
کوشش بھی کی جاتی ہے حالانکہ یہ لوگ ان سے تو کم ازکم بہتر ہیں جنہوں نے
اپنا اوڑھنا بچھونا صرف اورصرف بھیک کو بنالیا ہے۔ انہوں نے ٹھان رکھی ہے
کہ ہاتھ پاؤں سلامت ہونے کے باوجود بس مانگ کر ہی گزارا کرنا ہے۔ مگر اس
میں سارا قصور صرف اس غریب کا بھی نہیں ہے اس تناظر میں اس ملک کے حکمرانوں
اور ایلیٹ کلاس کی مال و دولت کی غیر منصفانہ اور غیر مساوی تقسیم ہے-
اب یہ معیوب اور بظاہر حقیر دکھائی دینے والے امور کو مغربی ممالک نے
پسندیدہ اور قابل استعمال بنانے کا فیصلہ کیا اس کیلئے اپنی دماغی اور
جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کارلانے میں جت گئے۔ ڈنمارک میں ہزاروں کی تعداد
میں ریستوران موجود ہیں جہاں روزانہ لاکھوں شہری اپنا پیٹ بھرتے ہیں لیکن
آج کل RubogStub نامی ریستوران کا بہت چرچا ہے جس کی وجہ شہرت کچرے سے
اکٹھی کی گئیں اشیائے خوردونوش کو دوبارہ سے قابل استعمال بنانا ہے۔
ریسٹورنٹ کے ملازمین اس کچرے میں سے جو کہ سپرمارکیٹس پھینک دیتی ہیں کو چن
لیتے ہیں جنہیں بعد ازاں مختلف اقسام کی ڈش بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ریسٹورنٹ ابھی حال ہی میں بنایا گیا ہے لیکن یہاں
گاہکوں کا بہت زیادہ رش ہے اور اس میں تمام کمیونٹی (غریب امیر) سب شامل
ہیں اور انہیں یہاں مٹن روسٹ سے لے کر بطخ کے گوشت کی پروڈکٹ کے ساتھ ساتھ
پھل اور ڈیری کی مصنوعات بھی پیش کی جاتی ہیں۔دنیا میں کچرے کی نذر کی
جانیوالی اشیائے خوردونوش کی مقدار کا ایک تہائی غذائی اشیاء پر مشتمل ہوتا
ہے اور اس کی مقدار روز بروز بڑھ رہی ہے ۔ اشیائے خوردونوش کے ضیاع کو
روکنے کیلئے عالمی سطح پر ایک تحریک موجود ہے جسے freeganism کہا جاتا ہے ۔درحقیقت
یہ کوئی تحریک نہیں بلکہ یہ کنزیومر ازم کے مخالف ایک طریقہ ہے جس کا مقصد
کچرے کی نذر کی جانیوالی اشیائے خوردونوش میں سے قابل استعمال اشیاء کو الگ
کرکے قابل استعمال بنانا ہے۔قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس عمل سے حاصل ہونے
والی رقم کو کوئی اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لاتا بلکہ حاصل ہونے والی
آمدنی بھی فلاحی کاموں کی استعمال کرنے کی پیش بندی کی گئی ہے اور سب سے
دلچسپ بات کہ اس ریسٹورنٹ کا پورا عملہ رضاکاروں پر مشتمل ہے اور اپنی خوشی
سے بلامعاوضہ کام کرتے ہیں۔ اب یہاں پر تھوڑی سی بات ہوجائے روایتی لوگوں
کی یعنی کے ناقدین کی ۔جن کا موقف ہے کہ یہ لوگ کچرے میں سے مفت میں حاصل
کی گئی غذائی اشیا بیچ کر نفع کمارہے ہیں اور اب سپر مارکیٹس والے بھی کچرے
اٹھانے جانیوالوں سے معاوضہ ڈیمانڈ کرنے لگے ہیں جبکہ ریسٹورنٹ مالک سوفی
سیلز کہتی ہیں کہ یہ ریسٹورنٹ خالصتا لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے بنایا
گیا ہے اور اس کی آمدنی کو بھی غریبوں اور ناداروں کی بہتری اور بہبود
کیلئے استعمال کیاجائیگا۔مگر اب اس کارخیر میں لوگ رکاوٹیں ڈالنے لگے ہیں
ہمیں بری نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ ہم پر شک کیا جارہا ہے یہ وہ لوگ ہوتے
ہیں جو کہ نہ تو خود کوئی اچھا کام کرتے ہیں اور نہ ہی کسی اچھے کام کو
ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی یہ کام جاری و ساری رکھنے کاارادہ ہے۔
اچھی سوچ ہے اور اس ایشو پر ان کو ڈٹ جانا چاہئے۔ یقینا اس میں بہت سے
لوگوں کی بھلائی کا واضح پہلو موجود ہے اور ایک خاص وقت کے بعد اس کام کے
حوالے سے انکو appreciation بھی ملے گی ۔ ان میں انپے لوگوں کیلئے کچھ کرنے
کا بے لوث جذبہ موجود ہے ۔ وہ اپنے لوگوں کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہیں اور
وہاں کی کمیونٹی انہیں یہ سب کرنے بھی دے گی ۔کیونکہ وہ پاکستان میں نہیں
رہتی۔اور وہاں پر اچھے کام کرنے والے لوگوں کو reward اور award دونوں ہی
ملتے ہیں۔ جبکہ یہاں تو صرف زبانی جمع خرچ کرنے والوں کی واہ واہ ہے ۔کچھ
نا کرنے والوں کو ایوارڈ دے دیئے جاتے ہیں جبکہ ان کے کوئی بھی کارہائے
نمایاں کسی بھی انداز میں دکھائی و سنائی نہیں دیتے بلکہ ملک دشمنی کے
شاخسانے کہیں نہ کہیں انہیں جوڑے ہوتے ہیں۔بہر حال بقول شاعر
پھولوں کو بکھیرا تو چراغوں کو بجھایا
ڈھونڈتی پھرتی ہے ہوا اور کسی کو
اس کو بھی پنپتے ہوئے دیکھا نہیں انور
جس نے بھی پنپنے نہ دیا اور کسی کو |