قرآنی فریاد (قسط نمبر2)

یہ سب کچھ اگر ہو رہا ہے تو اپنے کرتوتوں کی سزا ہے، بجز اس کے کچھ نہیں ہے: {ذلک بما قدمت أیدیکم وأن اللہ لیس بظلام للعبید} (آل عمران:182، الانفال:51) یہ سب تمہارے ہاتھوں کے کئے دھرے کی سزا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا ہرگز نہیں ہے۔ جب تلک مسلمانوں نے اپنا ضابطہ، دستور ومنشور قرآن کو بنائے رکھا۔ اس کی تعالیم کو اپنائےرکھا، ہر معاملے کو شریعت ِ محمدی ﷺ کی کسوٹی پر تولتے رہے انکی عزت وناموس اور جان ومال سب محفوظ رہے اور جبھی انہوں نے قرآنی احکامات کو ترک کیا، وضعی قوانین اور مغربی دساتیر کو اپنا قانونِ زندگی بنانے پر راضی برضا ہوئے تبھی وہ ذلیل وخوار ہو گئے، ان کی عزت وآبرو، جان ومتاع، زر وزن اور زمین سب ارزاں ہو گئیں۔ کیونکہ ہمارے اسلاف بحیثیتِ حقیقی مسلمان صاحبِ قرآن ہو کر معزز ومکرم تھے اور ہم بحیثیت ِ نام لیوا مسلم امہ تارکِ فرقان ہو کر ذلیل وخوار ہو گئے ہیں۔ ڈر یہاں تک ہے کہ کہیں ہم پر یہ صادق نہ آجائے کہ "تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے"، جسے مفکر اسلام علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اپنی لا جواب، معرکۃ الاراء اور شاہکار نظم "جواب شکوہ" کے بیسویں بند میں کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

اور یہ بات عیاں ہو گئی کہ ایک صحیح مسلمان بننے اور اللہ کی رضا کے مستحق ٹھہرنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآنی تعلیمات اور احکامات پر عمل پیرا ہوں، بجز اس کے صحیح مسلمان بننا ممکن ہی نہیں ہے، اقبالؔ کے پیرایے میں اس طرح پڑھیں ؎
گر تو می خواہی کہ مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب مصحف ِ شریف کو اٹھاتے تھے تو وہ رونے لگتے تھے اور زبان سے یہ کلمات جاری ہو جاتے تھے کہ جہاد کی وجہ سے ہم آپ سے مشغول رہے اور کما حقہ حق ادا نہیں ہو سکا، پوری زندگی کو قرآنی قالب میں ڈھالنے کے باوجود بھی ہمارے سلف ِ صالحین اس طرح اپنی تقصیر بیان کرتے تھے، تو ہماری کیا حالت ہونی چاہئے؟! اگر صحابۂ کرام کو جہاد فی سبیل اللہ نے قرآن سے مشغول رکھا ہے تو ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ آخر ہمارے لئے کیا عذر ہے کہ ہم قرآن کے لئے کوئی وقت نہیں دے سکتے ہیں؟! روزانہ چند آیات کی تلاوت کے لئے کچھ وقت تک نہیں نکال پاتے ہیں۔ حالانکہ انٹرنیٹ، چیٹنگ رومز اور فیس بک، ٹیویٹر، یوٹیوب جیسے سوشل نیٹ ورکس پر کئی کئی گھنٹے گزار لیتے ہیں، لیکن افسوس کہ قرآن کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ شاپنگ مالز، مارکیٹس، بیوٹی پارلرز اور دکانوں کے طواف بڑے شوق وذوق اور جذب ومستی میں کرتے ہوئے طویل وقت ضائع کرنے کے لئے ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ مگر فرامین ِ ربانی اور فرموداتِ نبوی کے فیوض وبرکات سے بہرہ مند ہو کر فلاحِ دارین حاصل کرنے کے لئے کوئی وقت نہیں نکال سکتے ہیں۔ اکثر مسلمانوں کی حالتِ زار یہ ہے کہ گزشتہ رمضان تا آئندہ رمضان مصحفِ شریف کا دیدار تک انہیں نصیب نہیں ہوتا، گویا اسے صرف رمضان میں پڑھنے کے لئے اتارا گیا ہو؟! جب مسلم دنیا کی یہ حالت ہو تو فتح وکامرانی اور غلبہ وتسلط کی باتیں محض حکایت لگتی ہیں اور قصہ بن کر کتابوں میں بند ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آج کی نام نہاد روشن خیال مسلمان نسل کو کانوں کان بھی ان کی خبر تک نہیں ہے ، اور سراپا گفتار بنے ہوئے بڑے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ان کے اسلاف سراپا کردار اور وحی الٰہی کا عملی نمونہ ہوا کرتے تھے۔ بقولِ حکیم الامت، شاعرِ مشرق ؎
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت ان کی

جیسا کہ رسول ِ مکرم ﷺکے بارے میں حضرتِ عائشہ نے فرمایا تھا کہ آپ قرآن کا عملی نمونہ تھے، آپ ﷺ کے اخلاق قرآنی تعلیمات پر مبنی تھے۔ آپ مدرسۂ نبوت میںاپنے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے والے علم کے پروانوں کو صرف دس آیتیں سکھاتے تھے اور جب تلک وہ ان کو حفظ کر کے اپنی عملی زندگی کا حصہ نہیں بناتے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ اس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت وتزکیۂ نفس محمد عربی ﷺ کے ہاتھوں پریکٹیکلی علما وعملا ہوا۔ تب جا کر عملی پیکر بن کر قیصر وکسریٰ کی مملکتوں کو تخت وتاراج کرتے ہوئے اس بانگِ سدا "جئنا لنخرج العباد من عبادۃ العباد اٖلی عبادۃ رب العباد "کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ مسلمانوں کو بزبانِ خلیفۃ الرسول فاروق عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ باور کرایا گیا کہ "نحن قوم أعزنا اللہ بالاٖسلام ومتی ابتغینا العزۃ بغیرہ أذلنا اللہ "ہماری مسلم قوم کو اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت ومنزلت عطا کی ہے۔ جوں ہی ہم اسلام سے کنارہ کشی اختیار کریں گے اللہ ہمیں ذلیل و رسوا کر دیں گے" اور اس وقت یہی وجہ امت ِ اسلامیہ کی ذلت ورسوائی کا باعث بنی ہوئی ہے۔

اللہ تعالی نے امت ِ مسلمہ کو کلامِ الہی کی روشنی سے دنیا کے لوگوں کو خیر وبھلائی کی طرف دعوت دینے اور شر وبرائی سے بچانے کے لئے نکالی گئی تھی اور اس کارہائے نمایاں کی بنا "خیر الامم" ہونے کا شرف بخشا تھا۔ مگر افسوس آج مسلم امہ فرنگیوں کے دوش بدوش اور شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ اکثر وبیشتر مسلم معاشرے میں زندگی کی ہر سطح پر ان کی تقلید ِ اعمی اور بے ہنگم ان کی پیروی کو باعثِ افتخار واعتزاز اور قابل ِ ستائش سمجھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس فعلِ شنیع میں "ریسنگ" کا دور دورہ سا ہے۔ رہن وسہن، بود وباش، چال وچلن، کردارو گفتار، افعال واقوال، حرکات وسکنات نیز شعبہائے زندگی میں اسلامی تعلیمات کو پس ِ پشت ڈال کر افرنگی طرزِ زندگی اپنانے کی تگ ودو کی جا رہی ہے۔ اسلامی مملکتوں میں رائج الوقت آئین اور قانون بھی یورپ وامریکہ کی طرف سے خیرات میں ملا ہواہے اور ستم ظریفی دیکھیں کہ مسلمان حکمران قرآن جیسے ضابطہ حیات، منشورِ الٰہی اور دستورِ خداوندی کی بالادستی کا نعرہ بلند کرنے کی بجائے وضعی قوانین اور فرنگی لاء کے نفاذ کے لئے دن رات کوشاں اور غلطاں وپیچاں ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت نفاذِ شریعتِ محمدی کے آرڈیننس کا بِل ملکی سطح پر پاس کرانے کے لئے اسمبلیوں میں پیش کرنے میں لیت ولعل سے کام لیتی ہے، بلکہ اسے مخمصے میں پڑنے کے مترادف سمجھتی ہے۔

قارئین کرام! کئی ماہ قبل راقم السطور کویت یونیورسٹی کے کیمپس میں سے گزر رہا تھا، ہر طرف خوبصورت بینرز چسپاں تھے، جن پر یہ اعلان تھا کہ امیر الکویت الشیخ صباح الاحمد الصباح کی زیر سر پرستی عالمی سطح پر قرآن پاک کے حفظ اور تلاوت کا مقابلہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ جس میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے حفاظِ کرام اور قرائے عظام شرکت فرمائیں گے، ان سب کی آمد ورفت، قیام وطعام کے انتظام وانصرام سے لیکر جیتنے والوں کو بھاری بھر کم انعامات، اور تمام شرکاء کے لئے معقول رقوم کا بندوبست حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اس محفل کے افتتاحی اور اختتامی تقریبات میں امیر الکویت نے بنفسِ نفیس شرکت کر کے اور اسانید وانعامات تقسیم فرما کر نہ صرف شرکاء کی حوصلہ افزائی کی بلکہ یہ بھی باور کرایا کہ ہر اسلامی ممالک کے سربراہان اور اصحابِ اختیار و اربابِ اقتدار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے دیہاتوں، قصبوں، شہروں، صوبوں اورملکوں میں ایسی ہی شاندار تقریبات کے انعقاد کے ذریعے أھل اللہ وخاصتہ کی خدمت کر کے قرآن سے اپنی نسبت کا معمولی سا مظاہرہ کریں، نہ کہ صرف گانوں اور مجروں کی محفلیں منعقد کرانے میں کروڑوں روپے خرچنے پر اکتفا کریں۔ اس قرآن کریم کے حفظ وتلاوت کے مقابلے کا نام "مسابقۃ الکویت الکبری" رکھا گیا تھا اور یہ سابق امیر کویت الشیخ جابر الاحمد الصباح کے دور سے مسلسل سالانہ منعقد ہو رہا ہے۔ یہاں پر گاہے بگاہے بہت سے قرآنی مسابقہ اور مقابلہ جات مختلف اداروں، کمپنیوں، شخصیات اور خصوصا وزارتِ اوقاف کی طرف سے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح اکثر مساجد میں نمازِ عصر کے بعد قرآنی حلقات کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
Yasin Sami
About the Author: Yasin Sami Read More Articles by Yasin Sami: 9 Articles with 9043 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.