ملک کے بعض دورسے شہروں کی طرح
پشاور میں بھی کچھ عرصے سے محرم الحرام کا مہینہ بہت بھاری ثابت ہوتا ہےاس
بار تو اب تک امن وامان رہا اﷲ کرے کہ آئندہ بھی اسی طرح امن و امان رہے اس
بار نواور دس محرم الحرام کوپورا شہر ایسا ویران اور سنسان لگ رہا تھا جیسے
جنگ کے زمانے میں کسی شہر کے باسی علاقے سے نقل مکانی کرلیتے ہیں پورا شہر
بند تھا کاروبار زندگی معطل تھا پبلک ٹرانسپورٹ بالکل نہیں تھی پرائیویٹ
گاڑیاں بھی انتہائی کم تھیں سڑکوں پر کوئی ٹریفک رش تھا اور نہ ہی لوگ نظر
آرہے تھے پورے شہر کے باسی اپنے گھروں میں دبکے ہوئے تھے اور ہوتے بھی کیوں
نہ کہ سیکورٹی کے پیش نظر پورا شہر سیل تھا اندرون شہر جانے والے تمام
راستوں پر ناکے لگے ہوئے تھے پولیس اور ٹریفک پولیس کے اہلکار مختلف ناکوں
پر ڈیوٹی دے رہے تھے جہاں ناکے تھے وہاں سے آگے جانے کی کسی کو اجازت نہیں
تھی اور یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث ہو رہا ہے
پشاور جو آج کل دہشتگردی کےخلاف جنگ میں فرنٹ لائن بنا ہوا ہے یہ کبھی بہت
ہی پرسکون شہر ہوا کرتا تھا اور اس کے پرامن باسی بے فکری کی زندگی گزار
رہے تھے جسے 1974ءکے بعد سے نظر لگ گئی وسطی ایشیاء کیلئے مرکز رکھنے والے
اس شہر کی اپنی ایک تاریخ ہے جس میں آج بھی لوگ دلچسپی رکھتے ہیں آج ہم آپ
کو اس کی تاریخ سے بھی روشناس کرانا چاہتے ہیں۔مسائل میں گھیرے ہوئے اس شہر
پشاور کی تاریخ بہت قدیم ہے یہ شہر وسطی ایشیاءکی ریاستوں کیلئے ہمیشہ سے
تجارتی مرکز رہا تجارتی قافلے یہاں ضرور پڑاؤ ڈالتے دورہ خیبر کے راستے آنے
والے یہ تجارتی قافلے پشاور کے راستے ہی تجارت کیلئے ہندوستان جاتے آج سے
تقریباً دو ہزار سال قبل گندھارا ریاست کے بادشاہ شہنشاہ کشن نے اس شہر کی
بنیاد رکھی تاریخ کی مختلف کتابوں میں اس شہر کو اس دور میں ”اناج کا شہر“
اور کنول کے پھولوں کا شہر“ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے لیکن نہ تو یہ اب
اناج کا شہر رہا اور نہ ہی کنول کے پھولوں کا شہر بلکہ اب تو اس شہر کے
باسی ان دونوں چیزوں کو دیکھنے کیلئے ترس رہے ہیں شہنشاہ کشن کے دور میں یہ
شہر گندھارا تہذیب کا مرکز تھا پشاور کی تاریخ میں اگر گندھارا کا ذکر نہ
کیا جائے تو اسے نامکمل تصور کیا جاتا ہے اس شہر کو درہ خیبر کی وجہ سے ایک
خاص اہمیت حاصل ہے یہی درہ پشاور پر حملہ آوروں کی راہ گزر رہا ہے ان حملہ
آوروں میں افغانی‘ ایرانی‘ یونانی‘ کشانی‘ باختر یونانی‘ سورانی اور سیٹھی
قبائل کے علاوہ ایران کا سائرس بادشاہ اور مغل بھی شامل ہیں نویں یہ ہندو
راجاﺅں کا دارلحکومت رہا کچھ عرصہ بعد ہندو راجاﺅں نے بیرونی حملہ آوروں سے
تنگ آکر دارالحکومت کو ہندوستان منتقل کردیا پانچویں صدی عیسوی میں سلطان
محمود غزنوں کے حملوں کے بعد اس علاقے میں گندھارا تاریخ کا خاتمہ ہوا اور
بدھومت کا زوال شروع ہوگیا گندھارا کی ریاست موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا اور
صوبہ پنجاب کے علاقے پوٹھو ہار کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی پشاور‘ تخت
بھائی‘ چارسدہ اور ٹیکسلا اس کے اہم مراکز تھے۔مغل بادشاہ بابر درہ خیبر کے
راستے 1526 ءمیں جنوبی ایشیاءمیں داخل ہوا اور برصغیر پاک وہند میں مغلیہ
دور کی بنیاد رکھی 16 دیں صدی میں مغلوں کے ظہور تک پشاور کی وہ اہمیت
اجاگر نہ ہوسکی جو اس کے ماضی کا حصہ تھی مغل بادشاہ بابر نے جب پشاور کا
رخ کیا تو یہاں ایک نیا شہر آباد کیا اور اس کے ماضی کا حصہ تھی مغل بادشاہ
بابرنے جب پشاور کا رخ کیا تو یہاں ایک نیا شہر آباد کیا اور اس کا نام
بیگم رکھا سن 1530ءمیں مغل بادشاہ بابر نے یہاں از سر نو قلعے تعمیر کئے
اور غالبا بابر کے پوتے شہنشاہ اکبر نے اس کا نام پشاور رکھا اس سے قبل
مختلف حملہ آوروں کے دور میں اس کے نام تبدیل ہوتے رہے اسے پنشاپور اور
پشاپور کے نام سے بھی یاد کیا جاتا رہا پشاور کے معنی ہیں ”سرحدی محل“ اسی
دور میں یہاں بازاروں اور باغات کی تعمیرات کا رجحان مزید زیادہ ہوا شہنشاہ
شیر شاہ سوری اور ان کے جانشین کے دور میں اس شہر نے ترقی کے کئی منازل طے
کئے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں کابل سے دہلی تک شاہراہ
تعمیر ہوئی اور اس روڈ کو قیام پاکستان کے بعد بھی شیر شاہ سوری روڈ کے نام
سے یاد کیا جاتا تھا جسے اب جی ٹی روڈ کے نام سے یاد کیا جارہا ہے اس روڈ
کی تعمیر نے اس دور میں پشاورکی تجارتی اہمیت کو دوگنا کردیا تھا اسی دور
میں پشاور اور اس کے ارگرد بڑے پیمانے پر درخت اور نت نئے باغات لگائے گئے
بعض تواریخ میں آیا ہے کہ پشاور سنسکرت زبان کا لفظ پشاپورہ سے بگڑ کر
پشاور بنا ہے پشا پورہ کے معنی ہے پھولوں کا شہرہے ‘ انیسویں صدی کے آغاز
میں سکھوں نے پشاور پر قبضہ کرلیا اور 1848ءمیں انگیرےزوں نے سکھوں کو نکال
کر پشاور پر اپنا قبضہ جما لیا بیسویں صدی کے آغاز میں شمال مغربی صوبے کا
دارالحکومت بنادیا گیا 1955ءمیں مغربی سرحدی علاقے کو صوبہ بنادیا گیا تو
پشاور کو اس کا صدر مقام بنادیا گیا قدیم پشاور صرف اس کے اردگرد کے علاقے
پر مشتمل تھا انگریزوں نے پشاور پر قبضہ کرنے کے بعد 1949ءمیں کنٹونمنٹ کا
علاقہ بنایا اور اسے اپنی فوجی چھاﺅنی قرار دیدیا جو 1947ءتک رہا پاکستان
کے قیام کے بعد اسے اوپن کردیا گیا۔ |