حضرت مولانا یوسف کاندھلوی ؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں حضرت سوید بن غفلہ ؒ کہتے
ہیں کہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جو حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمر ؓ کا
تذکرہ کر رہے تھے اور اُن دونوں کے درجے کو گھٹا رہے تھے ۔ میں نے حضرت علی
ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ ساری بات بتائی۔ انہوں نے فرمایا اﷲ اُس پر
لعنت کرے جو اپنے دل میں ان دونوں حضرات کے بارے میں اچھے اور نیک جذبات کے
علاوہ کچھ اور رکھے۔ یہ دونوں حضور ﷺ کے بھائی اور اُن کے وزیر تھے۔ پھر
منبر پر جا کر زبردست بیان فرمایا اور اُس میں یہ فرمایا۔
’’لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ قریش کے دو سرداروں اور مسلمانوں کے دو(معز
و محترم) باپوں کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں جس سے میں بیزار اور بری
ہوں۔ بلکہ انہوں نے جو باتیں کہیں ہیں میں ان پر انہیں سزا دوں گا۔ اُس ذات
کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا۔ ان دونوں سے وہی محبت کرے
گا جو مومن اور متقی ہو گا۔ اور ان دونوں سے وہی بغض رکھے گا جو بدکار اور
خراب ہو گا۔یہ دونوں حضرات سچائی اور وفاداری کے ساتھ حضور ﷺ کی صحبت میں
رہے۔ دونوں حضور ﷺ کے زمانے میں نیکی کا حکم فرمایا کرتے تھے اور بُرائی سے
روکا کرتے تھے اور سزا دیا کرتے تھے۔ جو کچھ بھی کرتے تھے اس میں حضورﷺ کی
رائے مبارک کے کچھ بھی خلاف نہیں کرتے تھے۔ اور رسول اکرم ﷺ بھی کسی کی
رائے کو ان دونوں حضرات کی رائے جیسا وزنی نہ سمجھتے تھے اور حضور ﷺ کو ان
دونوں سے جتنی محبت تھی اتنی کسی اور سے نہ تھی۔ حضور ﷺ دنیا سے تشریف لے
گئے اور وہ ان دونوں سے بالکل راضی تھے اور (اُس زمانے کے) کے تمام لوگ بھی
اُن سے راضی تھے۔ پھر(حضورﷺ کی آخر زندگی میں) حضرت ابو بکر ؓ کو نماز کی
ذمہ داری دی گئی۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ نے اپنی نبی ﷺ کو دنیا سے اُٹھا لیا تو
مسلمانوں نے اُن پر نماز کی ذمہ داری کو برقرار رکھا بلکہ اُن پر زکوٰۃ کی
ذمہ داری بھی ڈال دی۔ کیونکہ قرآن میں نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ہمیشہ اکٹھا
ہی آتا ہے۔ بنوں عبد المطلب میں سے میں سب سے پہلے اُن کا نام(خلافت کے لیے)
پیش کرنے والا تھا۔اُنہیں تو خلیفہ بننا سب سے زیادہ ناگوار تھا۔ بلکہ وہ
تو چاہتے تھے کہ ہم میں سے کوئی اور خلیفہ بن جائے۔ اﷲ کی قسم (حضورﷺ کے
بعد ) جتنے آدمی باقی رہ گئے تھے وہ اُن میں سب سے بہترین تھے۔ سب سے زیادہ
شفیق،سب سے زیادہ رحمدل اور بڑے عقلمند اور متقی انسان اور سب سے پہلے
اسلام لانے والے تھے۔ حضور ﷺ نے اُ ن کو شفقت اور رحمدلی میں حضرت میکائیل
ؑ کے ساتھ اور معاف کرنے اور وقار سے چلنے میں حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ
تشبیہ دی تھی۔ وہ (خلیفہ بن کر)بالکل حضور ﷺکی سیرت پر چلتے رہے۔ یہاں تک
کے اُن کا انتقال ہو گیا۔ اﷲ اُن پر رحم فرمائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے لوگوں سے
مشورہ کے بعد اپنے بعد حضرت عمر ؓ کو امیر بنایا۔ کچھ لوگ اُن کی خلافت پر
راضی تھے۔ کچھ راضی نہیں تھے۔ میں اُن میں سے تھا جو اُن کی خلاف پر راضی
تھے۔ لیکن اﷲ کی قسم حضرت عمر ؓ نے ایسے عمدہ طریقے سے خلاف کو سنبھالا کہ
اُن کے دنیا سے جانے سے پہلے وہ سب لوگو بھی اُن کی خلافت پر راضی ہو چکے
تھے جو شروع میں راضی نہیں تھے۔اور وہ امرِ خلاف کو بالکل حضور ﷺ کے اور
حضور ﷺ کے ساتھی یعنی حضرت ابوبکر ؓ کے نہج پر لے کر چلے ۔ اور وہ اُن
دونوں حضرات کے نشانِ قدم پر اس طرح چلے جس طرح اُونٹ کا بچہ اپنی ماں کے
نشانِ قدم پر چلتا ہے اور وہ اﷲ کی قسم حضرت ابوبکرؓ کے بعد رہ جانے والوں
میں سب سے بہترین تھے اور بڑے مہربان اور رحمدل تھے۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی
مدد کیا کرتے تھے اور پھر اﷲ تعالیٰ نے حق کو اُن کی زبان پر اس طرح جاری
کر دیا تھا کہ ہمیں نظر آتا تھا کہ فرشتہ اُن کی زبان پر بول رہا ہے۔اُن کے
اسلام کے ذریعہ اﷲ نے اسلام کو عزت عطا فرمائی اور اُن کی ہجرت کو دین کے
قائم ہونے کا ذریعہ بنایا اور اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کے دل میں اُن کی محبت
اور منافقوں کے دل میں اُن کی ہیبت ڈالی ہوئی تھی اور حضورﷺ نے اُن کو
دشمنوں کے بارے میں سخت دل اور سخت کلام ہونے میں حضرت جبرائیل ؑ کے ساتھ
اور کافروں پر دانت پیسنے اور سخت ناراض ہونے میں حضرت نوع ؑ کے ساتھ تشبیہ
دی تھی۔اب بتاؤ تمہیں کون اُن دونوں جیسا لا کر دے سکتا ہے۔اُن دونوں کے
درجے کو وہی پہنچ سکتا ہے جو اُن سے محبت کرے گا اور اُن کا اتباع کرے
گا۔جو ان دونوں سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور جو اُن سے
بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض رکھے گا اور میں اس سے بری ہوں۔ اگر ان دونوں
حضرات کے بارے میں میں یہ باتیں پہلے کہہ چکا ہوتا تو میں ان کے خلاف بولنے
والوں کو آج سخت سے سخت سزا دیتا لہذا میرے آج کے اس بیان کے بعد جو اس جرم
میں پکڑ کر میرے پاس لایا جائے گا اُس کو وہ سزا ملے گی جو بہتان باندھنے
والی سزا ہوتی ہے۔ غور سے سن لو اس اُمت کے نبیﷺ کے بعد اِس اُمت میں سب سے
بہترین حضرت ابو بکرصدیقؓ ہیں پھر عمر فاروقؓ ہیں ، پھر اﷲ ہی جانتے ہیں کہ
خیر و بہتری کہاں ہے۔ میں اپنی یہ بات کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ میری اور تم
سب لوگوں کی مغفرت فرمائے۔
حضرت ابو اسحاقؒ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت علی بن ابی طالبؓ سے کہا
(نعوذ باﷲ من ذلک) حضرت عثمان ؓ آگ میں ہیں۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ تمہیں اِس
کا کہاں سے پتہ چلا۔ اُس آدمی نے کہا کیونکہ اُنہوں نے بہت سے نئے کام کیے
ہیں۔ حضرت علیؓ نے اُس سے پوچھا تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہاری کوئی بیٹی
ہو تو کیا تم اُس کی شادی بغیر مشورے کے کر دو گے۔ اُس نے کہا نہیں۔ حضرت
علیؓ نے فرمایا حضورﷺ کی اپنی دو بیٹیوں (کی شادی) کے بارے میں جو رائے تھی
کیا اِس سے بہتر کوئی رائے ہو سکتی ہے۔ ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ حضورﷺ جب کسی
کام کا ارادہ فرماتے تھے تو اِس سے بارے میں اﷲ تعالیٰ سے استخارہ کرتے تھے
یا نہیں۔ اُس نے کہا کیوں نہیں ، حضورﷺ استخارہ کرتے تھے۔ حضرت علیؓ نے
فرمایا حضورﷺ کے استخارہ کرنے پر اﷲ تعالیٰ حضورﷺ کیلئے خیر اور بہتر صورت
کا انتخاب کرتے تھے یا نہیں۔ اُس نے کہا کرتے تھے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا یہ
بتاؤ کہ حضورﷺ نے حضرت عثمان ؓ سے اپنی دو بیٹیوں کی جو شادی کی تھی اِس
میں بھی اﷲ تعالیٰ نے اُن کے لئے خیر کا انتخاب کیا تھا یا نہیں۔ میں نے
تمہاری گردن اُڑا دینے کے بارے میں غور کیا تھا لیکن ابھی اﷲ کو یہ منظور
نہیں تھا ، غور سے سنو اگر تم اِس کے علاوہ کچھ اور کہو گے تو میں تمہاری
گردن اُڑا دوں گا۔
قارئین! آج کے بزرجمہر رحمان ملک المعروف ’’چُلبُل ملک‘‘ نے 9 اور 10 محرم
الحرام کے دنوں میں پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور موبائل فون سروس بند
کرنے کے ساتھ ساتھ ڈبل سواری پر پابندی اورکئی علاقوں میں تو موٹرسائیکل
چلانے پر ہی پابندی عائد کر دی۔ اِسے مہذب دنیا میں ہر گز ’’گُڈ گورننس‘‘
نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ دورِ جاہلیت کے اُن ہتھکنڈوں کے ساتھ ضرور تشبیہ دی
جاسکتی ہے کہ جہاں انسان کو انسانی حقوق کے متعلق یا تو آگاہی ہی نہ تھی
اور یا پھر خوئے غلامی اِس قدر پکی ہو چکی تھی کہ درست اور غلط کی تمیز بھی
اُٹھ چکی تھی۔ امریکہ، برطانیہ، یورپ، مشرق وسطیٰ اور تمام ترقی یافتہ
ممالک کو چاہیے کہ چُلبُل ملک کو عاریتاً پاکستان سے مانگ کر اپنے اپنے
ممالک میں تمام سیکرٹ سروسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ٹریننگ
کیلئے مامور کریں اِس بہانے کم از کم ہم غریب پاکستانیوں اور کشمیریوں کی
جان اُن سے چھوٹ جائے گی۔
قارئین!آیئے کالم کے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔تاریخ کے صفحات کو اُلٹتے ہوئے
دیکھتے ہیں کہ شیعہ سنی فساد اور لڑائی کی بنیاد کیا ہے۔حضرت عثمان غنی ؓ
کی شہاد ت سے لے کر حضر ت امیر معاویہ ؓ کی خلافت تک کے واقعات اور اُس کے
بعد یزید کی طرف سے حضرت امام حسین ؓ اور خانوادۂ رسول ﷺ پر ڈھائے جانے
والے مظالم تاریخ کا حصہ ہیں۔ہم یہاں پر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ
مملکت خداداد پاکستان میں شیعہ سنی اختلاف کی بنیاد کیا ہے اور کیا وجہ ہے
کہ ہر سال محرم کے دوران پورے ملک میں ایمرجنسی کا سماں دکھائی دیتا ہے ۔
درجنوں شہروں میں فوج اور رینجرز کو ڈیوٹی سنبھالنی پڑتی ہے جبکہ مسجدوں
اور امام بارگاہوں میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ تو پورے سال
جاری ہی رہتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اندھی قتل و غارت گری کے اس
کھیل میں اب تک پاکستان میں بیس ہزار سے زائد افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ
دھو بیٹھے ہیں۔
قارئین! 1979ء میں جب امام خمینی نے انقلاب برپا کیا تو اُس وقت کہا جاتا
ہے کہ شیعہ اثناء عشری مسلک کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا۔مختلف
رپورٹس کے مطابق ایران کے مختلف علاقوں میں سنی علماء اور آبادی کو تشدد کا
نشانہ بنایا گیا۔اُس کے بعد اس انقلاب کو ددنیا کے دیگر اسلامی ممالک میں
ایکسپورٹ کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ یہ تمام باتیں میڈیا کے اوپر
رپورٹ کی گئیں۔ اب خدا جانے ان میں کوئی صداقت ہے یا اس کے پیچھے بھی
مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن صیہونی لابی اور امریکہ کا کوئی ہاتھ
ہے۔پاکستان میں ذو الفقار علی بھٹوکے بعد امیر المومنین جنرل ضیاء الحق کے
دس سالہ دورِ اقتدار میں جہاں دیگر علتیں اور بیماریاں پاکستانی معاشرے کا
حصہ بنیں وہی پر لسانیت کے بعد سب سے بڑا عفریت جوپاکستانیوں کے لیے سب سے
بڑا عذاب بنا وہ فرقہ واریت کا زہر اور مسلکی اختلاف کی بنیاد پر جنم لینے
والی متشدد مذہبی جماعتیں، مختلف لشکر اور ایسے مذہبی لوگ تھے جنہوں نے ذرا
سے اختلاف کو پہاڑ جتنا بڑا کر کے انسان کو انسان سے لڑا دیا۔یہ تشدد اس حد
تک پھیلا کہ شیعہ ناپختہ ذہن انتقام کی آگ لے کربندوقیں اور بم لے کر
مسجدوں پر چڑھ دوڑے اور اہلِ سنت جذباتی نوجوان بھی اسلحے سے لیس ہو کر
امام بارگاہوں کو فتح کرنے چل نکلے۔بڑے بڑے جید علمائے کرام اس خونی کھیل
کی نذر ہو گئے۔میڈیا نے یہ بات بھی کھل کر رپورٹ کی کہ سعودی عرب کی طرف سے
اپنے ساتھ مسلکی ہم آہنگی رکھنے والی جماعتوں اور شخصیات کو بڑے پیمانے پر
فنڈز فراہم کئے اور ایران نے شیعہ اثناء عشری مسلک سے تعلق رکھنے والے
لوگوں کو خطیر رقم فراہم کی۔یہ تمام رقوم پاکستان میں فساد کے لیے استعمال
کی گئیں۔ امریکہ،بھارت اور اسرائیل نے اس خانہ جنگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے
مختلف تنظیموں میں اپنے ایجنٹس گھسا دیئے اور ان ایجنٹوں نے تو تباہی مچا
دی۔تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہودی اور فدائین کا گروہ خلافتِ راشدہ سے
لے کر اب تک ہمیشہ اس موقع کی تلاش میں رہے کہ کس طرح مسلمانوں کے اتحاد کو
پارہ پارہ کیاجائے اور اُن کی اجتماعیت کو ختم کیا جائے۔آج اگر عالمی منظر
نامے پر نظر دوڑاتے ہیں تو پاکستان دنیا کا وہ واحد اسلامی ملک دکھائی دیتا
ہے جو جوہری قوت ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی فوجی قوت رکھتا ہے کہ بھارت اپنے
خوفناک عزائم پورے کرنے سے قاصر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل جیسا دہشت
گرد ملک بھی پاکستان کی عسکری قوت اور اُس سے بڑھ کر مسلمانانِ پاکستان کے
جذبہ ایمانی سے خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ پاکستانی پائلٹ ہی تھے جنہوں نے
شام اور اسرائیل کی جنگ کے دوران درجنوں اسرائیلی لڑاکا طیارے مار گرائے
تھے اور اسرائیل کو پسپا ہونا پڑا تھا۔
قارئین! پاکستان میں اس وقت یہودی لابی ، ہندو ایجنٹس اور انکل سام کے
کارندے مل کر شیعہ اور سُنی مسالک کے ماننے والوں میں نفرت کی فضاء پروان
چڑھانے کی سازشیں کر رہے ہیں۔یہاں پر ہم اُس نفرت انگیز زہریلے لٹریچر کا
بھی ذکر کریں گے جو کسی انتہائی غلیظ ذہنیت رکھنے والے انسان یا لابی نے
پورے پاکستان میں پھیلایا۔ اس زہریلے لٹریچر میں بظاہر شیعہ مسلک کی ہمدردی
کرتے ہوئے معاذ اﷲ خلفائے راشدین حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروقؓ،
حضرت عثمان غنی ؓ اور دیگر عظیم صحابہ کرام ؓ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا
حتیٰ کہ خدا معاف کرے گالیاں تک دی گئیں۔اب یہ لٹریچر کہاں سے آیا ، کس نے
چھپوایا اور کس نے بانٹا ان تمام سوالوں کے جواب ہم رحمان ملک المعروف چلبل
ملک سے پوچھتے ہیں۔ملک صاحب پورے ملک میں ڈبل سواری اور موٹر سائیکل پر
پابندی لگانا آسان ہے ۔ موبائل فون سگنل بند کر دینا بھی کوئی مشکل نہیں
لیکن ہمارے ان سوالوں کے جوابات دیجئے کہ یہ زہریلا لٹریچر اگر پاکستان کی
سرزمین پر بانٹا جارہا ہے اور اسلام کی بنیاد صحابہ کرامؓ کے متعلق غلیظ
اور متعفن باتیں کی جارہی ہیں تو اس سے کیا مسلمانانِ پاکستان کے جذبات
برانگیختہ ہوں گے یا نہیں اور اس کے نتیجے میں قتل و غارت گری کا ایک طوفان
کھڑا ہو گا یا نہیں۔ہم انتہائی دیانتداری سے سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی مسلمان
چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو وہ نبی کریم ﷺ کے قریبی
ترین ساتھیوں اور جانثار صحابہ کرامؓ کے متعلق ذرا سی گستاخی بھی برداشت
نہیں کر سکتا اور اگر خدانخواستہ کوئی شخص ان مقدس شخصیات کے متعلق کسی قسم
کے غلط خیالات اپنے ذہن میں رکھتا ہے تو مسلمان کہلانے کے لائق نہیں۔اس وقت
پاکستان تاریخ کے انتہائی خطرناک موڑ سے گزر رہا ہے۔ پوری دنیا کا کفر متحد
ہو کر پاکستان کو نیست و نابود کرنے کے لیے کام کر رہا ہے اور یہاں اس وقت
مسلک کی بنیاد پر لڑائیاں کی جارہی ہیں۔ان تمام لڑائیوں کوتیل دینے کے لیے
انکل سام موجود ہیں اور را، موساد، سی آئی اے اور بلیک واٹر سے لے کر
ناجانے کون کون سی غیر ملکی ایجنسیاں صیہونی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کام
کر رہی ہیں۔ یہاں ہم ایران اور سعودی عرب سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ خدارا
پاکستانی مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائیں اور مسلکی جھگڑوں کو بڑھانے کے
لیے اپنا سرمایہ استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔
یہاں بقول غالب ہم کہتے جائیں
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
مہرِ عالم تاب کا منظر کھلا
خسروِ انجم کے آیا صرف میں
شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھلا
وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود
صبح وکو رازِ مہ و اختر کھلا
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
تھی نظر بندی جب کیا ردِ سحر
بادۂ گل رنگ کا ساغر کھلا
وہ کہ جس کے ناخنِ تاویل سے
عقدۂ احکامِ پیغمبر کھلا
روشناسوں کی جہاں فہرست ہے
وہاں لکھا ہے چہرہ ٔ قیصر کھلا
نقشِ پا کی صورتیں و ہ دلفریب
تو کہے کہ بت خانۂ آذر کھلا
قارئین!یقین جانیئے کہ پاکستان ایک عام ملک نہیں ہے۔ یہ ملک پوری دنیا کی
قیادت کرنے کے لیے معرضِ وجود میں آیا ہے ستائیس رمضان المبارک کو دنیا کے
نقشے پر ظاہر ہونے والا یہ ملک عالمِ کفر کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ اس ملک
کو نیست و نابود کرنے کے لیے خدانخواستہ اس وقت بیرونی قوتیں بھی کام کر
رہی ہیں اور اندرونی ایمان فروش بھی کام کر رہی ہیں۔ ہم دردِ دل رکھنے والے
اہلِ وطن سے گزارش کرتے ہیں کہ اس سازش کو سمجھیں اور آپس میں لڑنے کے
بجائے ان سازشیوں کے خلاف متحد ہوجائیں۔
آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں یہ رقم ہے کہ ڈاکٹر محمد علامہ اقبالؒ اپنے استاد
مولوی سید میر حسن کا بہت احترام کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ کسی کام سے گھر سے
نکلے ۔ ایک بچہ جو اُن کے عزیزوں میں تھا اور اُس کا نام احسان تھا وہ اُن
کے ساتھ تھا۔ مولوی صاحب کہنے لگے اقبال اسے گود میں اُٹھا لو۔
علامہ اقبال ؒ نے اُسے گود میں اُٹھا لیا ۔ کچھ دور جا کر وہ تھک گئے
چنانچہ بچے کو ایک دوکان کے تھڑے پر کھڑا کر دیا اور خود سستانے لگے۔ مولوی
صاحب اتنے میں بہت دور چلے گئے تھے۔ اُنہیں اپنے ساتھ نہ پایا تو اُلٹے
پاؤں لوٹے اور اُن کے قریب آکر فرمایا۔ اقبال اس کی برداشت بھی دشواری
ہے۔علامہ اقبال کی زبان سے بے اختیار نکلا۔
’’تیرا احسان بہت بھاری ہے‘‘
قارئین! قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبال ؒ کا یہ احسان جو
پاکستان کی صورت میں موجود ہے یہ بہت بھاری احسان ہے۔آیئے اس کا قرض درست
طریقے سے چکانے کی کوشش کریں۔ |