طارق بن زیاد کا دنیا کے بہترین
سپہ سالاروں میں شمار ہوتا ہے۔وہ موسیٰ بن نصیر کا آزاد کردہ غلام تھا اور
موسیٰ ہی نے اُسے حرب و ضرب کی تربیت دی تھی ۔ وہ جنگی منصوبہ بندی میں بڑا
ماہر تھا اور غیر معمولی طور پر ذہین ،دوراندیش اور مستعد قائد
تھا۔91ھ(710ء)میں موسیٰ نے ہسپانیہ کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا ، اپنے نائب
طارق بن زیاد کو 92ھ(711ء) میں تقریباً بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں
بھیجا۔موسیٰ شمالی افریقہ میں تھا، وہاں سے سپین سمندری راستے سے زیادہ دور
نہیں ہے، چنانچہ بحری جہازوں میں مسلمان فوج ساحل پر پہنچی ،طارق نے ایک
پہاڑ کے نزدیک جنگ کے لئے ایک مناسب جگہ منتخب کی،یہ پہاڑ بعد میں جبل
الطارق(جبرالٹر)کہلایا۔ اس کے عقب میں ایک بڑی جھیل تھی ، یہاں طارق نے وہ
مشہور خطبہ دیا، جس میں کہا کہ تمہارے سامنے دشمن اور پیچھے سمندر ہے۔ اُس
نے یہیں جہازوں کو جلانے کا حکم دیا تاکہ وہ اپنی فوج پر عملاً ثابت کر دے
کہ اس دیارِ غیر میں ان کے سامنے دو ہی راستے ہیں :فتح یا موت۔
یہ مسلم تاریخ کی سچائی ہے۔مسلمانوں نے بہادری کے ہمیشہ جوہر دکھائے ۔ہر
شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں نے ترقی کی،مگراب امت مسلمہ پر نظر دوڑائی
جائے تو کوئی بھی قابل تقلید کارنامہ سر زد نہیں ہوا۔اس کی وجہ سے دوسری
قومیں ان سے سبقت لے گئیں انہوں نے تعلیم اور تحقیق میں بے شمار کارنامہ
ہائے انجام دیئے،دنیا کو تسخیر کرنے کے لئے ہر وہ کام کیا جو امت مسلمہ کے
لئے نقصان کا باعث ہوا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ،یہاں کی پارلیمنٹ ،فوج،سول سروس
اور عوام اسلامی اقتدار کی پاس داری کرتیں ہیں،لیکن انہوں نے تاریخ سے کچھ
سبق نہیں سیکھا،علماء ،مشائخ ،اسلامی سکالرز نے جہاد کی بنیادی خصوصیات کو
مسخ کر کے بیان کیا،جس کو لاعلم قوم نے صحیح مان لیا اور غلط سمت پر چل پڑے
،فرقہ واریت ،اپنے مفادات کے لئے اسلام کی غلط تشریح کرنا شروع کر دی،جس کا
فائدہ دشمن ممالک نے خوب حاصل کیا ہے۔انہوں نے مسلمانوں کو جدا کر
دیا،مسلمان ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے،انصاف کو ختم کر دیا گیا،جس سے
تحفظ ،ایثار،بھائی چارہ کی فضا ختم ہو گئی،تعلیم جو ہمارا بنیادی مقصد تھا
اس سے ہم دور ہو گئے، مسلمانوں کے دلوں میں وہ جذبہ اور وہ اضطراب باقی
نہیں رہا جو ماضی میں ہوا کرتا تھا ،ہم ماضی میں وہ لوگ تھے جن کے دلوں و
جگر میں انسانی سر بلندی کے لئے تڑپ تھی،ان مسلمانوں کے لئے میدانِ جہاد
میں جان دینا موت نہیں تھا بلکہ ایک نئی زندگی کا حصول تھا،شہید مرتا نہیں
،اس لئے یہ مسلمان شہادت کو دل کے دروازے کھلنے کے مترادف سمجھتے تھے۔
اس کی وجوہات صاف ہیں کہ ہم مفاد پرستی ، عیاشی ،زندگی سے پیار کرنے والے
بن چکے ہیں۔ہم جنگجو اور بہادر تھے لیکن اب عزت ،ضمیر اورغیرت بے معنی ہو
چکے ہیں ۔ہمیں اپنے مذہب ، ملک و قوم کسی سے کوئی دلی محبت نہیں،ہم صرف اور
صرف ذاتی خواہشات،مفادات کے شکنجے میں جکڑے جا چکے ہیں۔اسی وجہ سے ذلت کی
زندگی ہمارا مقدر بن چکا ہے۔کوئی بھی آ کر ہمارے وطن عزیز کی سرحدوں کو پار
کر لیتا ہے ،ہم اس کی حفاظت نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے مفادات ہمارے آڑے آ
جاتے ہیں ، ہم ڈرتے ہیں کہ ہم تباہ ہو جائیں گے، ہم ان سے مقابلہ کرنے کی
طاقت نہیں رکھتے۔ہمارے پاس ایسا ذہن موجود نہیں، جس سے کام لے کر ہم دشمنوں
کی چالوں کو سمجھ سکیں اور اگر سمجھ بھی لیتے ہیں تو اپنی بے ضمیری اور بے
غیرتی کی وجہ سے مقابلے کی بجائے خاموشی کو ہی سب سے اچھا حربہ سمجھتے
ہیں۔کیا ہمارے قائدین کو اندازہ ہے کہ ہم کن شاہ زور قائدین کی جگہ حکومت
کر رہے ہیں،یہی ہمارے زوال کے اسباب ہیں ،اندرونی اور بیرونی دونوں جانب سے
ہم ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ہمیں اپنی جان و مال اور اقتدار کی فکر ہے ،تاریخ
ہمیں کن الفاظ میں یاد کرے گی ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں۔
ہمارے دشمن دنیا کی معیشت پر پوری طرح قابض ہیں ۔دنیا بھر کے بینکنگ سسٹم ،پرنٹ
و الیکٹرانک میڈیا، فلم ،اسلحہ ساز فیکٹریاں حتیٰ کہ کاسمیٹکس اور فیشن
انڈسٹری پر بھی انہوں نے مکمل طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔تعلیم و تحقیق میں با
کمال ہیں ۔دوسری جانب دنیا کی 100عظیم یونیورسٹیوں میں مسلمان طالب علموں
کی تعداد 3-1فیصد سے بھی کم ہے ،جبکہ ہمارے نام نہاد دانشور قوم کو گمراہ
کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔
ہم اتنے نااہل ہو چکے ہیں کہ ہمارے دشمن ہمارے اچھے برے کا فیصلہ کرنے لگے
ہیں ، ہمارے حکمران ان کی پیروی کرنے کو فخر سے بیان کرتے ہیں ، دانشور
انہیں کے نام لے کران کی کہی ہوئی ہر بات کو بیان کر کے فخر محسوس کرتے ہیں
۔
یہ ایک گھمبیر صورت حال ہے،لیکن ناامیدی کفر ہے،اگرچہ مسلمانوں کے دلوں میں
وہ جذبہ اور وہ اضطرب باقی نہیں رہا جو ماضی میں ہوا کرتا تھا تاہم ابھی
مسلمان بالکل ختم نہیں ہوئے ،ہمیں صرف اور صرف جذبہ ایمانی اجاگر کرنے کی
ضرورت ہے،پھر یہ قوم باطل کے خس و خاشاک سے نہیں دبے گی،اس کے ساتھ ساتھ
ہمارے قائدین کو اپنے مذہب ،ملک و قوم سے مخلص ہونا ہو گا ۔اگر ایسا ہو
جائے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنا کھویا ہوا وقار واپس لے سکتے ہیں ۔ہم
اپنے دشمن خود ہیں ، اب بھی دشمن اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے ،ہمیں
بس تھوڑا سا سوچنے کی ضرورت ہے……! |