ان مقدمات سے اس بات کی تصدیق ہو
سکتی ہے کہ مشرکوں کو دعوت توحید دینے کے لئے جہاد ابتدائی ایک مشروع اور
فطری حق ہے جب رسالت کی طرف سے پیغام رسانی اور دعوت تنبیہ اور بشارت،
اتمام حجت اور دعوت حسنہ، روشن آیات حق کی پیش کش اور حق و باطل میں
امتیاز وغیرہ کی تمام عقلی و منطقی کوششیں ناکام ہو جائیں تو ظالموں اور
مستکبروں کی سر کشی و نافرمانی کو کچلنے کے لئے اسی حق کا مجبوراً استعمال
کیا جاتا ہے ۔ یہ حق صرف دین سے مخصوص نہیں بلکہ یہ ایک ایسا فطری امر ہے
جسے تمام قومیں تسلیم کرتی ہیں، جب عوام کسی نظام کو مان لیتے ہیں اور
معاشرے کی اصلاح و ترقی کے لئے کوئی نظام قبول کر لیا جاتا ہے تو ایسے سر
کش و نافرمان افراد کے لئے جو ارشاد و ہدایت کے بعد بھی اپنی سر کشی و
نافرمانی سے باز نہیں آتے۔ اس حق کا استعمال جائز سمجھا جاتا ہے تاکہ وہ
قانون کی برتری تسلیم کریں جب ہر نظام کو یہ حق حاصل ہے تو پھر توحید کی
بنیادوں پر استوار الہی نظام کو اس فطری حق سے کیوں محروم کیا جائے؟
جیسا کہ اشارہ ہو چکا ہے آیت ” قاتلوا الذین یلونکم من الکفار و لیجدوا
فیکم غلظة “ (۳۲)
اپنے آس پاس والے کفار سے جہاد کرو اور وہ تم میں سختی و طاقت کا احساس کرے۔
جہاد دفاعی سے مختص نہیں ہے، اسی طرح سورہ نمل میں ملکہ سبا کو حضرت سلیمان
کی دھمکی : ” فلناتینھم بجنود لا قبل لھم بھا و لنخرجنھم منھا اذلة و ھم
صاغرون “ ( ۳۳)
اب میں ایک ایسا لشکر لے کر آؤں گا جس کا مقابلہ ممکن نہ ہوگا اور پھر سب
کو ذلت و رسوائی کے ساتھ ملک سے باہر نکالوں گا ۔
حالانکہ اس سے پہلے ملکہ سبا کی طرف سے کوئی حملہ ہوا تھا نہ حملے کی دھمکی
دی گئی تھی۔ حضرت سلیمان کی دھمکی صرف اسی بنا پر تھی کہ ملکہ سبا نے حضرت
سلیمان کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا ” الاتعلوا علی و اتونی مسلمین “ (۳۴)
دیکھو میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور اطاعت گزار بن کر چلے آؤ ۔
یہ واقعہ جہاد ابتدائی کے شرعی جواز کی بہترین توضیح ہے ۔ |