آہ! ڈاکٹر عافیہ صدیقی !کیا جرم تھا تیرا؟

اور ہندستان تجھے سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔

سارے جہاں سے اچھا ہندستان ہمارا ۔۔۔۔اور یہ بات علامہ اقبالؒ نے سالوں پہلے کہی تھی جو سچ ہے اور یہ سچ دنیا کے سامنے آتا رہیٔگا انشا ء اﷲ ، ابھی حال ہی میں(۳ روز قبل) ایک تازہ واقع نے یہاں اقبال کے اس شعر کی سچایٔ پر مہر ثبت کردی ہے-

امریکہ میں جو نازیبا سلوک اس قوم کی بیٹی ( (Indian Diplomate Devyani Khobragade ہندستانی سفیردیویانی کھوبراگڑے کے ساتھ ہوا ،اور جو جرت مندانہ ردعمل سامنے آیا ،تو یہ اس بات کا جیتا جاگا ثبوت ہے کے اب بھی اس ملک میں حیا اور غیرت زندہ ہے اور اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیاہے کے خبردار !ہماری غیرت کو کویٔ للکانے کی کوشش نہ کرے، سیاسی اعتبار سے بعد میں اس کا رخ کچھ بھی ہو مگر ہندسان سے اُٹھی ہویٔ یہ آواز بے شرم، بے غیرت انسان نما حیوانوں کو بوکھلانے کیلیٔے کافی ہے، اور ہمارے رہنماوں کے لیٔے۔۔۔۔۔

دوسری طرف نام کی اسلامی ریاست پاکستان اوردوسرے مسلم ممالک اور یہاں کے نام نہاد حکمرانوں کو دیکھیں،جن تک روزانہ ڈاکٹر عافیہ اور اس جیسی سینکڑون قوم کی بیٹیوں کی بے عزتی یا عصمت دری یا قتل کی خبریں پہچتی رہتی ہیں مگر افسوس ان کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی ،آہ !کیا ہوگیا اس قوم کو یہ تو اپنی ہی قوم کی بیٹیوں کو پکڑ کر غیروں کہ حوالہ کرتے ہیں، اور شرم نہیں آتی ان کو عورتوں کے حقوق پر بات کرتے اور مساوات کا نعرہ لگاتے ہوئے،

یاد رہے ڈکٹر عافیہ جو اس قوم کی ذہین ،تعلیم یافتہ ، دینی و دنیوی علوم سے لیس یعنی ایک عالمہ و حافظہ، کیٔ ایواڑ یافتہ دنیا کی پہلی یا منفرد ماہرعصیبیات((Neurologist ،قوم کی باصلاہیت بہادر بیٹی تھی، جسے اس کے تین بچوں سمیت سن دو ہزار تین(۰۰۳ ۲ء) میں جھوٹے الزام لگا کر پہلی بار کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں دنیا کے جھوٹے امن کے ٹھیکیدار امریکہ کے حوالے کردیا گیا تھا، جہاں وہ سالوں سے رات دن انسان نما درندوں کا شکار ہو تی رہی اور ناقابل بیان دکھ و اذیتوں کو سہتے سہتے اپنا دماغی توازن تک کھو بیٹھی ہے،لیکن آفسوس! کون ہے ڈکٹر عافیہ کی پکار یا اس کی آہ وبکا یا اس کی درد بھری آواز کو سننے اورسمجھنے والا ؟، جو سالوں سے قید وبند کی صعوبتوں کو جھیلتے جھیلتے نھڈال ہو چکی ہیں اور قریب ہے وہ اپنی زندگی کی بازی بھی ہار جاے،کیونکہ اس پر جھوٹے الزامات تراش کران پرمقدمہ پر مقدمہ چلا کر امریکی عدالت اس پر اس جرم ثابت کیٔے بنا ۸۶ سال کی سزا سنا چکی ہے،اندازہ لگایٔں اس کی پیدایٔش ۱۹۷۲؁ میں ہویٔ،اور گرفتاری۰۰۳ ۲ میں تب اس کی عمر ۳۱ سال اور جب یہ نا کردہ گناہ کی سزا کاٹ کر جیل کی اندھیری کوٹھری سے نکلے گی تو اس کی عمر۱۲۲ سال ہو جایٔگی تو کیا یہ زندہ بھی رہ پایٔگی؟صد افسوس ہے ہمارے حاکموں پر جو صرف تماشای بنے ہوے ہیں،کاش کے اسے رہا کراتے، اوریاد کریں اُس وقت کو جب اسی قوم کی ایک عرب لڑکی کی پکار نے ہی حجاج بن یوسف کو اپنا جنگی نقشہ بدلنے پر مجبور کیا تھا، اور وہ محمدبن قاسمؒ کو تیار کرکے سندھ پر حملہ کر کے ظالم کے پنجوں سے قوم کی اس مظلوم بیٹی کو چھڑانے یا آزاد کرانے ہندستان کی طرف بھیجا تھا،اور یہی واقع ہند میں دین اسلام کی شعاؤں کے پہنچنے کاسبب بھی بنا تھا-

واضح رہے کے اس ناہیدنامی عرب لڑکی کو دیبل کے حاکم نے دیبل کی ہی بندرگاہ پران کا جہاز لوٹ کر قید کر رکھاّ تھا،اس غیور لڑکی نہ اپنے خون سے رقعہ لکھ کر ججاج بن یوسف کی غیرتِ ایمانی کو للکارا تھا،لیکن اس وقت حجاج بن یوسف اسلامی سلطنت کی فوجی سرگرمیوں میں اتنا مصروف تھا کے وہ نیٔے محاز کو کھولنا نہیں چاہتا تھا اور نہ وقت و حالات اسکی اجاذت دے رہے تھے اور نہ مزید کویٔ کمک کی اُمید کی جاسکتی تھی،مگر مظلوم لڑکی کی یہ خبر اس پر بجلی بن کر کودتی ہے، تو فوری طور سے سندھ پر حملہ کرنے کے ارادے سے ہندستان کا نقشہ دیکھنے لگتا ہے،اور یہ فوجی مہم محمدبن قاسم ؒ کے حوالے کرتا ہے ،اس وقت محمدؒکی عمر ۱۷ سال تھی اور یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا دور تھاجنہیں تاریخ الاسلام میں خلیفۂ ثانی سے یاد کیا جاتا ہے،لیکن آج افسوس۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔اقبال نے کیا خوب کہا ہے
تجھے اس قوم نے پالا ہے اغوشِ محبت میں،کچل ڈالا تھا جس نے پاوں سے تاجِ سرِ دارا

Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed
About the Author: Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed: 28 Articles with 35046 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.