حضرت ادریس علیہ السلام
وجہ نام ادریس کی یہ ہے کہ پڑھانے کی کثرت کے سبب سے آپکا لقب ادریس ہوا۔
علم نجوم آپکے معجزات میں سے ہے وہ زمین پر عبادت کرتے انکو فرشتے سب آسمان
پر لے جاتے، اللہ تعالٰی نے فرمایا: واذکر فی الکتب ادریس انہُ کان صدیقا
نبیا، ترجمہ: اور یاد کر کتاب میں ادریسؑ کو کہ وہ سچا نبی ہے۔
وہ ہر روز پیرہن سیتے تھے ہر دم سینے میں تسبیح پڑھتے تھے اور کسی سے سلائی
کی اجرت نہ لیتے تھے۔
ایک دن وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر بیٹھے تھے کہ ملک الموت بہ آرزوۓ تمام
امر الٰی سے آدمی کی صورت بن کر مہمان کے طور پر رات کو حضرت ادریس علیہ
السلام کے دروازے پر آ پہنچے۔ آنحضرتؑ صائم الدہر تھے جب شام ہوتی افطار کے
وقت آپکا کھانا بہشت سے آتا جسقدر چاہتے کھا لیتے باقی کھانا پھر بہشت میں
چلا جاتا۔ اس دن کا کھانا جب آیا تو حضرت ادریس علیہ السلام نے وہ کھانا اس
مسافر کو پیش کر دیا لیکن مسافر نے کچھ نہ کھایا اور قدم پر قدم رکھ کر
عبادت کرتا رہا۔ حضرت ادریس علیہ السلام انکا یہ حال دیکھ کر معتجب ہوۓ کہ
یہ کون شخص ہے۔
اگلے دن حضرت ادریس علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اے مسافر تو میرے ساتھ چل
کر خدا کی قدرت صحرا میں جا کر دیکھو تب دونوں بزرگ گھر سے میدان کیطرف
نکلے، جاتے جاتے ایک گیہوں کے کھیت میں جا پہنچے حضرت ملک الموت نے کہا کہ
چلو چند خوشے گیہوں کے لیکر دونوں کھاتے ہیں۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے
فرمایا کہ عجب ہے رات کو تو نے حلال کھانا نہ کھایا اور اب حرام کھانا
چاہتا ہے پھر وہاں سے دونوں بزرگ دوسرے باغ میں پہنچے اور وہاں بھی انگور
دیکھ کر حضرت عزرائیلؑ نے کھانے کا قصد کیا حضرت ادریس علیہ السلام نے
فرمایا کہ تصرف ملک غیر میں حرام ہے پھر جاتے جاتے ایک بکری دیکھ کر حضرت
عزرائیلؑ نے کھانے کا ارادہ کیا پھر حضرت ادریس علیہ السلام نے کہا کہ
بیگانی بکری کو ذبح کر کے کھانا ممنوع ہے
اسی طرح تین روز تک دونوں باہم گفتگو کرتے رہے جب حضرت ادریس علیہ السلام
کو لگا کہ یہ شخص بنی آدم سے معلوم نہیں ہوتا یہ کون شخص ہے، اور فرمایا کہ
خدا کے واسطے ظاہر تو کرو کہ تم کون ہو۔ مسافر بولا میں عزرائیلؑ ہوں۔ حضرت
ادریس علیہ السلام نے فرمایا کیا سب مخلوقات کی جان تم ہی قبض کرتے ہو،
انہوں نے کہا کہ ہاں۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا تم شائد میری جان
قبض کرنے آۓ ہو، انہوں نے کہا نہیں ، میں تو تمہارے ساتھ خوش طبعی کرنے آیا
ہوں۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے کہا کہ تین دن سے تو میرے ساتھ ہے کیا اس
عرصے میں بھی تو نے کسی کی جان قبض کی ہے، وہ بولے: قال کلھا بین یدی کانما
بیدیک خیر، ترجمہ: کل جان قبض کرنا ہمارے ہاتھ میں ایسا ہے جیسا تمہارے
دونوں ہاتھ کے نیچے روٹی رکھی ہوئی ہے یعنی جسکی اجل آتی ہے اللہ پاک کے
حکم سے میں ہاتھ بڑھا کر اسکی جان قبض کر لیتا ہوں اور بولا اے حضرت ادریس
علیہ السلام میں چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ رشتہ برادری کا کروں۔
حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تیرے ساتھ رشتہ برادری کا کا
کرونگا کہ تلخی جان کی ایک بارگی تو مجھکو چھکا دے تاکہ مجھے زیادہ خوف اور
عبرت ہو اور میں اپنے خالق کی زیادہ عبادت کروں ، ملک الموت نے کہا کہ اللہ
کی رضا کے بغیر کسی کی جان قبض نہیں کر سکتا، تب حضرت ادریس علیہ السلام
نےخداوند قدوس کی درگاہ میں عرض کی اور پھر جان قبض کرنے کا حکم ہونے پر
جان قبض کر لی گئی، پھر ملک الموت نے خدا کی درگاہ میں دعا مانگی اور اللہ
پاک نے انکو زندہ کر دیا حضرت ادریس علیہ السلام نے اٹھ کر ملک الموت کو
اپنی گود میں لے لیا اور دونوں نے آپس میں زشتہ برادری کا لگایا، پھر ملک
الموت نے ان سے پوچھا اے بھائی جان کنی کی تلخی کیسی تھی وہ بولے جیسے کسی
زندہ جانور کی کھال سر سے پاؤں تک ادھیڑی جاتی ہے۔ ملک الموت نے کہا ، اے
بھائی قسم ہے رب العالمین کی جیسا کہ میں نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے ایسا
کسی کے ساتھ نہیں کیا۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا اے بھائی مجھے
دوزخ کے دروازے تک لے چل تاکہ اسکو دیکھ کر خوفِ الٰہی زیادہ ہواور میں
زیادہ عبادت اور بندگی کروں۔ تب ملک الموت نے اللہ کے حکم سے انکو دوزخ کے
سات طبق دکھاۓ پھر حضرت ادریس علیہ السلام بولے اے بھائی مجھے جنت دیکھنے
کی آرزو ہے کہ اسے دیکھ کر خوشی حاصل کروں اور عبادت زیادہ کرونگا۔ پھر
انکو بہشت کے دروازے پر لے گئے ارو انہوں نے بہشت کے مناظر اپنی آنکھوں سے
دیکھے پھر کہنے لگے اے بھائی میں جان کنی کی تلخی سہہ چکا ہوں اور دوزخ بھی
دیکھی اور میرا جگر پیاس کے مارے جل رہا ہے اجازت ہو تو بہشت میں جا کر ایک
پیالہ پی لوں، تب اس نے کہا ہاں اگر تم واپس آنے کا وعدہ کرو، شدید پیاس کی
وجہ سے حضرت ادریس علیہ السلام نے واپس آنے کا عہد کیا اور بحکمِ الٰہیاپنی
نعلین درخت طوبی کے نیچے چھور کر بہشت میں داخل ہو گئے کیونکہ باہر آنے کا
عہد کیا تھا اور نعلین کو بھی درخت کے نیچے چھوڑ آۓ تھے ، بہشت سے باہر نکل
کر اپنی نعلین کو لیکر بہشت میں جا کر درکت پر جا بیٹھے
کچھ دیر بعد ملک الموت نے انکو آواز دی کہ اے بھائی تاخیر مت کرو تو جواب
میں حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا کہ اے مشفق جبار عالم فرماتا ہے کل
نفس ذائقۃ الموت، ترجمہ: ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور اب تو میں جان
کنی کا مزا چکھ چکا ہوں اور حق تعالٰی فرماتا ہے ۔ وان منکم الا واردھ، اور
نہیں کوئی تم سے جو نہ پہنچے گا اس میں۔ سو میں دوزخ میں بھی پہنچ چکا ہوں
اور یہی جلیل جبار فرماتا ہے لا یمسھم فیھا نصب اما ھم منھا بمخرجین،
ترجمہ: نہ پہنچے گی انکو وہاں کوئی تکلیف اور نہ انکو کوئی وہاں سے نکالے
گا یعنی جو بہشت میں آ گیا واپس نہ آوے گا، اے بھائی اب میں ہر گز نہیں آنے
کا۔
درگاہِ باری سے آواز آئی اے عزرائیل تو حضرت ادریس علیہ السلام کو چھوڑ کر
چلا جا میں نے انکی تقدیر میں یہی لکھاتھا حضرت ادریس علیہ السلام موت کا
مزہ چکھ کر اور دوزخ کو بھی دیکھ کر جنت میں جا رہے تب عزرائیلؑ بولے ان
الجنۃ حرام علی الانبیاء حتی یدخل خاتم الانبیاء ، ترجمہ: بہشت حرام ہے
ابنیاء ہر جب تک کہ خاتم الانبیاء داخل نہ ہوں۔ بہشت میں پھر آواز آئی اے
عزرائیل میں بہشت کودریغ نہیں رکھتا ہوں، لہکن اول بہشت میں محمد صلی اللہ
علیہ وسلم داخل ہونگے بعد وہ سب انکی امت، اور قول دوسری یہ ہے کہ طواف
کرنے والے سب طواف کرتے رہیں، بہشت میں اور حق تعالٰی نے فرمایا ورفعنہ
مکان علیا، ترجمہ: اور اٹھا لیا ہم نے اسکو اونچے مکان پر پس حضرت ادریس
علیہ السلام تو بہشت میں چلے گئے اور انکے سب فرزند فراق سے گریہ و زاری
میں تھے، ایک روز ابلیس انکے پاس آیا اور کہا تم رویا مت کرو، میں تمہارے
باپ کی سی ایک صورت بنا دیتا ہوں تم اسکو شب و روز دیکھا کرو اور پوجو۔ اس
سے تمہارا سب دکھ درد اور غم جاتا رہے گا اور تم سب خوش رہو گے ابلیس لعنتی
نے ایک ایسی صورت بنائی کہ انکی شکل میں اور بت میں کوئی فرق نہ تھا سواۓ
اسکے کہ یہ صورت بات نہ کرتی تھی اور وہ لوگ اس صورت کو پوجا کرتے تھے،
یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بت پرستی تمام عالم میں پھیل گئی، مشرق سے مغرب تک یہ
رواج جاری رہا کوئی آدمی اللہ تعالٰی کو نہ جانتا تھا۔ علم و عمل ان میں
مفقود تھا، بعد میں خداے تعالٰی نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان پر پیغمبر
بنا کر بھیجا تاکہ انکو ہدایت کی راہ بتائیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔
بحوالہ قصص الانبیاء |