ملک عرفان سا گبھرو جوان کے جسے
دور سے دیکھ کر شہر کی لڑکیاں سانس لینا بھول جاتی تھیں، اور کئی تو اپنی
پھٹی آنکھوں اور کھُلے منہ سے بے خبر اُس پر ٹکٹکی جمائے رکھتیں، نہ شرم نہ
لحاظ آس پاس والوں کا۔ پھر یہ جوانی بھی خوب ہے اور جوانی بھی وہ جو ملک
عرفان پر چڑھی تھی، اب کیا کیا نہ گُل کھلاتی، کوئی عجب نہیں تھا۔
اُس کی نزاکت، اُس کا حسن، اُس کی آنکھیں ، اُس کی رنگت، اُس کے نقوش، غرض
یہ کہ اُس کا کچھ بھی جیراں سے نہ ملتا تھا۔ جیراں جو شیداں کی ماں تھی۔
شیداں جس کا اصل نام خورشید بی بی تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ چاند بھولے
سے جیراں کے یہاں اُتر آیا تھا تو اُس میں کچھ عیب نہ ہو گا سوائے اس کے کہ
بھولے سے کہنا شائد جیراں کی بے توقیری ہو، لیکن حقیقت یہی تھی کہ جیراں
کالی بھجنگ موٹے موٹے نقوش والی عورت تھی اور آس پاس کے کچھ گھرانوں میں
صفائی کر کے پیٹ پالا کرتی۔
پھول کیچڑ میں کھلے اور کیچڑ میں لت پت نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ صفائی
ستھرائی ویسے تو بُری نہیں لیکن پیشہ ہو تو کیچڑ سی ہی سمجھی جاتی ہے۔
شیداں بھی صفائی میں ماں کا ہاتھ بٹانے لگی۔ جن گھروں میں وہ کام کرتی تھی
اُنہی میں ملک فیضان کا گھر بھی تھا جہاں زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا تھا کہ
وہاں سے آمدنی بھی اوروں کی نسبت زیادہ تھی۔ ہاں یہ یاد رہے کہ ملک فیضان،
ملک عرفان کے والد تھے، پولیس میں ڈی اس پی تھے اور بڑے ٹھسے والی شخصیت
تھے۔
ملک عرفان کا زیادہ وقت گھر سے باہر گزرتا تھا، اور وہ بھی اپنی جوانی کی
ایال کھُلی چھوڑ کر، کہ کاٹھی اور لگام کے تکلفات سے اُسے چڑ تھی۔
پھر ہوا یہ کہ ایک دن ملک عرفان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اک نئی الہڑ گھوڑی
کو شہسوار تک تک پہنچنا تھا اور وہی ہوا، نصیبوں جلی شیداں اُس کے کمرے کی
صفائی کرنے بے دھڑک اندر آ گئی، اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ملک
وہاں ہو گا۔ ملک نے اُسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ شیداں بھی دم بخود
اُس کی آنکھوں کی گرمی سے پگھلنے لگی۔ ملک آگے بڑھا تھا اور پھر جو ہوا
پوچھو نہ ہی تو اچھا ہے۔ اڑیل سے اڑیل گھوڑی سیدھی ران کے نیچے دُبا لینے
واے نے پہلی بار فرط جزبات سے بے اختیار دربار حسن کے ہر گوشے پر ہونٹوں سے
مہر ثبت کی اور ہونٹوں کی پنکھڑیاں تو جیسے شبنم میں ڈبو ہی دی ہوں ۔
طوفان تھما تو ملک عرفان چارپائی پر ڈھیر ہو گیا اور شیداں باہر کو بھاگی۔
چائے لے لیجئے؛؛ یہ آواز سُن کر ملک عرفان نے آنکھیں کھولیں تو شیداں کو
سامنے پایا
سلمیٰ مر گئی ہے کیا ؟ اُس نے تُمہیں چائے دے کر کیوں بھیجا ہے؛؛ ملک عرفان
نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا تھا
؛؛ صاحب وہ نا میں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے آپ کے ؛؛ شیداں نے جھکی
نظروں سے شرماتے ہوئے کہا
؛؛ اخ تھو۔ چوڑی کہیں کی؛؛ ملک عرفان نے اُنگلیاں حلق میں ڈال کر جیسے چائے
اُگلتے ہوئے کہا تھا۔ |