انسان اس دنیا میں روتا ہوا آتا
ہے اور رولاتاہوا جاتا ہے۔ اس رونے اور رولانے کے درمیان سفر بہت تلخ ہوتا
ہے۔ یہ بلکل ایسا ہے جیسا دل اور دماغ کے مابین فیصلے تلخ ہوتے ہیں۔ دل بہت
نرم اور حساس طبیت کا مالک ہوتا ہے جبکہ دماغ سخت اور چالاک طبیت کا مالک
ہوتا ہے۔ دل اور دماغ کے درمیان کی گِراہ اگر کھول دی جائے تو موت مقدر بن
جاتی ہے گر نا کھولیں تو زندگی موت سے بد تر لگتی ہے۔ اس احساس کا احساس ہر
انسان کو زندگی میں ایک دفعہ ضرور ہوتا ہے جسکا نام محبت ہے۔ محبت احساسات
سے لبریز ایسے جذبہ کا نام ہے جسکی آنکھیں نہیں ہوتی، جسکی سوچ نہیں ہوتی،
جسکی سوا ئے اک خواہش کے کوئی خواہش نہیں ہوتی ،جس میں حاصل اور نا حاصل کے
کوئی معنی نہیں ہوتے بس محبت تومحبوب جیسے ہو جانے کا نام ہے۔ محبت جب ماں
کو بیٹی سے ہوتی ہے تو اس کے لئے سردی اور گرمی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ محبت
جب بیٹے کوباپ سے ہوتی ہے تو اسکو امیری اورغریبی کا کوئی احساس نہیں ہوتا،
محبت جب بہن کو بھائی سے ہوتی ہے تو اس کے لیے اپنی جمع پونجی کی کوئی
اہمیت نہیں ہوتی ، محبت جب بیوی کو خاوند سے ہوتی ہے تو مجازی خدا پا لیتی
ہے اور جب محبت انسان کو خدا سے ہوتی ہے تو پھر اس کے لئے صرف اُسی(اللہ)
کاہونا اور اسی کے سوا کسی کا نہ ہونا ہی سب کچھ ہونا ہوتا ہے۔ محبت جب
انسان کو انسان سے ہوتی ہے تو اس کے لیے ہر رشتہ گِراہ بن جاتا ہے۔
دنیا کی ابتدا سے لے کر اب تک کئی لوگ آئے اور گئے سب نے اپنے اپنے حصہ کی
محبت کی کسی نے دولت سے محبت کی ، کسی نے شہرت سے محبت کی، کسی نے علم سے
محبت کی کسی نے مذہب سے محبت کی اور کسی نے عشقِ مجازی کی پل صراط پر قدم
رکھا تو کسی نے عشقِ حقیقی کی فضاؤں میں رقص کیا۔ یہ سب اپنی اپنی ابتدا
وانتہا کے بعد ایک بات پر متفق ہیں کہ محبت کا ہو جانا انسان کے بس میں
نہیں لیکن۔۔۔ محبت کے حاصل اور لا حاصل میں معاشرے کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔
یہ معاشرہ کہیں پہ موجبِ حصولِ عشق بنتا ہے تو کہیں پہ وجہ فراقِ عشق بنتا
ہے۔ ایسی بے شمار حقیقی داستانیں ہر دور میں سامنے آئیں جو معاشرے کی تلخ
روایات کی سولی پر چڑھی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ پھندہ اکثر عورت
ذات کا ہی مقدربناہے۔ انہی داستانوں کے انبار میں سے ایک مختصر داستان آپکی
نظر کرتا ہوں۔
معصوم چہرہ تھا گوری رنگت جھیل جیسی آنکھیں پھول کی کلیوں جیسے ہونٹ
اندھیری رات جیسے گیسوں پتلی کمر تھی۔ خدا نے اسے ہر انداز سے دلنشین بنایا
تھا۔ وہ اکثر چپ چاپ رہتی تھی گو یا کہ زمانے نے بہت ستایا ہو اسے۔ حسین
چہرے کی بے سکونی اسکے حالات کو چھپا نہیں سکتی تھی۔ در حقیقت اسے محبت ہو
گئی تھی۔ وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی اور حاصل بھی نہیں کر سکتی تھی بس
یہی خوف اسے زندہ لاش بنائے ہوئے تھا۔کیونکہ اسکا تعلق ایسے معاشرے سے تھا
جس میں محبتوں کی منڈیاں لگتی تھی اور ہر روز محبت بکتی تھی ۔جہاں پر بندوں
کو پرکھنے کے لئے دل میں نہیں دل پر لگی جیب دیکھی جاتی تھی۔ جہاں پر انسان
کو پرکھنے کا پیمانہ اپنی ذات سے بھی بڑھ کر تھا۔پر وہ کیا کرتی کہ محبت
کرنا اور نا کرنا اسکے بس میں نہ تھا اسے تو وہ تاریخ ہی نہیں پتہ جب اسے
محبت ہوئی تھی۔ محبت نے اسکی سوچ پر گِراہ لگا دی تھی دل آزاد تھا ڈوبتا
گیا اور ڈوبتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ بھول گئی وہ جس معاشرے سے تعلق رکھتی
ہے اسے توچاہیے تھا کہ دل کی گِراہ کو کبھی نا کھولنے دیتی، اسے توچاہئے
تھاکہ محبت سے پہلے دل میں نہیں دل پر دیکھتی، اسے توچاہئے تھا کہ اسکی ذات
دیکھتی اسکا معیارِ زندگی دیکھتی اسکے چہرے پر کوئی غربت کا بد نما داغ تو
نہیں؟ مگر وہ معصوم تھی اور تنہا تھی۔ اسکے گھر میں کوئی اسکو سننے والا نہ
تھا ۔ وقت نے اسے بڑا دھوکا دیا اسنے محبت کو بھلانے کے لئے پھر محبت کی
مگر اسکے معاشرے کی دیوار اتنی مضبوط تھی کہ وہ خو د تو ٹوٹ گئی پر اپنے
گھر والوں کی انّا کی دیوار کو نہ توڑ سکی۔ اسکا وجود تو تھا روح نہیں اس
میں اب محبت نہیں وہ ایک خوبصورت مجسمہ رہا جسے صرف دیکھا جا سکتا تھا۔ اور
اس مجسمہ کا نام ’’محبت کی گِراہ‘‘ تھا۔ |