یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی
حیران
اے قائد تیرا احسان ہے تیرا احسان
جی ہاں یہ قائد کا احسا ن تھا ان نے اپنی اتنی پرسکون کی قربانیاپنی قوم کے
لیے دی اور ہمیں ہماری بہتری کے لیے یہ وطن حاصل کر دیا اے مسٹر جناح یہ آپ
کا احسان ہے آج ٢٥ دسمبر ٢٠١٣ یوم پیدائش قائد پر جب میں قائد کے سامنے اس
احسان کا شکریہ ادا کرنے گیا تو قائد نے مجھے کہا تو احسان کا بدلہ احسان
والے فارمولے کو مانتا ہے تو میں نے جواب دیا ہاں میں مانتا ہوں احسان کا
بدلہ احسان ہونا چاہیے
تو بانی پاکستان نے کہا میرے اس احسان کا بدلہ کہاں ہے ٦٦ سال میں تم نے ١
چیز صرف ١ چیز مجھے نہیں دی میں بدلے میں تم سے فقط اتحاد چاہتا تھا اگر تم
لوگ وہ اتحاد قائم کر لیتے تو پاکستان کے حصول جو میرا احسان ہے اس کا بدلہ
مجھے مل جاتا مگر تم نے تو اتحاد کو اتنا غیر ضروری جانا کہ ١٩٧١ کے دسمبر
میں مجھے تحفہ دینے کے لیے وطن کو دو لخت کر دیا قائد نے انتہائی غصے سے
پکارتے ہوئے کہا اوہ احسان فراموش پاکستانیوں ١٩٧١ سے بھی تم نے سبق نہیں
سیکھا تو شیعہ سنی فساد کرنے لگے عیسائیوں کے گرجا گھر جلانے لگے اور کبھی
عیسائیوں کی بستیاں جلانے لگے تو کبھی تم نے پٹھان کو پختونستان تک پنجابی
کو پنجاب تک محدود کر دیا سندھی نے سندھ کو اپنی جاگیر سمجھا تو بلوچی نے
بلوچستان کو
کیا چیز ہو تم؟
احسان کی اتنی قدر ہے تم کو تو احسان کا بدلہ کیوں نہیں دیا یہ حالات کیوں
پیدا ہوئے دفعہ ہو جاو شکل مت دیکھاو مجھے اپنی یہ بات سن کر میں پانی پانی
ہو گیا اور واپسی کی راہ لیتا ہوا جناح کے کمرے سے نکل رہا تھا تو جب میں
باہر جانے والے دروازے پر آیا تو اقبال بھی جناح کو ان کے یوم پیدائش کے
موقع پر ملنے آ رہے تھے میں نے اقبال کو آتے دیکھا تو سلام عرض کی جس کا
جواب مجھے دیا گیا اقبال بولے جوان تم واپس بھی جا رہے ہو آج بھی اپنے محسن
کے لیے اتنا کم ٹائم لے کر آئے ہو اقبال کی یہ بات جناح نے سنی تو میرے
جواب دینے سے پہلے ہی عرض کرنے لگے جانے دو اس احسان فراموش کو جب احسان کا
بدلہ ادا کر دے گا تو مل لیں گے میں نے اقبال کو جناح سے علیحدہ کچھ ٹائم
دینے کو کہا تو اقبال نے میری بات مان لی میں نے عرض کی جناب میں آپ دونوں
سے اکٹھے ملاقات چاہتا ہوں مجھے ملاقات کا وقت دیا جائے تو اقبال نے مجھے
کہا تم یہاں رکو میں جناح سے بات کر کہ تمھیں بلا لیتا ہوں تو میں وہاں رک
گیا جلد ہی مجھے ملاقات کے لیے بلا لیا گیا میں ملاقات کےلیے اندر داخل ہو
تو اندر آتے ہی میں نے شرمندگی ظاہر کی کہ معذرت چاہتا ہوں دبارہ شکائت کا
موقع نہیں دوں گا دونوں محسن انسانوں نے مجھے معاف کر دیا اور آگے بہتر
کرنے کو کہا اور مجھ سے بولے کوئی مدد چاہیے ہو تو بتا
میں نے کہا جناب آپ سے چند سوالات کرنے ہیں تو مجھے سوالات کی اجازت مل گئی
میں نے سوال شروع کئے
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاوں میں
چاروںطرف غدار مرے بحرظلمت میں گھوڑے دڑوں کسے میں
ذوق یقیں پیدا ہوتا نہیں اس قوم میں
غلامی کی زنجیر کو کس شمشر سے کاٹوں میں
شاہیں تیرے کی پرواز ہے آج صرف دربار گیلانی تک
کیا اب بھی اس کو کرگس نہ کہوں میں
کر کہ جو خود کھاتا تھا شکار آج مردار کھاتا ہے
بٹھو مر کیا سمجھوں اس کو کسے میں
معمار پاکستان کہاتھا جناح نے جس کو
تعمیر وطن سیکھوں اس کو کسے میں
خودی بچ کر جو بناتا ہے مال و زر
غریبی میں اسے نام کرنا سیکھوں کسے میں
وزارت عمارت صدارت کے بھوکوں کو
خدمت خلق سیکھوں کسے میں
(یہ سوال سن کر اقبال نے جواب دیا)
اے خدا روح اقبال جگا دے عادی میں
کہ قوم کو خواب غفلت سے جگا سکتا ہوں میں
اب اللہ ربالعزت اقبال کی یہ دعا قبول فرما کر مجھے آج سےاقبال کی طرح کام
کرنے کی توفیق عطا کریں اور میں اگلے شرمندہ نہ ہوسکوں(آمین)
عادل(٢٥-١٢-٢٠١٣) |