آج 10 ربیع الاو ل ہے۔ کل 11 اور
پرسوں 12 ربیع الاول ۔ نعتوں کے مسحور کن بول ابھی سے سماعتوں میں رس
گھولنے لگے ہیں ۔ عاشقان ِ مصطفیٰﷺ بہ دل و جاں آقا علیہ السلام کی بارگاہ
ِ اقدس میں نذرانہ ِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔کیوں نہ کریں کہ دنیا کی سب سے
عظیم ترین ہستی کی ولادت باسعادت کے دن کی آمد آمد ہے ۔اگرچہ ہر عاشق محمدا
لرسول اللہﷺکی شان میں گل ہائے رنگا رنگ پیش کر رہا ہے ۔مگر "حق تو یہ ہے
کہ حق ادا نہ ہوا" کے مثل کوئی بھی آقا علیہ السلام کی شان کلی طور پر تا
قیامت بیان کرنے سے قاصر رہے گا۔ یہ ہی میرا ایمان اور میرا عقیدہ ہے ۔ اس
لیے کہ رب ِ کریم نے صدیوں پہلے "ورفعنا لک ذکرک" فرما کر آقا علیہ السلام
کی شان کو اتنا بلنداور اتنا ارفع کردیا کہ عام انسان اور عاشق کی رسائی آپ
ﷺ کی شان ِ اقدس کی رفعت تک محال ہے ۔
مگر آج میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد مسلمانوں میں آقا علیہ السلام کی پاکیزہ اور
تاقیامت قابل ِ عمل سیرت ِ طیبہ کی ایک چھوٹی سی جھلک بھی نہیں دیکھ پاتا ۔
سوچتا ہوں کہ ہمیں تو ہمارے آقا علیہ السلام نے ایک بہترین نظام ِ حیات عطا
فرمایا تھا ۔مگر ہم نے تو سب کچھ فراموش کردیا۔ حیف ہے ہم پر کہ ہم اپنی بے
نور زندگیوں میں آقا کے پور نور اسوہ ِ حسنہ سے ذرا بھی نور نہ لے سکے ۔
پھر ہمی روتے ہیں کہ ہم دنیا کی پسماندہ قوم ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے
ہمارا۔ یقین کیجیے کہ اگر آج ہی ہم اس طرح ہوجائیں کہ ہمیں دیکھ کر لوگ
کہیں : "امتی ایسا ہے تو نبی کیسا ہوگا۔" تو ہم دنیا کی سب سے بہترین قوم
بن جائیں گے ۔لیکن ہم آقا علیہ السلا م کے اسوہ ِ حسنہ کو اپنے لیے کیوں کر
مشعل ِ راہ بنا سکتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ ہمیں
"قدامت پرست" کہیں ۔ اگر ہماری یہی سوچ رہی تو جان لیجیے کہ ہم کبھی بھی
۔۔۔ہاں کبھی بھی اس دنیا میں ترقی نہیں کر سکتے ۔
ذرا آقا علیہ السلام کی تعلیمات ملاحظہ ہوں ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے مجھے آخری نصیحت یہ فرمائی تھی:
"اپنے اخلاق کو لوگوں کے لیے اچھا بناؤ۔"
وہ حدیث ِ مبارکہ تو ہم اکثر پڑھتے رہتے ہیں جس میں آقا علیہ السلام نے
ارشاد فرمایا تھا: "میں اچھے اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔" آج
ہم اخلاقیات کے کون سے معیار پر ہیں ، وہ سبھی جانتے ہیں ۔ بتانے کی ضرورت
نہیں۔
یہ حدیث ِ مبارکہ بھی ہم اکثر سنتے ہیں۔"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل
ایمان والا نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہ چیز پسند
نہ کرے ، جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔" اس حدیث کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر
ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کا ذرا محاسبہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم
تو خطرناک حد تک خود غرضی میں مبتلا ہیں ۔
حضرت ابوموسی ٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض
کیا : یا رسو ل اللہ ﷺ! کون سے مسلمان کا اسلام افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا: جس
(مسلمان) کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ " اور آج۔۔۔ بد
قسمتی سے نہ ہماری زبانوں سے ہمارے اپنے بھائی محفوظ ہیں ، نہ ہمارے ہاتھوں
سے !!
عصبیت کے مفہوم کے ضمن میں آقا علیہ السلام نے فرمایا: "اپنی قوم سے محبت
عصبیت نہیں ہے ، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ قوم کے ناحق پر ہونے کے باوجود آدمی
اپنی قوم کی مدد کرے۔"
قارئین ، آپ میرا یہ مضمون پڑھتے ہوئے اندازہ لگائیں گے کہ میں نے وہ
احادیث تحریر کی ہیں، جو ہم میں سے اکثر لوگ یا تو جانتے ہیں یا پڑھ چکے
ہیں۔یہ احادیث تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم جانتے ہوئے بھی آقا علیہ
السلام کی تعلیما ت پر عمل پیرا نہیں ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ اس بارہ ربیع
الاول سے ہم آقا علیہ السلام کی ایک ۔۔صرف ایک سنت پر عمل پیرا ہو
جائیں۔کیا ہم اپنے پیارے آقا علیہ السلام کے لیے اتنا کچھ بھی نہیں کر سکتے
؟؟
|