یہ عہدے گذشتہ تین ماہ سے خالی ہیں۔جس سے صوبہ کے چھ لاکھ
طلباء کا مستقبل داو پر
وزیر اعلی پنجاب کے اخباری بیانات پڑھ کر تو یوں لگتا ہے ۔کہ جیسے پنجاب
میں تعلیمی انقلاب برپا ہو گیا ہے۔ دعوے اس قدر بلند کہ انسان چکر ا کر رہ
جاتا ہے ۔لیکن جب ان دعووں کی حقیقت معلوم کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
کھودہ پہاڑ اور نکلا چوہا۔مسلم لیگ نواز نے انتخابات میں عوام کو متاثر
کرنے والے دعوے کیے لیکن آج مسلم لیگ نواز کو اقتدار میں آئے ہوئے کئی
مہینے ہو چلے ہیں ۔لیکن مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ خادم اعلی پنجاب جو اﷲ کے
رحمت سے ڈپٹی وزیر اعظم بھی ہیں۔اس قدر مصروف کار ہیں کہ انہیں صوبے کے
معاملات کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ سب محکموں کی نسبت محکمہ تعلیم کی حالت ابتر
ہے۔سالانہ امتحانات سر پر ہیں۔ لیکن اس وقت صوبہ پنجاب کے چھ تعلیمی بورڈز
عرصہ دراز سے چئیرمین اور کنٹرولر امتحانات سے محروم چلے آرہے ہیں۔پنجاب کے
جن تعلیمی بورڈز میں چئیرمین کے عہدے تعیاناتی کے منتظر ہیں،ان میں ہائر
ایجوکیشن کمیشن ان معاملات کی جانب توجہ کیسے دے جب کہ اسکے چئیرمین کی
تقرری ہونا باقی ہے۔ جن تعلیمی بورڈز میں چئیرمین کے عہدے خالی ہیں اور
وزیر تعلیم پنجاب اور وزیر اعلی پنجاب کے منہ چڑا رہے ہیں ۔ان میں فیصل
آباد ،راولپنڈی، ساہیوال، بہاولپور،اور سرگودہا بورڈز شامل ہیں۔جبکہ ملتان
،ساہیوال،سرگودہا،گوجرانوالہ اور راولپنڈی بورڈز میں کنٹرولر امتحانات کے
عہدے حکمرانوں کی بے بسی اور لاپراہی کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ان بورڈز
میں میٹرک کے امتحانات مارچ میں ہونے ہیں۔لیکن ابھی تک امتحانی سوالیہ
پرچوں کی تیاری بھی مشکلات میں ہے۔ذرا ئع کے مطابق امتحانات کی سکریسی اور
پرائیوسی میں چئیرمین بورڈز اور کنٹرولر امتحانات کا کلیدی کردار ہوتا
ہے۔پنجاب میں کل چھ تعلیمی بورڈز ہیں۔اور تمام کے تمام اہم عہدے داروں سے
محروم ہیں۔ ان بورڈز میں چئیرمین اور کنٹرولر امتحانات کی تقرریاں نہ ہونے
کے باعث صوبے بھر کے تقریبا چھ لاکھ طلبا ء کا مستقبل داو پر لگ چکا
ہے۔وزیر تعلیم پنجاب کے عہدے پر خادم اعلی پنجاب نے ایک ایسے شخص کو تعینات
کر رکھا ہے جو بہت بڑے کاروباری اور بزنس مین ہیں ۔ وزیر تعلیم پنجاب میاں
مجتبی شجاع الرحمن کے لیے انتہائی مشکل امر ہے کہ وہ صوبے کے تعلیمی
معاملات کے لیے وقت نکال سکیں-
صوبے کے چھ تعلیمی بورڈز میں چئیرمین اور کنٹرولر امتحانات جیسی اہم پوسٹیں
خالی ہونا وزیر تعلیم پنجاب اور وزیر اعلی پنجاب کی کارکردگی پر سوالیہ
نشان ہیں۔ |