شخص ابتدا سے معتبر اور محترم
رہا ہے۔ اس کے حوالہ سے امرجہ اور امرجہ سے متعلقات کی پہچان بنتی ہے۔ گویا
اشیاء کی آن بان اور شان یا بدنامی شخص کے حوالہ سے سامنے آتی ہے۔ جب شخص
کو ثانوی درجہ دے دیا جاتا ہے تو سب کچھ غارت ہو کر رہ جاتا ہے۔ جہاں شخص
کو زندگی کی پہلی سیڑھی سمجھا جاتا ہے وہاں حرکت کسی لمحے ختم نہیں ہوتی۔
حرکت زندگی کو کمالات سے سرفراز کرتی ہے۔ آتی نسلوں کے لیے مزید کی رہیں
کھولتی اور چھوڑتی چلی جاتی ہے۔
پاکستان میں بہت سے اعلی تعلیمی ادارے موجود ہیں اور ان کا پاکستان کیا‘
دنیا میں نام اور پہچان بے۔ وہاں سے تعلیم مکمل کرنے والے بڑے فخر سے ابنے
تعلیم اداروں کا ذکر کرتے ہیں۔ اپنے نام کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ یہ سب چونے
گارے سے بنی عمارت کا کرشمہ نہیں بلکہ ان میں موجود صاحبان علم ودانش کا
نتیجہ ہے۔ جی سی یو نام کے ادارے کئ ایک ہیں لیکن لاہور ہی کو خصوص کا درجہ
کیوں حاصل ہے۔ وہ اس لیے کہ وہاں بڑے نہیں‘ بہت بڑے دماغوں نے خدمات انجام
دیں۔ انہیں کس سطع کے مالی فواءد ملے یا ناملے‘ اس معاملے کو ایک طرف رکھیے
ہاں ان کے سبب اس ادارے کو نام مقام عزت اور شہرت دستیاب ہوئ۔ نسلیں یاد
رکھیں گی کہ یہاں موجودہ عہد کے حوالہ سے اس ادارے کو ڈاکٹر تبسم کاشمیری
اور ڈاکڑ سعادت سعید جیسے لوگوں کی خدمات دستیاب رہیں اور یہ کوئ معمولی
بات نہیں کہ یہ صوفی تبسم‘ قیوم نظر‘ پطرس بخاری‘ ڈاکٹر اقبال‘ ڈاکٹر سید
معین الرحمن‘ سہیل احمد خاں وغیرہ جیسے لوگوں کا ادارہ رہا ہے۔ ایف سی کالج
ڈاکٹر آغا سہیل‘ عقیل روبی‘ جیلانی کامران‘ اختر شمار وغیرہ جیسے لوگوں کو
کیونکر فراموش کر سکے گا۔ اورنٹیل کالج ڈاکٹر مولوی محمد شفیح ڈاکٹر سید
محمد عبدالله حافظ شیرانی جیسے لوگوں کے حوالہ سے شہرہ رکھتا ہے۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اشخاص ادارے بناتے اور انہیں بلندیوں سے سرفراز
کرتے ہیں۔ اسی طرح ادارےاشخاص کے جوہر دریافت کرتے ہیں‘ انھیں نکھارتے ہیں
اور پھر یہی اشخاص اپنے معاشرے اور بنی نوع انسان کے لیے مفید ترین خدمات
انجام دیتے ہیں۔ یہ اشخاص اپنے ادارے اور علاقے کی وجہء شہرت بنتے ہیں۔ ان
کے حوالہ سے ادارے اور علاقے کی نیک نامی میں ہرچند اضافہ ہوتا ہے۔ دور
دراز اور کونے کھدرے کے اداروں میں بھی بہت کچھ ہوتا آیا ہے لیکن مرکز سے
دوری کے سبب منہ پر نہیں چڑھتے حالانکہ ان اداروں نے مرکز سے کہیں بڑھ کر
یا ان کے قریب قریب کام کیا ہوتا ہے۔ مرکز کے اداروں میں ان کے نام کی وجہ
سے‘ ساری کریم منتقل ہو جاتی ہے جبکہ مقامی اداروں میں واجبی نمبر حاصل
کرنے والے طلباء داخلہ لیتے ہیں۔ اس ستم ظریفی جسے المیہ بھی کہا جا سکتا
ہے‘ کے باوجود یہ ادارے بڑے اداروں سے کسی طرح پیچھے نہیں ہوتے۔ سردست میرا
یہ موضوع نہیں لہذا اسے التوا میں رکھتا ہوں۔ میں یہاں کورنمنٹ اسلامیہ
کالج قصور کے حوالہ سے چند معلومات شیءر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
اس ادارے کی اکیس بار قیادت بدلی جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
پروفیسر غلام ربانی عزیز اکتوبر ١٩٥٦ تا ٣٠-اگست ١٩٦٥
پروفیسر وقار احمد خاں ٣١-اگست ١٩٦٥ تا ٢٨ اگست١٩٧٣
پروفیسر ارشاد احمد حقانی ٢٩-اگست ١٩٧٣ تا ٢- اپریل ١٩٧٦
پروفیسر خواجہ نذیر احمد ٣۔ - اپریل ١٩٧٦ تا ١٧ فروری ١٩٧٧
پروفیسر ارشاد احمد حقانی ١٨- فروری ١٩٧٧ تا ٢٢-اکتوبر ١٩٧٧
پروفیسر نذیر احمد حامد ٢٣- اکتوبر١٩٧٧ تا ١٨جون ١٩٧٨
پروفیسر الہ یار خاں ١٩۔ جون ١٩٧٨ تا ٢۔ مئ ١٩٧٩
پروفیسر حسین حیدر ٠٣ مئ ١٩٧٩ تا ٢٥۔ مئ ١٩٧٩
پروفیسر الہ یار خاں ٢٦۔ مئ ١٩٧٩ تا ٦۔ اپریل ١٩٨٠
ڈاکٹر صادق ندیم ٧۔ اپریل ١٩٨٠ تا ١١۔ نومبر ١٩٨٠
پروفیسر الہ یار خاں ١٢۔ نومبر ١٩٨٠ تا ٣٠۔ مئ ١٩٨٤
ڈاکٹر آصف اقبال خاں ٣١۔ مئ ١٩٨٤ تا ٤۔ نومبر ١٩٨٥
پروفیسر الہ یار خاں ٥۔ نومبر ١٩٨٥ تا ٣١۔ دسمبر ١٩٩١
پروفیسر چوہدری محمد اسلم ٠١۔جنوری ١٩٩٢ تا ٠٨ جولائ ١٩٩٢
ڈاکٹر اختر علی ٠٩جولائ ١٩٩٢ تا ٠٩ اگست ١٩٩٣
ڈاکٹر محمد رفیق ١٠۔ اگست ١٩٩٣ تا ٣١مارچ ١٩٩٥
پروفیسر چوہدری محمد اسلم ١ اپریل ١٩٩٥تا ٢٣۔ جون ١٩٩٥
پروفیسر فضل عظیم شاکر ٢٤۔ جون ١٩٩٥ تا ٢٢۔ نومبر ١٩٩٥
ڈاکٹر محمد ذوالفقار علی رانا ٢٢۔ نومبر ١٩٩٥ تا ١١۔ مئ ١٩٩٨
پروفیسر امجد علی شاکر ١١۔ مئ ١٩٩٨ تا ١٨۔ جولائ ٢٠٠٨
پروفیسر راؤ اختر علی ١٩۔ جولائ ٢٠٠٨ تا حال
انجمن اسلامیہ قصور کےعہد میں علامہ اقبال اور فیض احم
د فیض جیسے لوگ انجمن کی رونق بڑھاتے رہے۔ قیام کالج کے بعد بھی ناموراہل
قلم و دانش تشریف لاتے رہے۔ مٹلا علامہ علاؤ الدین صدیقی‘ صوفی تبسم‘ ڈاکٹر
سید محمد عبدالله‘ پروفیسر سید عابد علی عابد‘ اشفاق احمد‘ بانو قدسیہ‘
ڈاکٹر عبادت بریلوی‘ پیر فضل شاہ گجراتی‘ خلیل آتش‘ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن‘
ڈاکٹر گوہر نوشاہی‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ میرزا ادیب
پروفیسر حمید عسکری‘ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار‘ پرفیسر سید وقار عظیم‘ خالد
بزمی‘ مسعود مفتی‘ محمد علی ظہوری‘ احمد خان بانی تحریک نفاذ اردو پاکستان‘
رضی عابدی‘ احمد ندیم قاسمی‘ حفیظ جالندھری‘ مولانا اظہر شحبہء فارسی
گورنمنٹ کالج لاہور‘ احسان دانش‘ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر‘ ڈاکٹر آفتاب نقوی‘
عبدالجبار شاکر‘ عبدالحمید اظہر‘ ڈاکٹر راشد لطیف ستارہء امتیاز‘ ڈاکٹر
رانا ادریس‘ ڈاکٹر انعام الرحمن‘ ڈاکٹر ارشد جاوید‘ ڈاکٹر ناصر رانا‘ ڈاکٹر
عبدالله جی سی یو لاہور‘ ڈاکٹر محمد رشید چوہدری‘ پوفیسر مستعنیر علوی
وغیرہ
گورنمنٹ اسلامیہ کا لج قصور میں بہت سے اہل قلم کو کام کرنے کا موقع میسر
آیا۔ مثلا
احسان الہی ناوک اردو پنجابی میں شاعری کرتے تھے۔ نثر نگاری بھی کرتے تھے۔
احمد یار خان مجبور فارسی اردو اور پنجابی کے شاعر تھے۔ ان پر ایم فل سطع
کا مقالہ ہو جکا ہے۔
ڈاکٹر اختر شمار کالم نگار صحافی شاعر‘ وہ ڈاکٹر علامہ بیدل حیدری کے سند
یافتہ شاگرد ہیں۔ ان کے شعری مجموعے روشنی کے پھول‘ کسی کی آنکھ ہوہے ہم‘
جیون تیرے نام نے بڑا نام کمایا۔ ہاءیکو نگاری میں معتبر نام کے حامل ہیں۔
ان دنوں ایف سی کالج لاہور کے شعبہ اردو کے چیرمین ہیں۔
ارشاد احمد حقانی معروف کالم نگار اور وزیر مملکت تھے۔
ڈاکٹر ارشد شاہد شعبہءپنجابی سے متعلق ہیں۔ ان کا ایم فل کا مقالہ مقصود
حسنی کی پنجابی شاعری کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ تھا جبکہ پی ایچ ڈی کا
مقالہ وارث شاہ کے محاورات سے متعلق ہے۔ پرمغز اور پڑھنے لاءق مقالہ ہے۔
اشتیاق احمد کئ کتب کے مولف ہیں۔ مثلا علامت کے مباحث‘ کلچر۔ منتخب تنقیدی
مضامن‘ جدیدیت کا تنقیدی تناظر‘ محمد حسن عسکری عہد آفرین نقاد وغیرہ
پرفیسر اکرام ہوشیار پوری اردو پنجابی کے شاعر‘ افسانہ نگار‘ ڈرامہ نگار
اور نثر نگار تھے۔
ان کے کام پر بی اے آنرز سطع کا تحقیقی مقالہ ہو چکا ہے۔
قاضی اکرام بشیراخبارات سے بطور کالم نگار منسلک رہے ہیں۔ ان کے کالم آج
بھی چھپتے ہیں۔
پروفیسر سید اظہر کاظمی خوش سخن شاعر تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ بھی
شاءع ہوا۔
امجد علی شاکر بہت اچھے نثر نگار اور مترجم ہیں۔ انہوں نے ا ردو مجموعہء
کلام اوٹ سے کا پنجابی ترجمہ کیا۔ کالم بھی لکھتے ہیں۔ کالج کے پرنسپل رہے
ہیں۔ ان کی پرنسپل شپ کا پریڈ ریکارڈ کا درجہ رکھتا ہے۔
پروفیسر جیکب پال‘ علامہ پال کے صاحبزادے ہیں۔علامہ مرحوم نے باءبل مقدس کا
اردو میں ترجمہ کیا تھا اور کئ زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ پروفیسر جیکب پال
ریاستی ایواڑ یافتہ ہیں۔ ان کی علمی اور ادبی خدمات کا داءرہ بڑا وسیع ہے۔
ان کی تحریریں معروف جراءد میں شاءع ہو چکی ہیں۔
پرفیسر خواجہ ندیم اسلم اچھے لکھنے والوں میں ہیں۔ ابتدائ دور کے ہاءیکو
نگار ہیں۔ ان کا ہاءیکو پر مشتمل مجموعہ شاءع ہوا تھا۔
پروفیسر راشد اقبال جوان ہیں۔ شعبہءاردو سے وابستہ ہیں۔ بلا کا تنقیدی ذوق
پایا ہے۔
ان کئ تحریریں مختلف رساءل میں شاءع ہو چکی ہیں۔ ان کے ایم اے اور ایم فل
کے تحقیقی مقالے سعادت حسن منٹو پر تھے۔ مطبوعہ مضامین کچھ یہ ہیں
غلام عباس متوسط طبقے کا افسانہ نگار کتابی سلسہ قندیل اپریل جون ٢٠٠٤
منٹو بحیثیت سیاسی افسانہ نگار مجلہ سخن شعبہءاردو اورینٹل کالج جمعہ پنجاب
لاہور ٢٠٠٥
نیا قانون کے انگریزی تراجم مجلہ سخن شعبہءاردو اورینٹل کالج جمعہ پنجاب
لاہور ٢٠٠٧
منٹو کے افسانے مترجم حامد جلال مجلہ شرق اورینٹل کالج جمعہ پنجاب لاہور
٢٠٠٨-٢٠٠٦
پریم چند کی راجپوتیت مجلہ سخن شعبہءاردو اورینٹل کالج جمعہ پنجاب لاہور
٢٠٠٦
بجوکا کی موت افسانہ مجلہ سخن شعبہءاردو اورینٹل کالج جمعہ پنجاب لاہور
٢٠٠٥
ان کے کئ ایک مضامین غیر مطبوعہ ہیں۔
پروفیسر راؤ اختر علی کالج ہذا کے سربراہ ہیں۔ بنیادی طور پر انگریزی کے
استاد ہیں۔ زبردست منتظم ہیں۔ مذہبی علم سے خوب خوب آگاہ ہیں۔ طلباء میں
تقریری فن پیدا کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ مارننگ اسمبلی ان کا
ایسا اقدام ہے جو تادیر یاد رکھا جاءے گا۔ ان کے علم وادب سے متعلق
انٹرویوز ان کی ادب دوستی اور ادب پروری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پروفیسر راؤ ندیم احسان بنیادی طور پر انگریزی کے استاد ہیں لیکن اردو سے
محبت رکھتے ہیں۔
خوش فکر شاعر ہیں۔ ان کی غزلیں مختلف رساءل میں شاءع ہوتی رہتی ہیں۔
پروفیسر زاہد حسین اس وقت سینءراساتذہ میں ہیں۔ لکھنے پڑھنے کا شروع سے ذوق
پایا ہے۔ ان کی کتب میں
کے عمرانی افکار‘ عالمی واقفیتاسلام
عامہ
اسلامی دنیا کے اہم شہر
‘ New world order
خصوصیت کا درجہ رکھتی ہیں۔
پروفیسر سرفراز احمد معین کالج ہذا کے حاضر واءس پرنسپل ہیں۔ بنیادی طور پر
عربی کے استاد ہیں تاہم اخبارات سے منسلک ہونے کے سبب مختلف موضوعات پر
خامہ فرسائ کرتے رہے ہیں۔
پروفیسر علامہ سعید عابد مدینہ یونیورسٹی سے فاضل تھے۔ اقبال اور غالب ان
کے مطالعہ میں رہتے تھے۔ خطوط نویسی میں انھیں کمال حاصل تھے۔ یہ خطوط مجھ
ناچیز کو بڑے اہتمام سے پڑھ کر سناتے اور پڑھنے کو بھی عطا کرتے۔
ڈاکٹر شبیہ الحسن ہاشمی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کا بطور سٹاف
کالج سے گہرا تعلق رہا ہے۔
ڈاکٹر صادق جنجوعہ بنیادی طور پر پنجابی کے استاد تھے لیکن اردو سے بھی
گہرا تعلق رکھتے تھے۔
ان کی کتاب مقصود حسنی کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ حوالے کا درجہ اختیا کر
چکی ہے۔
پروفیسر طارق جاوید شحبہءکامرس سے تعلق رکھتے ہیں۔ جوان ہیں‘ کچھ کرنے کے
جذبے سے سرشار ہیں۔ اردو سے محبت رکھتے ہیں۔ اخبار و رساءل میں لکھتے رہتے
ہیں۔ افسانہ اور آزاد نظم خصوصی میدان ہے۔
ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری ادب‘ موسیقی اور عصری معاملات میں گہری دلچسپی
رکھتے ہیں۔ موسیقی کے آلات کا شاندار ذخیرہ سمبھالے ہوءے ہیں۔ کئ کتب کے
مصنف ہیں تاہم جہان فن اپنا جواب نہیں رکھتی۔ روزنامہ مساوات اور روزنامہ
پاکستان میں ان کے فکر انگیز کالم شاءع ہوتے رہے ہیں۔ خلقت سے بھی وابستگی
رہی ہے۔
پروفیسر عباس تابش بھی علامہ بیدل حیدری کے شاگردوں میں ہیں۔ ان کے دو شعری
مجموعے تمہید اور عشق تاباں ان کی پرواز کو واضح کر چکے ہیں۔
پروفیسر عبدالغنی مرحوم‘ پروفیسر منور غنی کےوالد گرامی تھے۔ بڑے خوش فکر
پنجابی شاعر تھے۔
انگریزی کے استاد تھے۔ چینی زبان سے بھی گہری واقفیت اور لگاؤ رکھتے تھے۔
پروفیسر عبدالغفور ظفر مرحوم اسلام کے شیدائ تھے۔ انھوں نے انجمن فدیان
اسلام قاءم کی تھی۔ خبر نویسی میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان کے قلم سے
سیکڑوں نہیں‘ ہزاروں خبریں نکل کر ملک کے قومی اخبارات کی زینت بنیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن میو قصور کی انجمنوں کے حوالہ سے اتھارٹی خیال کیے جاتے
ہیں۔ ان کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات بھی قصور کی انجمنوں کے
متعلق ہیں۔ صاحب علم اور باریک بین ہیں۔ ان کی کاوش ہا مختلف جراءد میں
شاءع ہوتی رہی ہیں۔
پروفیسر علی حسن چوہان اس وقت شعبہءاردو کے صدر ہیں۔ لکھنے کا ذوق بڑا
قدیمی ہے۔ ان کی کتب میں سے انمول تلمیحات‘ کہاوت اور کہانی‘ فن ادب وعروض‘
حرف ہی حرف‘ چوہان اردو املا‘ اردو قواعد وانشاء‘ مضامین اردو قابل ذکر
ہیں۔ آءینہء اردو لغت کے مرتبین میں سے بھی ہیں۔ ان کا ایم فل کا مقالہ
خواجہ درد کی تلمیحات پر تھا۔ سرمد اور منصور پر قابل تحسین کام پڑھنے کو
دیا ہے۔
پروفیسر غلام ربانی عزیز کالج کے پہلے پرنسپل اورعربی فارسی کے زبردست عالم
فاضل تھے۔ ان کی زندگی علم و ادب کی خدمت میں گزری۔ انتالیس کتب کے مصنف
تھے۔ علاوہ ازیں نو کتب کی ترتیب وتصحیح کی۔ ایک کتاب ان کے مضامین کے
مجموعے پر مشتمل ہے۔ ایک کتاب عربی سے اردو اور ایک انگریزی سے اردو ترجمے
پر مشتمل ہے۔ پندرہ نصابی مواد سے متعلق ہیں۔ غیر مطبوعہ کتب میں چار کتب
عربی‘ دو فارسی اور دو انگریزی ترجمہ سے متعلق ہیں۔ تین دیگر کتب ہیں جبکہ
چار کتب نصابی مواد کے متعلق ہیں۔
ڈاکٹر محمد عبدالله قاضی ڈبل پی ایچ ڈی ہیں۔ ان کا تحقیقی کام مختلف جہتوں
پر مشتمل ہے۔ شرح بخاری اور سیرت پر ان کا کام ان کی محنت اور خلوص کا منہ
بولتا ثبوت ہے۔
مقصود حسنی کی دو کتب کے مرتب ہیں اور یہ کتب نیٹ پر دستیاب ہیں۔
مقصود حسنی کا بھی کالج ہذا سے رشتہ رہا ہے۔ مقصود حسنی نے اپنی حد تک اردو
سے وفاداری کا رشتہ نبھانے کی سعی کی ہے۔ ان کے کام پر دو ایم فل کے مقالے
ہو چکے ہیں‘ دو ہو رہے ہیں۔ ایک مقالہ ایم اے سطع کا ہو رہا ہے۔ قصور کے
حوالہ سے دو ایم فل کے مقالوں میں شراکت دار ہیں۔ ڈاکٹر علامہ بیدل حیدری
پر ہونے والے مقالے میں بھی اپنا حصہ رکھتے ہیں۔
پروفیسر نیامت علی شعبہءانگریزی سے متعلق ہیں۔ انگریزی اردو اور پنجابی کے
خوش خیال وبلند فکر شاعر ہیں۔ اردو میں افسانہ بھی لکھتے ہیں۔ بلا کے ذہین
فطین استاد ہیں۔ پنجابی صنف کافی میں انفرادیت کے مالک ہیں۔
ان کے ایم فل کے تحقیقی مقالے کا عنوان
A critical study of maqsood hasni's english poetry
تھا۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آتے وقتوں میں کافی ان کی وجہءپہچان ٹھہرے
گی۔
پروفیسر یونس حسن شعبہء اردو سے متعلق ہیں۔ ان کا ایم فل کا مقالہ قرتہ
العین حیدر کے ناول چاندنی بیگم سے متعلق تھا۔ ان کے ڈیڑھ سو سے زیادہ
تحقیقی و تنقیدی مضامین اور مقالے ملک کے معروف رساءل و جراءد میں شاءع ہو
چکے ہیں۔
اسلامیہ کالج قصور کے اساتذہ حصول علم کے حوالہ سے دیگر تعلیمی ادارے سے
پیچھے نہیں ہیں۔ قدیم میں ڈاکٹر صادق ندیم اور ڈاکٹر آصف اقبال نے خدمات
انجام دیں۔ ڈاکٹر صادق جنجوعہ بھی علمی وادبی خدمت انجام دیتے رہے۔ تینوں
صاحبان پی ایچ ڈی تھے۔ پروفیسر امجد علی شاکر پہلے بیج کے ایم فل تھے۔ وہ
یہاں بطور پرنسپل کام کرتے رہے۔ ایم فل کے دوسرے بیج سے مقصود حسنی اور
ڈاکٹر عطاءالرحمن تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عطاءالرحمن نے اسی کالج میں رہتے
ہوءے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر آفاق اسی کالج سے چاءنہ پی ایچ ڈی
کرنے گیے۔ ڈاکٹر عبدالله قاضی نے یہاں رہتے ہوءے پی ایچ ڈی لسانیات کی ڈگری
حاصل کی۔ ڈاکٹر ارشد نے اسی کالج میں رہتے ہوءے ایم فل اور پی ایچ کی ڈگری
حاصل کی۔
ڈاکٹر عمران خالد اسی کالج سے پی ایچ ڈی کرنے گیے۔
راشد اقبال‘ شرافت علی‘ سرور گوہر‘ یونس حسن‘ محمد ریحان حمید‘ طلعت رشید‘
وقاص حسن‘ علی حسن چوہان‘ غلام سرور قاسمی‘ محمد سلیم اختر‘منیر احمد‘ محمد
رفیق ساگر‘ نیامت علی وغیرہ ایم فل کی تحقیقی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ اظہر
علی اور کاشف جویا
عامر رشید اس ذیل میں مصروف کار ہیں۔
محمد طاہر‘ محمد جعفر‘طاہرالرحمن‘ غلام مصطفے پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ پی ایچ
کے لیے درج ذیل اساتذہ ہمہ تن مصروف ہیں۔ خلیل احمد‘ عزیری جاوید‘ علی حسن
چوہان‘ یونس حسن نیامت علی‘ غلام سرور قاسمی‘ سرور گوہر‘ ریاض محبوب‘ بدر
نواز‘ ناصر زمان
ذیشان افضلوغیرہ
میں نے یہ تفصیلات محض بطور نمونہ پیش کی ہیں جن میں اسی قدر یا اس سے
زیادہ اضافے کی گنجاءش موجود ہے۔ ان تفصیلات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا
ہے کہ گورنمنٹ اسلامیہ کا ماضی ہی نہیں‘ حال بھی درخشندہ و تابندہ ہے اور
اسے پنجاب کے بہترین کالجز میں شمار کرنا مبنی برحق و انصاف ہو گا۔
|