جہاد کی آڑ میں فساد

کون کہتا ہے کہ تبلیغی مرکز، چرچ یا مساجد پر حملہ کرنا جہاد ہے؟ ہمارے وہ مسلمان بھائی جو اس وقت جہاد کی آڑ میں لڑ رہے ہیں کیا اُن کو یہ بھی معلوم ہے کہ جہاد کس طرح کیا جاتا ہے ؟ اگر سچ پوچھیں تو دنیا میں اصل جہاد صرف القاعدہ کر رہی ہے باقی جہاد کے نام پر صرف مسلمان بھائیوں کا قتل جاری ہے ۔ اگر تحریک طالبان پاکستان نے جہاد ہی کرنا ہے تو وہ انڈیا ، امریکہ ، یورپ یا یوکے جا کر جہاد کریں جہاں جہاد کی ضرورت ہے ، اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر جہاد کرنا کس کتاب میں لکھا ہے؟

جہاد سے مراد کسی نیک کام میں انتہائی طاقت و کوشش صرف کرنا اور ہر قسم کی تکلیف و مشقت برداشت کرنا ہے ۔امام راغب اصفہانی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دُشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔ شریعت کی اصلاح میں ـ"دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کے لئے اپنی تمام تر جانی، مالی ، جسمانی ، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے "۔ ۔جہاد کو مسلسل عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شریعت اسلامیہ کی رو سے اس کی درج ذیل اقسام ہیں: جہادبالعلم، جہادبالمال ، جہاد بالعمل، جہاد بالنفس، جہاد بالقتال۔ جہاد بالعلم وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر و جہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معصور ہو جائے۔ ۔جہاد بالعمل کا تعلق ہماری زندگی سے ہے اس جہاد میں قول کے بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہے۔جہاد بالعمل ایک مسلمان کے لئے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسر کرنے کا نام ہے۔۔ جہاد بالمال اپنے مال کو دین کی سر زمین کی خاطر خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔۔ جہاد بالنفس بندۂ مومن کے لئے نفسیاتی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے ۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے ۔ شیطان براہِ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے ، اگر اس نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔۔ جہاد بالقاتل میدان جنگ میں کافروں اور دین کے دُشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دُشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں ۔ اگر کوئی کفر کے خلاف جنگ کرتا ہوا شہید ہو جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں وہ زندہ ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے "اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں اُنہیں مت کہو کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں ، (وہ مردہ نہیں ) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں"القرآن سورۃ البقرہ:154۔

جہاد بالقتال کا حکم نبوت کے مدنی دور میں نازل ہوا، اس سلسلے میں سب سے پہلے قریش اور مسلمانوں میں بدر کے مقام پر غزوہ ہوا ، جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔ کیونکہ جہاد میں جان لی اور دی جاتی ہے اور جان لینا ہمیشہ سے الہامی شریعتوں میں ممنوع رہا ہے سب سے پہلے مسلمانوں کو جہاد کی اجزات دی گئی ۔ جب مسلمانوں کو یہ اجازت دی گئی تو ساتھ میں اس کی وجہ بیان کی گئی کہ یہ لوگ اس لئے لڑ سکتے ہیں کہ ان پر ظلم ہوا ہے ۔ قرآنِ کریم میں آیا ہے "جن سے جنگ کی جائے ،اُنہیں جنگ کی اجازت دی گئی اس لیئے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے اور اﷲ یقینا اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔ وہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے ، صرف اس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارہ رب اﷲ ہے"۔ القرآن سورۃ الحج40-39۔
جہاد بالقاتل کے لئے کچھ بنیادی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے ۔ جن کے بغیر جہاد انسانیت کے لئے محض فتنہ و فساد کا باعٹ بنتا ہے ، جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتاجہاد کی بنیادی شرائط درج ذیل شامل ہیں :جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ عوام الناس کو فرداً فرداً جتھوں یا تنظیموں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہر گز اجازت نہیں ہے۔ جہاد کے دوران عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔ غیر مسلح لوگوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔ درختوں کو کاٹا نہیں جائے گا۔ شک کی بنیاد پر کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ اگر کوئی کافر جنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و اصلاح کا دین ہے ۔ احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کرلے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے ۔ ایک مرتبہ ایک صحابی ایک کافر کو قتل کرنے ہی والے تھے کہ اس نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا ، مگر صحابی نے اس کے کلمے کی پرواہ نہیں کی اور اسے قتل کر دیا۔ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سخت الفاظ میں اس قتل کی مذمت کی اور صحابی کے اس قول پر کہ محض جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا، ارشاد فرمایا کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ آپ ؐ نے پھر اس مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کرنے کا حکم فرمایا۔

Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 96 Articles with 80107 views i am a humble person... View More