دہشت گردی کا کہیں بهی کوئی واقعہ ہو تو اسے بیرونی ہاتھ
کا شاخسانہ قرار دے دیا جاتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ اس کے پیچهے اندرونی
عوامل بهی کار فرما ہیں۔
کچھ عرصہ بعد معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق نہ صرف پاکستان کی
سرزمین سے ہے بلکہ کسی سیاسی مذہبی یا علاقائی گروه کے سرگرم رکن بهی ہیں۔
'لارنس آف امریکہ' ایک کردار تها لیکن اس کے مددگار علاقائی لوگ ہی تهے۔
پاکستان میں یہی کردار ریمنڈ ڈیوس کی پہچان کے ساتھ سامنے آیا جبکہ اور
کتنے ریمنڈ ڈیوس پسِ منظر میں ہوں گے، لیکن ان کے ساتھ کام کرنے والے ہمارے
ہی بهائی ہیں جو چند ڈالر پر بک گئے۔ یہ بازار اب بهی گرم ہے۔ ایمان، غیرت،
وطنیت بک رہی ہے اور بہت ہی ارزاں۔
چند ڈالر ، ہوسِ اقتدار ، ذاتی مفادات ، شہرت ،لیڈری کا شوق ،، اس بازار
میں یہ سب سکے رائج الوقت ہیں۔ اسلام دشمن قوتوں کا طریقہء واردات آج بهی
وہی ہے جو صدیوں قبل تها۔ تاریخ بارہا اس کی نشاندہی بهی کرتی ہے لیکن
افسوس مسلمان اسے 'مومن کی فراست' کے ساتھ دیکهنے سے قاصر ہیں۔
شاید وه یہ متاعِ گراں مایہ گم کر چکے۔
تاریخ میں سلطان صلاح الّدین ایوبی سے عیسائی حکمران ریجنالٹ کے مقالمے کی
بازگشت آج بهی سنائی دیتی ہے۔ کیا ہم اور ہمارے حکمران اس پر کان دهرنا
پسند کریں گے؟ لحظہ بهر غور و فکر یہ سمجهنے کے لئے کافی ہو گا کہ نہ صرف
ہمارے، بلکہ مسلم اُمہ کے موجوده ابتر حالات کے پیچهے کون سا بیرونی ہاتھ
کار فرما ہے جو ہمارے ہی لوگوں کو پُتلی کی طرح نچا رہا ہے اور تباہی کی اس
حالت تک پہنچنے میں کون کون سے عوامل کار فرما ہیں۔
قیدی بننے کے بعد ریجنالٹ نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی سے یوں
مخاطب ہوا :
"کیا میں آپ کو یاد دلاؤں کہ ہم نے اسلام کو کہاں کہاں سے نکالا ہے۔اسلام
تو بحیره روم کے پار پہنچ گیا تها۔ سپین سے اسلام کی پسپائی کیوں ہوئی؟ روم
آپ کے ہاتھ سے کیوں نکلا؟ سوڈان میں اسلام دشمنی کی کیا وجہ تھی؟ ہم نے
اسلام کے محافظوں کو خرید لیا تها۔ آج بهی تمہارے حکمران ہمارے زرخرید غلام
ہیں۔ ان کی ریاستوں میں مسلمان ره گئے ہیں لیکن اسلام ختم ہو گیا ہے۔ آپ کی
قوم میں مذہب کو نیلام کرنے والوں کی تعداد زیاده ہے اور ہم خریدار ہیں۔
اگر آپ جنگ و جدل کے بجائے اپنی قوم کو زر پرستی ، لذت پرستی اور تعیش
پسندی سے بچانے کی مہم چلائیں تو ہم یہاں ایک دن بهی ٹهہر نہ سکیں گے۔"
سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتهوں شکست کے بعد صلیبیوں کی کانفرنس ہوئی جس
میں ان کے ایک حکمران آگسٹس نے ، جو اسلام دشمنی کو عبادت سمجهتا تها ، اس
عزم کا اعاده کیا :
"ہمیں اسلام کی بیخ کنی کرنی ہے۔ اس کی کردار کشی اور نظریات میں شکوک پیدا
کرنا لازم ہے۔ مسلمانوں میں ایسی تہذیب رائج کرنی ہے جس میں کشش ہو۔ ہم
اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے تو یہ مہم نسل در نسل سپرد کرتے رہیں گے۔"
آج اس میں کیا شک ہے کہ یہ مہم نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ آج کا بیرونی
ہاتھ اسی کا تسلسل ہے اور دشمن کی کامیابی ہماری اپنی کمزوریوں میں مضمر ہے
کہ ہم نے اسلام کو، جو ایک مکمل طرز حیات ہے، مساجد اور چند رسومات تک
محدود کرتے ہوئے خود کو یہود و نصاری اور ہنود کی تہذیب کا اسیر بنا لیا
ہے۔ ہمارے نظریات کے تانے بانے اس طرح بکهرے کہ دین کی اساس گم ہو گئی اور
اس کی جگہ فروعات کی بنا پر نئے نئے فرقے جنم لیتے رہے۔
جہاد، جو ہماری طاقت کا راز تها، اس کی جگہ فساد نے لے لی اور فرقہ پرستی
کی بنیاد پر دست و گریباں ہونے اور قتل و غارت کو تقدس سمجھ لیا گیا۔ ابتری
کے اس عالم کے باوجود کیا اب بهی ہم اس بیرونی ہاتھ کو پہچاننے سے قاصر
رہیں گے؟؟
(اداریہ ۔ ماہنامہ المرشد ۔ جنوری 2014) |