وزیر اعلی پنجاب……ہمیں بھی جینے کا حق دیا جائے!

جناب! ہماری بھی کچھ خواہشات ہیں ہم بھی اس معاشرے میں دوسرے لوگوں کی طرح جینا چاہتے ہیں ہمیں بھی جینے کا حق دیا جائے ہمارا علاج ممکن نہ سہی تو کم از کم میری والدہ کا ہی علاج کروایا جائے ہماری دنیا تو پہلے ہی اندھیری ہے ہمارے والد اور والدہ ہی ہمارا واحد آسرا اور سہارا ہیں یہ بھی ہم سے چھن گیا تو ہم اس بے رونق اور بے حس دنیا میں جی کر کیا کریں گے اگر ہمارے لیے حکومت کی طرف سے کوئی باقاعدہ امداد کا معقول انتظام نہ کیا گیا تو ہم سب اس دنیا سے کنارہ کر جائیں گے یہ الفاظ محمد نواز اور نذیر احمدکے ہیں جوکہ اپنی زندگی کے 30سا ل اندھیروں کی نذر کر چکے ہیں اورجو اپنے بقیہ نابینا اور ذہنی معذور دو بہنوں اور دو بھائیوں کے ساتھ اپنے گھر کے سونے آنگن میں بیٹھ کر حکومتی ارباب اختیار، اداروں اور این جی اوز کی کارکردگی کا پول کھو ل رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ دودو تین تین روز تک کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ پانی پی کر گزر اوقات کرنا پڑتی ہے۔ جب تک والد دکان سے نہیں آجاتے اس وقت تک کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ آج روٹی پیٹ کا دوزخ بھرے گی بھی یا نہیں۔اور پھر ہمارے والد ہی ہمیں کھانا کھلاتے ہیں۔یہ وہ حقائق ہیں کہ جن سے ہم صرف نظر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اور غریب اور اس کی غربت کو محض روٹین سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں

کہروڑپکا کے وہ پانچوں بہن بھائی پیدائشی طور پر نابینا اور ذہنی معذورہیں ان کا ولد خادم حسین ایک خرادیہ ہے اور عرصہ 30سال سے ان پانچوں کی جیسے تیسے کر کے پرورش کر رہا ہے ۔ جب جب، جس نے جو بتایا اس محکمے میں درخواست دی۔ سوشل ویلفیئر، بیت المال،disability سنٹر،پرائم منسٹر سوشل سیکٹر اور نہ نجانے کہاں کہاں کی خاک چھانی لیکن کوئی شنوائی نہ ہو۔خدا خدا کرکے وزیراعظم کو دی گئی درخواست پر ایکشن لے لیا گیا۔ جس پر ڈسٹرکٹ ہسپتال لودہراں میں ڈاکٹرز کا ایک بورڈ بنایا گیا جنہوں نے رپورٹ Submitکی کہ ان پانچوں بچوں کا علاج پاکستان میں یا باہر کے کسی بھی ملک میں ممکن نہیں اور انہیں معذوری کے سرٹیفکیٹ تھما دیے گئے ۔1999میں وزیر اعظم نواز شریف کے نوٹس لینے پر اپنا اکاؤنٹ متعلقہ ڈاک خانہ میں کھلوانے کا کہا گیا ۔خادم حسین نے اپنا اکاؤنٹ ڈاک خانہ کہروڑپکا میں کھلوایا اور امداد کا منتظر رہا کہ 18000روپے ماہانہ ہمارے اکاؤنٹ میں آئیں گے لیکن 1999سے لیکر آج کے دن تک ایک پھوٹی کوڑی بھی ان کو نہ دی گئی وزیر اعظم نے ہدایات کر کے اپنا ’’فرض ‘‘پورا کردیا جبکہ متعلقہ محکمے سوشل ویلفیئر، بیت المال(لودہراں) اور پرائم منسٹر سوشل ویلفیئر سیل اسلام آباد اپنی روایتی بے حسی کے گھن چکر میں ان معذور اور نابینا افراد کو چکر پے چکر لگواتے رہے اور غریب محنت کش کی روزانہ کی مزدوری کرائے کی نذر کرواتے رہے۔پندرہ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد خادم حسین اور اس کے معذور بچوں کی آج تک نہ سنی گئی اور ان کی والدہ بھی پانچ بچوں کی معذوری کے غم کو دل سے لگا بیٹھی اور عرصہ چار سال سے چلنے پھرنے سے معذور ہوگئی ہے اب جگر کا عارضہ بھی لاحق ہوچکا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ بچے جوان ہو چکے ہیں مگر اپنی معذور وی کے سبب اس بے حس اور ظالم دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں سوشل سیکٹر اور نام نہاد این جی اوز اور مخیر حضرات خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں لاکھوں روپے سیمینار ز ،تقریبات ، فوٹو سیشن اور ریفریش منٹ کے نام پر اڑا دیے جاتے ہیں لیکن کوئی بے بس، مجبور، لاچاراور معذور ان کی نگاہ کرم پر پورا نہیں اترتا ۔میرٹ اور حقائق کو مسخ کرنا اور سفارش کو پروموٹ کرنا ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے بغیر سفارش اور رشوت کے کسی مستحق بے کس و مجبور کی مدد کرنا ا ن کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف نظر آتا ہے

وزیراعلی پنجاب آجکل خوشحال پنجاب کا نعرہ بڑی شدو مد سے لگا رہے ہیں۔Development،روڈز ،بلڈنگز ،سکول وکالجز،پارکس بالخصوص تھیم پارک کا منصوبہ ہنگامی بنیادوں پر زیر غور ہے جس کا مقصد معاشرے کے افراد بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت تفریحی سر گرمیاں فراہم کرنا ہے کیونکہ نوجوان نسل صحت مند جسم اور دماغ کی حامل ہونے کے بنا پر ہی ملک وقوم کیلئے مفید اور معاون ثابت ہوسکتی ہے۔بڑی اچھی بات اور سوچ ہے۔ اس حوالے سے لاہور میں انٹر نیشنل سٹینڈرڈ کا تھیم پارک کا بنایا جانا بھی ایک خوش آئندبات اور قابل ستائش عمل ہے لیکن! وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف آپ نہ صرف لاہور ،پورے پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب کے بھی وزیر اعلی ہوتے ہیں جہاں پر لوگ پسماندہ ترین ،ترقیاتی کام ندارد ،کھیل کے میدان اور پارکس خواب کی سی حقیقت رکھتے ہیں یہاں پر بھی ترقیاتی کام، تعمیری منصوبے ،وسیع سٹرکیں اور پارک بنانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو باعز ت روز گار مہیا کرنا بھی جناب وزیر اعلی اور حکومت پاکستان کافرض اولین ہے۔ ان علاقوں میں حفظان صحت کے اصول ،پینے کا صاف پانی،روز گار کے حالات اور تعلیمی سہولیات دیوانے کا خواب معلوم ہوتے ہیں ۔غربت کی چکی میں پسے یہ لوگ تھیم پارک جیسی سہولیات تو نہیں مانگتے مگر کم از کم ان کو باعزت روزگار ،تعلیم ،صحت اور ذرائع آمد ورفت جیسی بنیادی سہولیات ہی فراہم کردی جائیں۔ خاص طور پر حالات سے ستائی ہوئی اور اﷲ کی طرف سے آزمائش میں ڈالی گئی اس معذور اور نابینا فیملی کو ایک معقول امداد کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے تاکہ ان کو بھی معاشرے میں دوسرے لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزارنے کے مواقع میسر آ سکیں کیونکہ تفریح اسی وقت بھلی محسوس ہوتی ہے جب انسان کا اندر خوش ،مطمئن اور پرسکون ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب افراد کو غربت کے جنجال ،دہشت گردی کے وبال ،عزتوں کے اچھال اور نفرتوں کے جال سے نکال کر باعزت روزگار فراہم کیا جائے۔ ایک مرتبہ پھر میں اپنی اس بات کو دوہراؤں گا کہ وزیر اعلی پنجاب روایتی انداز سے ہٹ کر سنجیدگی سے اس معذور اور نابینا گھرانے کی کفالت کا کوئی مستقل بندوبست فرما دیں تاکہ یہ لوگ اس معاشرے میں جینے کے قابل ہوسکیں۔یہ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے اور شایدبلکہ یقینا تھیم پارک اور اس جیسے منصوبوں سے کئی درجہ بہترہے۔
 

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 212129 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More