نامعلوم

راتیں بڑی تاریک ہیں، دن کے اجالوں میں بھی روشنی نہیں، آسمانی گال بھی آنسوؤں سے تر نظر آرہے ہیں، زمینی دنیا بھی علماء اور طلباء کا خون پی پی کر ہمت ہارتی نظر آرہی ہے، انسانی چہروں پر بھی بے بسی عیاں ہیں۔ کہ یہ روز ،روز علماکا قتل، دینی کارکنان کا قتل،تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کا قتل، مساجدمیں جمعات مبارکہ میں ہونے والے دھماکے، مسلسل مدارس کے معصوم نواں،بے بس و بے کس، بے اسلحہ و بے سامان طلباء پر ظالمانہ ، جابرانہ اور ایک قسم کے بزدلانہ یہ حملے اور کارروائیاں، عام شہر کے باسیوں کا یہ قتلِ عام․․․․ایک نہ تھمنے والا یہ سلسلہ کبھی رک بھی پائے گا یا نہیں؟؟ابھی ذہن انھی سوچوں میں گم تھاکہ دل کے پردوں کو چھیرتی ہوئی ایک اور خبر نے دل میں بسیرا کر لیا اور وہ یہ کہ پشاور میں تبلیغی جماعت کے مرکز میں نامعلوم افراد کا زوردار دھماکہ۔۔۔اتنے شھید اور اتنے زخمی۔ خبر سنی اور سننے کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتا تھا سوائے دعا کے ۔ لیکن یہ نامعلوم !!کا لفظ سنتے ہی ذہن سوچوں کی دنیا میں غرق ہوگیا کہ ارے بھائی!کیا اس نا معلوم کے لفظ کے کبھی یہ’’نا‘‘مٹ بھی سکے گا یا نہیں؟؟لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی کان کے دروازواں پر دستک دے رہی تھی کہ اگر ہماری حالت یہی رہی جو ہے پھر تو بڑا مشکل ہے کہ یہ نامعلوم دنیا ہی میں کبھی معلوم بھی ہو جائے۔

اور دوسری بات !!جان کی امان کہ اگر ہماری طرف سے کوئی صدائے احتجاج بلند ہو کہ ان علماء و طلباء کو کس جرم کی پاداش میں قتل کیا جا رہا ہے تو اس دجالی میڈیا پر واویلا مچ جاتا ہے اور اگر دوسری طرف سے توپ کے گولے بھی آرہے ہوں تو یہ کہہ کرکہ’’مفادات کا حصہ ہے‘‘بات کو گھما پھرا دیا جاتا ہے۔ ارے ہم کب تک ان مفادات کا حصہ رہیں گے ؟؟یقینا ہمیں ان مفادات کے اس ہولناک شکنجے سے نکلنا ہوگا۔ مسلمانوں کی اس مظلومیت کو دیکھ کر اقبال ؒکا یہ کلام کانوں پر دستک دیتا ہے کہ۔ارے مسلمانوں؟؟
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کر جائیں تو چرچا نہیں ہوتا

کیا علماء کے قاتل ہمیشہ نامعلوم ہی رہیں گے؟؟اور کیا یہ ظالم اسی طرح ماؤں کی گودوں کو اجاڑتے رہیں گے؟؟اور کیا نئی نویلی دلہن اسی طرح اپنے ہاتھ کی مہندی کو دیکھتی رہیگی کہ اسکا سہاگ کبھی واپس آسکے گا؟؟اور کیا ان ظالم قاتلوں کو کبھی عدالت کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکے گا؟؟یقینا یہی سوال مختلف ذہنوں میں آتے ہوں گے؟؟اگر آج نہیں تو کل ضرور مظلوم کا ہاتھ ہوگا اور ظالم کا گریبان۔اس سے پہلے کہ کل ہمارے گریبانوں میں ان مظلوموں میں سے کسی کا ہاتھ ہو تو ہمیں اس اذیت سے بچنا ہوگا۔ اگر اس ذلت سے بچنا ہے تو ہمیں آج ان مظلوم علماء و طلباء کا ساتھ دینا ہوگا۔

اورمحترم قارئین!اس نامعلوم کو معلوم میں بدلنے کا اس رہتی دنیا میں ایک ہی راستہ نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ عالم ِ اسلام کے مسلمان متحد و متفق ہو کر اس ملت ِ کفریہ کے خلاف اپنے پنجے گاڑ کر ،انکو عہدِ فاروقی کی یاد دلاکر انھیں ناکوں چنے چبوا کراور ان مسلم ممالک سے انکو اور انکے نوازوں کو دم دبا کر بھگا کر،انکو پوری دنیا میں رسوا کراکر اور انکے خلاف علمِ جہاد بلند کر کے’’اﷲ اکبر‘‘کا نعرہ بلند کرتے ہوئے انکے مخالف سمت کھڑ ے ہوکر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں۔ اگر مسلمان آج اسکا پختہ عزم کرلیں تو وہ دن دور نہیں کہ انہیں بھی ربِ فاروقِ اعظم ، فاروقِ اعظم( جیسا جلیل القدر،نڈرو بے باک، بے خوف و بے خطر، زمین جس کی لاٹھی سے لرزتی اور رکتی، خشک دریا جس کے خط کو دیکھ کر مرغ ِ بسمل کی طرح تڑپ رواں، اور رواں دریاں اسکے خط کے ٹکڑے کو کر خشک ہو جایا کرتے تھے)جیسا امیر المؤمنین عطا کردے۔
مسلمانوں آؤ!!آج ہم یہ عزم کر لیں کہ!!
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے۔

Amir Ahmed Usmani
About the Author: Amir Ahmed Usmani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.