ویلنٹائن ڈے، فحاشی کا دوسرا نام؟

وقت تیز رفتاری سے گذرتا جا رہا ہے۔گذرتے وقت کے ساتھ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ عقائد و نظریات اور روایات کی تبدیلی کا عنصر نمایاں ہے اور خطرناک بھی،گذرتے دن کے ساتھ نت نئے نظریات نے حضرت انسان کو شش و پنج میں مبتلا کر رکھا ہے ۔مشرق میں بسنے والی قوموں نے اپنی تہذیب و روایات سے منہ موڑ کر مغربی ثقافت کو گلے لگایا جس کا خمیازہ بگڑی ہوئی نوجوان نسل کی صورت میں ملا ۔آج مغرب کے دانش وربھی پریشانی کی تصویربنے اپنے بنائے ہوئے مختلف ناموں کے دنوں کو کوس رہے ہیں،راستے تلاش رہے ہیں بے ہودگی اور فحاشی سے دور جانے کے۔ مگر ہم ہیں کہ ان کی بے ہودہ راویات کے امین بنے نجانے کیوں اپنی ثقافت سے جان چھڑارہے ہیں؟مغرب کے بعض بے ہودہ دنوں نے تو مشرقی راویات اور اسلام کی سرعام دھجیاں بکھیری مگر ہم چپ کی تصویر بنے سب دیکھتے رہے اور نجانے کب تک یوں ہی دیکھتے رہیں گے۔ کچھ عرصہ قبل ایک کتاب ہاتھ لگی اس پڑھنا شروع کیا تواس کے سحر میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اور گہرائی میں چلا گیا۔ اس میں بڑے ہی عمدہ انداز میں لکھا گیا تھا کہ عقائد و نظریات کے علاوہ جس چیز سے کوئی قوم دوسری قوم سے جداگانہ حیثیت اور امتیازی شان کو برقرار رکھ سکتی ہے، وہ اس تہذیب و ثقافت اور طرز تمدن ہے۔ عقائد اور تہذیب کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی قوم ہاتھ دھو بیٹھے تو اس کی امتیازی شان ختم ہو جاتی ہے۔ عقائد و نظریات کی بنیادوں پر تہذیب و ثقافت کی عمارت کھڑی ہے۔ اس طرح ثقافت کسی بھی قوم کے نظریات کا اظہار ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی قوم اپنی ثقافت اپنے عقیدہ کے برعکس ترتیب دے تو اس کا عقیدہ بے حقیقت ہو جاتا ہے۔ اور وہ قوم اسی قوم کی نسبت اور عقیدہ سے پہچانی جاتی ہے جس کی ثقافت کو وہ اپناتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک ہندو مسلمانوں کی مسجد میں نماز پرھے، روزے رکھے، لباس مسلمانوں جیسا پہنے اس کے اُٹھنے بیٹھنے کا انداز مسلمانوں جیسا ہو تو لوگ اسے مسلمان ہی سمجھیں گے۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی مسلمان ہندو طرز حیات اختیار کرے اور ان کی تقریبات منائے تو اسے بھی یہی سمجھا جائے گا کہ یہ عقیدہ تاً تو مسلمان ہے مگر عملاً ہندو ہے۔ چونکہ کسی بھی انسان کے جسم میں اس کے عقیدہ کی جڑیں اس کے عمل کے ذریعہ مضبوط ہوتی ہیں۔ اس لئے جب اس کا عمل جاتا رہے گا تو پھر اس کا عقیدہ بھی جاتا رہے گا اور یوں وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اسی لئے ہمارے پیارے نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اُنہی میں سے ہے‘‘۔

ویلنٹائن ڈے بھی ایک شرمناک تہوار ہے۔ اس گندے دن کو سادہ الفاظ میں ’’اظہار محبت کا دن‘‘ کہا جاتا ہے اس دن مغرب زدہ ذہین اور ہوس کے پجاری جسم اپنی خواہشات پوری کرتے ہیں۔ اس تہوار میں حصے لینے والوں میں زیادہ تر اداکار، گلوکار، کرکٹر اور اکثر امیر گھرانوں کے بگڑے ہوئے بچے شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عمومی سطح پر بھی لڑکے لڑکیاں بھی اس گھٹیا عمل میں بُری طرح ملوث ہوتے ہیں۔ اس تہوار میں لڑکے اور لڑکیاں اسلام کی بتائی ہوئی تمام اخلاقی دیواروں کو پھلانگ دیتے ہیں۔ معاشرے میں بُرائی پھیلانے میں ویلنٹائن ڈے کا اہم کردار ہے۔ یہ دن ہر سال 14 فروری کو منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کو پاکستان میں بھی بڑے زور شور سے منایا جاتا ہے۔ تحفے تحائف اور کارڈز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث میں حضرت محمدؐ نے فرمایا:
’’جب تجھ میں شرم نہ رہے تو جو چاہے کر‘‘

اب ذرا اس حدیث کے تناظر میں اس دن کو پرکھیں تو یہ دن انسان اور حیوان میں فرق مٹاتا ہے۔ جس انسان میں شرم و حیا نہ ہو تو وہ انسان انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ مغرب کے آزاد معاشرے کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے انسان سے شرم و حیا اور عزت کو چھین کر جنسی تسکین میں اُسے حیوان کے برابر لاکھڑا کیا جائے تاکہ ماں، بہن اور بیٹی یا بیوی کے درمیان مقدس رشتوں کی جو دیواریں کھڑی ہیں ان کو گرا دیا جائے۔ ویلنٹائن ڈے بھی انہی سازشوں کی ایک کڑی ہے۔

ویلنٹائن ڈے کا آغاز کہاں سے ہوا؟ اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں ملتی۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق اس کا تعلق رومیوں کے دیوتا لوپرکالیا (Luper Calia) سے ہے۔ جہاں بطور تہوار کے یہ دن منایا جاتا ہے اور بعض کے مطابق اس کا تعلق سینٹ ویلنٹائن سے ہے۔ برکیف یہ بات تو پکی ہے کہ اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ غیر مسلموں سے ہے۔ ویلنٹائن ڈے سے متعلقہ مختلف روایات میں سے ایک مستند روایت یہ ہے کہ یہ دن رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے جسے محبت کا دیوتا بھی کہتے ہیں۔ اس روایت کے مطابق ویلنٹائن نامی شخص کو مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید رکھا گیا لیکن بعد میں سولی پر چڑھا دیا گیا۔ قید کے دوران ویلنٹائن کی جیلر کی بیٹی سے دوستی اور محبت ہو گئی۔ سولی پر چڑھائے جانے سے پہلے ویلنٹائن نے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوادعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا تمہارا ’’ویلنٹائن‘‘ اور یہ واقعہ 14 فروری 429ء کو رونما ہوا۔ یوں محبت کرنے والوں کے لئے ویلنٹائن کو پیش رو تسلیم کیا جانے لگا اور اس کی یاد میں 14 فروری یوم تجدید محبت بن گیا۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ عیسائی شخص کے مرنے پر مسلمانوں میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ یہ تو برحق ہے کہ یہ تہوار مسلمانوں کا نہیں اور ایسا تہوار اسلام اور مشرقی روایات کے سراسر منافی ہے۔

یہ تحریر بعض قارئین کے ذہنوں پر بجلی بن کر گرے گی ، مجھے تنگ نظر، طالبان، روایتی مولوی جیسے القابات سے نوازا جائے گا۔ کیوں کہ میں نے نوجوانوں کے درمیان حاہل وہ دیوار جس نے انہیں اسلام اور مشرقی روایات سے دور رکھا ہوا ہے وہ ہٹانے کی کوشش کی۔ آج کیا کوئی شخص یہ برداشت کرے گا کہ اس کی بہن، بیٹی یا بیوی کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی،بیوی وہ اس کی ہو اور محبت کسی اور سے کرے ؟ایک عجیب وغریب قسم کی دلیل دی جاتی آخر محبت کے دن کو منانے میں کیا حرج محبت باپ اپنی بیٹی سے بیٹا اپنی ماں سے بھی تو کرتا ہے،لازم تو نہیں کہ اپنی محبوبہ کو ہی اظہار محبت کے تحائف تقسیم کریں؟ ایسے دلائل پیش کرنے والوں کے لیے عرض ہے ۔فیملی والوں کے لیے پیار کا ایک دن مخصوص کرناکہاں کا انصاف ہے ۔خاندان والوں کے لیے تو ہر دن پیار کا دن ہونا چاہیے،اور ویلنٹائن نے اپنی ماں،باپ،بہن یا بیٹی کو تومحبت کے پھول پیش نہیں کیے تھے۔تو پھراس دن کو اس کے نام کے ساتھ کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟اگر آپ کو یہ دن منانے کا اتنا ہی شوق ہے تو کیوں نہ اسے ’’بردار اینڈسسٹرڈے‘‘کا نام دے کرپیار کایہ دن منا لیں۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اﷲ رب العزت فرماتے ہیں:
’’بے شک وہ لوگ جو ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لئے دنیا و آخرت میں درد ناک عذات ہے‘‘۔

مگر اﷲ رب العزت کی طرف سے اس سخت وعید کے باوجود مسلمان کہلوانے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں باہم محبت بھرے جملوں، پھولوں اور ویلنٹائن ڈے کارڈز کا تبادلہ کرکے اسلامی تہذیب اور طرز معاشرے کے منہ پر گویا تمانچہ رسید کرتے ہیں مگر یہ نادان تو اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ اسلامی معاشرت کو رسوا نہیں کر رہے بلکہ اپنی عافیت برباد کر رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے پاکستان بنا کر اس کلچر سے چھٹکارا حاصل کیا اب یورپین بے حیائی درآمد کرنے کا مقصد ہے اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ طوفان کا آغاز بگولوں سے ہوا کرتا ہے۔ سمندر میں اُٹھنے والی تباہ کن موجیں پہلے چھوٹی چھوٹی لہروں سے جنم لیتی ہیں اس طرح معاشرے کی بربادی کا آغاز چھوٹی چھوٹی اخلاق سوز حرکات سے ہوتا ہے۔ خدارا ویلنٹائن ڈے کو قومی تہوار کی شکل نہ دی جائے کیوں کہ مغرب میں رہنے والے پاکستانیوں نے بھی اسے نہیں اپنایا ممکن ہے چند نوجوان حصہ لیتے ہوں مگر والدین نے اور اکثریت نے اسے پسند کی نگاہوں سے نہیں دیکھا اس لیے اس بُرائی سے دور رہے وگرنہ ہمارے جیسے ہزاروں افراد کا جو صرف پاکستانی معاشرتی اقدار کی خوبصورتی اور کشش کی وجہ سے پاکستان واپس آئے ہیں اُن کا دل ٹوٹ جائے گا۔ آج ہم یورپ کی نقالی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ یہ دن ان 52000شہداء کی یاد میں منا لیں جنہوں نے پاکستان کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانا پیش کیا ۔ چن اﷲ رب العزت سے دُعا ہے کہ مغرب اور اسلام دشمن کے ہر اُوچھے ہتکھنڈوں اور اُن کے گندے تہواروں سے محفوظ فرمائے ہر قسم کے شر سے اُمت مسلمہ کو بچائے ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور ہمارے پیارے دیس پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)

Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 51686 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More