ایک امریکی پندرہ روزہ اخبار کرانیکل آف فیلین
تھراپی نے 2013 ء کے دوران سب سے زیادہ چندہ دینے والی امریکا کی 50 شخصیات
کی فہرست تیار کی ہے ۔ان 50 شخصیات نے تقریبا 7۔7بلین کا چندہ دیا ہے ۔کالم
کے دامن اور اپنے قارئین کے قیمتی وقت کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے میں صرف
مذکورہ اخبار کی رپورٹ میں شامل ابتدائی پانچ شخصیات کے بارے میں لکھوں گا
۔ اس اخبار کے مطابق فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور ان کی اہلیہ پرسیلا
چین نے 2013 ء میں امریکا میں سب سے زیادہ خیرات دی ہے۔انھوں نے فیس بک کے
اٹھارہ ملین حصص چندے میں دیے ۔ جن کی مالیت تقریبا 992 ملین ڈالر ہوتی ہے
۔انھوں نے یہ رقم سلیکون ویلی کمیونٹی فاؤنڈیشن کودی ہے ۔واضح رہے کہ اس
جوڑے نے 2012 ء میں بھی اتنی ہی رقم دی تھی ۔ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ
چندہ جارج مچل نے دیا ۔انھوں نے تقریبا 750 ملین ڈالر چندے میں دیے ۔تیسرے
نمبر پر سب سے زیادہ چندہ فلپ نائٹ اور ان کی اہلیہ نے دیا ہے ۔ انھوں نے
تقریبا 500 ملین ڈالر چندے میں دیے ۔ انھوں نے یہ رقم آرگن ہیلتھ اینڈ
سائنس یونی ورسٹی فاؤنڈیشن کو دی ہے ۔چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ رقم دینے
والے مائیکل بلومبرگ ہیں ۔انھوں نے 452 ڈالر عطیہ کیے ہیں ۔انھوں نے یہ رقم
آرٹس ، تعلیم ، ماحول اور عوامی صحت وغیرہ جیسے میدانوں میں خر چ کی ہے ۔پانچویں
نمبر پر سب سے زیادہ چندہ جان اور ان کی اہلیہ لارا ارنلڈنے دیا ہے۔اس جوڑے
نے تقریبا 269 ملین ڈالر چندے میں دیے ہیں۔
خیرات یا چندہ دینا ایک بہت ہی اچھا عمل ہے ۔ اس سے معاشرے میں پھیلی غربت
کے خاتمے میں مدد ملتی ہے ۔پھر اسلام میں تو صاحب ِ ثروت لوگوں پر زکوۃ فرض
کردی گئی ہے ۔پاکستان میں غربت کس طرح بڑھ رہی ہے ، اس کا اندازہ صرف ان
بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافے سے لگایا جا سکتا ہے ، جو
خصوصا مساجد کے دروازوں پر اور عموما گلیوں گلیوں گھوم پھر کر بھیک مانگتے
نظر آتے ہیں ، پہلے صرف معذور لوگ ہی بھیک مانگتے نظر آتے تھے ۔ لیکن اب تو
اچھے خاصے "جینٹل مین" قسم کے لوگ بھی ہاتھ پھیلائے نظر آتے ہیں ۔پہلے شاید
ہی کسی نے "باپردہ " فقیرنی دیکھی ہوگی۔ اب آپ روزانہ ان کا بھی مشاہدہ کر
سکتے ہیں ۔یہاں اگر چہ اس حقیقت کا کلیاتی طور پر انکار عبث ہے کہ کچھ لوگ
عادت سے مجبور ہو کراور اپنی فطری کاہلی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ، لیکن اس
حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر شخص کو عز ت پیاری ہوتی ہے ۔ مہذب
اور غیرت مند شخص کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس پر بھیک مانگنے کی وجہ سے
فقرے کسے جائیں ۔ کوئی مہذب خاتون یہ نہیں چاہے گی کہ وہ گلیوں گلیوں گھوم
کر، بھیک مانگ کر اپنے بچوں کی روٹی روزی کا بندوبست کرسکے ۔ ان فقیروں میں
سے اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے ۔جو غربت کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں یا بے روز
گاری کے ترسے ہوئے ہوتے ہیں ۔
ایسے موقع پر جب کہ وطن ِ عزیز کی غربت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہاہے ،
ہمارے ملک کے امیر لوگوں پر اس بات کی بڑی بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
وہ بہ نظر ِ غائر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور بلا دریغ غریبوں پر خرچ
کریں۔ وہ زکٰوۃ کے ساتھ ساتھ خیرات ، صدقات اور عطیات کو بھی یقینی بنائیں
۔یاد رکھیے کہ راہ ِ خدا میں دینے سے دولت بڑھتی ہے ، نہ کہ کم ہوتی ہے
۔سورۃ البقرۃ کی آیت 261 میں ارشاد ِخداوندی ہے :
" جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس
دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو دانے ہوں ، اور
خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے ، زیادہ کرتا ہے وہ بڑی کشائش والا (اور) سب
کچھ جاننے والا ہے ۔"
یہ بات لائق ِ تحسین ہے کہ وطن ِ عزیز میں ایسی شخصیات بھی رہائش پزیر ہیں
، جنھوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کو وظیفہ ِ حیات بنا رکھا ہے ۔ تاہم اس
کام کو وسیع پیمانے پر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اتنا وسیع پیمانے پر کہ
ہمارے پیارے ملک میں ایک بھیک مانگنے والا بھی نہ رہے ! میرے خیال میں
ہمارے ملک کے امیر طبقے کے لیے یہ کام مشکل نہیں ہوگا ۔ |