آج میں ایک دوست کے ہمراہ CMH گیا- میں نے وہاں سے اپنا
ایک میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹ بنوانا تھااور دوسرا ایک دوست کے لئے ---!! پرچی
والے کے پاس گیا اور اس سے دریافت کیا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ کہاں سے بنے گا-
اس نے بتایا کہ یہیں سے بنے گا- ایک بنوانا ہے یا دو؟ میں نے کہا دو . . .!
کہنے لگا ٹیسٹ لکھواؤں یا فٹنس؟ ٹیسٹ پر پانچ سو لگے گا- میں نے کہا: آپ
سادہ فٹنس کے ان فارمز پر سائن کروا دیں جو میں نے آپ کو دئیے ہیں- کہنے
لگا: بیس روپے نکالو- میں نے اس کو بیس روپے دئیے تاکہ پرچیاں لیں سکیں- وہ
اپنے کیبن سے نکلا اور ڈاکٹر کے کیبن کی طرف جانے لگا-اس نے ہمیں اپنے ساتھ
آنے کا اشارہ کیا- ہم اس کے قدموں سے قدم ملا رہے تھے کہ اچانک اس نے مجھ
سے مخاطب ہو کر کہا:بھائ بیس روپے دو ناں- میں نے سوچا کہ شاید مجھے اس کو
پیسے دینا یاد نہیں رہے سو میں نےجیب سے بیس کا نوٹ نکالا اور جب اسے دینے
کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اچانک مجھے یاد آگیا کہ میں اسے پہلے ہی ادائیگی
کرچکا ہوں اور اس نے مجھے چٹ بھی نہیں دی- یہ خیال آنا تھا کہ میں نے ہاتھ
کھیچنا چاھا لیکن اس وقت تک پیسے اس کے ہاتھ میں پہنچ چکے تھے -میں نے کہا
بھائ صاحب میں تو ادائیگی پہلے ہی کرچکا ہوں- یہ پیسے مجھے واپس دیں- میری
بات سن کر وہ شخص مسکرایا اور پیسے جیب میں ڈال دئیے جو دوست میرے ھمراہ
تھا اس نے مجھے ٹہوکادیا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رھنے کا اشارہ کیا
اور میں الجھن کا شکار ہونے کے باوجود دوست کے کہنے پرچپ ہوگیا-
ہم جب سرٹیفکیٹ بنا کر باہر نکلے تو میں نے اس سے پوچھا کہ اس شخص نے جو
بعد میں وصولی کی وہ کیوں کی اور آپ نے مجھے پیسے لینے کیوں نہ دئیے؟ کہنے
لگا؛ یہ اس کے چاۓ پانی کا خرچ تھا- میں نے کہا: تو یہ رشوت تھی؟ کہنے لگا:
ہاں بس یہی سمجھ لو- میں نے کہا کہ استغفراللہ گویا میں نے اسے بیس روپے
رشوت دی ہے؟ کہنے لگا:بیس نہیں چالیس- میں نے کہا کہ بیس تو میں نے پرچی کے
دئیے تھے- کہنے لگا: تو پرچی کہاں ھے؟اور جناب اتنے پریشان کیوں ھوتے ھو اس
غریب کے بچے کو تم نے چالیس روپے ہی تو دئیے ہیں-ہم جو روزانہ ہزاروں اگر
نہیں توسیکڑوں روپے فضول میں اڑا دیتے ہیں- میں نے کہا کہ افسوس اس بات کا
ہے کہ رشوت کی جس لعنت سے آج تک بچا رہا آج ان پیسوں کے ذریعے اس کا طوق
گلے میں پڑ گیا- وہ کہنے لگا: یار اس میں تیرا کوئ قصور نہیں اس دور میں اس
کے سوا کوئ چارہ نہیں- تم گلٹی محسوس نہ کرو اور کون سا . . .
اس کی بات ابھی ختم نہ ھوئ تھی کہ ہمارے قریب سے گزرتے ایک باباجی نے ہمیں
کراس کیا اورمیرے سامنے رک کر مجھے گھورتے ہوۓ کہنے لگے : رشوت دینے والا
اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ھوتے ہیں اور تو بھی جہنمی بن گیا ہے-
میرادوست میری حمایت میں کچھ کہنے والا تھا کہ میں نے اسے روک دیا-آنکھوں
میں آنسو لئے میں اس شخص کو جاتے ہوۓ دیکھنے لگا جو یہ بات کر کےاپنے راستے
چلا گیا-
اور یوں میں اتنا بڑا گناہ کر کے جہنمی ھونے کا داغ لئے احساس ندامت کے
ساتھ دوست کے ساتھ قدم ملا کر چلنے لگا - |