مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ
نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ
جَمِيْعًا.
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے
(بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر
ڈالا۔‘‘
اپنے گھناؤنے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پُراَمن
انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والے کیسے دینِ امن و سلامتی کے علم بردار
بنتے ہیں؟ وہ اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کی قتل
و غارت گری میں مصروف ہیں جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
تو ایک مومن کے قتل کو بھی پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا
ہے۔ اِس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں : ’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی
اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور
تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پوری
نسل انسانی کو عزت، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام
ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر
میں (مقرر کی گئی) ہے۔ یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے۔‘‘لہٰذا کسی بھی
اِنسان اور کسی بھی مذہب کے پیروکار کو ناحق قتل کرنا، اُس کا مال لوٹنا،
اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ اس کے
مرتکب شخص کو الم ناک سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔ ذیل میں ہم قرآن و حدیث سے
متعدد دلائل و براہین پیش کریں گے جس سے یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی کہ اسلام
نے کس طرح غیر مسلم شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی تلقین
کی ہے۔دین اسلام میں کسی کو مسلمان کرنے کے لیے جبر کی اجازت نہیں ہے۔
اسلامی ریاست میں کسی بھی شہری کو جبراً مذہب بدلنے پر مجبور نہیں کیا جا
سکتا۔
1۔ اﷲ تعاليٰ کا فرمان ہے : لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ قف قَدْ
تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ. ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک
ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔‘‘ حافظ ابن کثیر اس آیت کی
تفسیر یوں بیان کرتے ہیں : لا تکرهوا أحدا علی الدخول فی دين الإسلام، فإنه
بيّن واضح جلیّ دلائله وبراهينه، لا يحتاج إلی أن يکره أحد علی الدخول فيه.
’’تم کسی کو دین اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہ کرو کیونکہ یہ دین واضح
اور نمایاں دلائل اور براہین والا ہے اور یہ اس چیز کا محتاج نہیں کہ کسی
کو مجبوراً اس میں داخل کیا جائے۔‘‘
اﷲ تعاليٰ نے لوگوں کو زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کرنے سے منع کر دیا
ہے۔ اس لئے غیر مسلم شہریوں کو اسلام میں داخل ہونے پر محبور نہیں کیا جائے
گا کیونکہ مسلمانوں کے ہاں ایمان محض ایک کلمہ نہیں جو زبان سے ادا کیا
جاتا ہے یا محض ایسے افعال کا نام نہیں جو بدن سے ادا ہوتے ہیں بلکہ اس کی
بنیاد دل کی تصدیق پر ہے، اس لیے اس باب میں جبر و اکراہ کی اجازت نہیں دی
گئی۔ یہ ہے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پہلو طالبان پتہ نہیں کس
شریعت کی بات کرتے ہیں جس کے بل بوتے پر وہ بندوق کے زور پر وادی کیلاش کے
غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں جو کہ خلاف شریعت ہے۔
دین میں نے بھی پڑھا ہے اور انھوںنے بھی فرق صرف پڑھانے والوں کا ہے۔ اشارہ
میں نے کر دیا ہے سمجھنا آپکا کام ہے۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔۔۔
طالب دعا عثمان احسان یوکے |