آج جبکہ عالم اسلام چاروں طرف سے
کفار کی سازشوں میں جکڑا ہوا ہے،تمام اہلِ اسلام پر بے حسی کی ایک گھٹا
چھائی ہوئی ہے۔کفارنے مسلمانوں کو ان کے مذہب و عقیدے سے بیزار کرنے کے لیے
جتنے حربے استعمال کیے مسلمان بے خبر فاختہ کی طرح ان حربوں میں جکڑتے چلے
گئے۔دین سے دوری کا یہ عالم ہے کہ آج ہم ابتدائی دینی تعلیمات سے بھی کورے
ہوگئے ہیں۔آج ہمارے نوجوانوں کو فلمی اداکاروں کے نام اور ان کا بایو ڈیٹا
تو اَزبر ہے مگراپنے پیارے نبی ﷺکے سب سے پہلے جانشین کا نام تک معلوم
نہیں!!!کیونکہ پیدائش کے وقت ان کے والدین نے انہیں اسلام کا اعزاز دینے کے
لیے رسمی طور پران کے کانوں میں اذان کے کلمات تو کہلوادیے تھے ،لیکن اس کے
بعد بچپن سے لڑکپن اور پھر لڑکپن سے جوانی تک ان کے کانوں آنکھوں اور ذہنوں
نے ،ٹی وی، سنیما، گیت، سنگیت ،موبائیل انٹرنیٹ ،انٹر ٹینمینٹ،تفریح، کے سو
ا کچھ نہ سنا نہ دیکھا․․․․پھر جوانی سے فکرِ معاش میں سرگرداں اس نوجوان کو
دین کا علم حاصل کرنے کے کے لیے فرصت ہی کہاں!!!بڑھاپے میں ریٹائرمنٹ کے
بعد اگر فضل الٰہی سے اس مسلمان کو دین کی رغبت ہو بھی گئی تو اب زبان اپنے
قابو میں نہ رہی کہ کلمہ طیبہ کے الفاظ تک صحیح طور پر زبان سے ادا نہیں ہو
پاتے!!!
بہرحال اس تمام تر صورتِ حال کادوش جسے بھی دیا جائے،لیکن اس کی اصل ذمہ
داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔کیونکہ اگر یہ اولاد پڑھائی کے معاملہ میں
سستی دکھائے تو والدین انہیں کوسنے،ملامت کرنے سے کبھی نہیں چوکتے ،حتی کہ
بسااوقات جوان اولادپر ہاتھ تک اٹھالیتے ہیں،لیکن انہیں کبھی اس بات کا درد
یا احساس تک نہیں ہوا کہ میرا بچہ یا بچی دین سے کتنے دور نکل گئے ہیں!!!
ایسے حالات میں والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ جہاں اپنی اولاد کا مستقبل
بہتر بنانے کی فکر میں ان کی پڑھائی کے سلسلے میں کسی قسم کا سمجھوتا نہیں
کرتے،اس سے کہیں زیادہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے کوشاں رہیں۔
اخلاقی تر بیت اور اخلاقی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی ، عبادت ،
محبت ، خلوص ، ایثار، خدمتِ خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے
ہیں۔ اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اور نیک معاشرہ کی تشکیل ہو سکتی ہے۔ اسی
لئے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو دور ِ جدید کی تعلیم کے ساتھ ساتھ
اخلاقی ودینی تعلیم کابھی ضروربندوبست کریں۔ |