باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

عقلمند ہمیشہ سوچ کر بولتا ہے جب کہ بے وقوف بولنے کے بعد سوچتا ہے مگر کئی ایک عقل کے اندھے تو بعد میں بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے،کبھی اپنی غلطی نہیں مانتے جس کی وجہ سے اصلاح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتانہ جانے دوسروں کو علم،حلم اور غرور و تکبر سے دور رہنے کی تلقین کرنے والوں کی اپنی گردنوں میں کتنے سینٹی میٹر کے سریے ہیں جو نہ خم ہوتے ہیں نہ پگھلتے ہیں،انسان ہیں غلطی کرتے ہیں اور پھر جھوٹی انا کی خاطر اس پہ ڈٹ جاتے ہیں اپنے آپ کو اہل علم و عقل دانش کا سرچشمہ قرار دینے والے باقی دنیا جہان کو جہلا کی فوج سمجھتے ہیں اور حیرانی تو اس بات کی ہے کہ ان پڑھے لکھے جاہلوں کو یہ زعم بھی ہے کہ ان کی کہی ہوئی خرافات عوا م من و عن تسلیم کرلیتے ہیں، قبلہ وہ دور تمام ہوا جب آپ گاؤں دیہاتوں میں وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اپنے سامنے براجمان لوگوں کو بار بار جاہل اور کم علم کہہ کر ان کی تضحیک کیا کرتے تھے یہ سوچے اور جانے بنا کہ اسلام کی تعلیمات کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے بارے میں کیا کہتی ہیں،آج جب لوگوں سے کہتے ہیں کہ:وفا کریں گے،نبھاہ کریں گے ،بات مانیں گے تو آگے سے جواب آتا ہے کہ کہ جناب:تمھیں بھی یاد ہے کچھ کہ یہ کلام کس کا تھا، آج دنیا گلوبل ولیج ہے مگر آپ کی بلا سے آپ کیا جانے کہ گلوبل اور ولیج کس چڑیا کا نام ہے،انہیں نہ اس سے کوئی غرض کہ دنیا ہمیں کیا سمجھتی ہے یا ہمارے یعنی مسلمانوں کے بارے میں دن بدن کیا تائثر تقویت پکڑ رہا ہے نہ ہی قوم و ملک کی کوئی پرواہ ،مگر بات یہاں تک ہی رہتی تو شاید کام چل جاتا مگر یہ تو ہر حد ہی پھلانگتے جا رہے ہیں،ایک نے کتے کو شہید کہا تو دوسرے نے امام حسین ؓاور یزید کی لڑائی کو دو صحابہ کے درمیان جنگ قرار دے دیا اور تیسرا سب سے نرالہ جو وجہ وجود کائناتﷺتک جا پہنچا،یہ الجھے ہوئے بے وقوف لوگ نجانے کیوں خود بخود ہی ہمارے ترجمان بن بیٹھے ہیں،کس نے انہیں حق دیا کہ جو منہ میں آئے بولتے چلے جائیں،اپنا نہیں تو کم از کم کسی کے جذبات کا ہی خیال کر لیں، افسوسناک ترین پہلوتو یہ ہے کہ دن رات شریعت شریعت کی جگالی کرنے والوں کو پتہ ہی نہیں کہ شریعت نام کس چیز کا ہے،ہمارے پیغمبر اعظم ﷺنے تو جانور کو بھی دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرنے کا حکم دیا،ان کے لاڈلے کون سی شریعت کے علمبردار ہیں جو انسانی نعشوں کی نہ صرف بے حرمتی کرتے ہیں بلکہ ان کے کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلتے ہیں،لائن میں کھڑا کر کے گولی مارتے ہیں آنکھوں پہ پٹی باندھ کے ہاتھ پشت پہ باندھ کے قصائیوں کی طرح ان کی گردنیں کاٹتے ہیں،اسلام تو مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے دوستی کے ساتھ ساتھ دشمنی اور امن کے ساتھ جنگ وجدل کے اصول وضوابط بھی وضع کیے ہیں،ایسے لوگوں کی وکالت اور اس میں اس حدتک آگے جانا کہ حد سے ہی گذر جانا،پرویز رشید کا بیان کہ انڈیا نے ہمارے نو ے ہزار فوجیوں کے گلے کاٹے نہ جنگ میں مرنے والوں کی نعشوں کی بے حرمتی کی ان نام نہاد شریعت کے علمبرداروں اور ان کے وکیلوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے مگر یہاں بے حسی کا راج ہے شاید ایسے لوگوں کے لیے ہی اﷲ کے نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ:جسے شرم نہیں آتی وہ اپنی مرضی کرے:نجانے کیوں یہ لوگ اتنے بے حس ہو چکے ہیں یا انہیں جانوں کا اتنا خوف ہے کہ ہر غلط کی ہاں میں ہاں ملائے چلے جا رہے ہیں،کبھی کتے کو شہید کہہ دیتے ہیں تو کبھی وقعہ کربلا کو حق وباطل کا معرکہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ،کہاں یا یزید اور کہاں میرے پیغمبر ﷺ کی آنکھوں کا نورعین حسینؓ،کہاں یزید اور کہاں آل رسولﷺ کی با عفت و باحیا بیٹیاں، اور یہ تو بالکل سچ اور واضح ہے کہ: نہ یزید کی وہ جفا رہی نہ زیاد کا وہستم رہا،رہا تو نام حسین ؓ جسے زندہ رکھتی ہے کربلا،اور یہ نام ہمیشہ زندہ رہے گا اسے کسی منوری سرٹیفکیٹ کی ضرورت بالکل بھی نہیں،قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے اور یہ وہ خون ناحق ہے جس پر قاتل یعنی یزید لعین بھی پچھتایا کہ یہ میں نے کیا کر دیامگر آج کے نام نہاد علماء جنہیں عالم کہنا یقیناًعلم کی توہین ہے نجانے کیوں یزید کو صحابی رسول ﷺثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر خاطر جمع رکھیں چاند پر تھوکنے والوں کا ہمیشہ اپنا منہ گندا ہوا ہے،ایک دوسرا جو کہتا ہے کہ رسول عربیﷺ بھی کسی دستور میں ردوبدل نہیں کر سکتے،اگر حد کی بات کرتا تو شاید شاید کوئی گنجائش نکل بھی آتی مگر بھولے بادشاہوں کو پتہ نہیں یا جان بوجھ کے انجان بنے ہوئے ہیں کہ شریعت ہے کس کی ،نظام ہے کس کا ،نماز کا حکم اﷲ نے دیا ترتیب کس نے بتائی،روزہ زکوٰۃاورحج کا حکم اﷲ نے دیا مگر طریقہ کس نے بتایا، بے شک کہ اﷲ کا رسول اﷲ کی بات کو نہ بدلتا ہے نہ جراء ت کر سکتا ہے مگر کئی ایک مواقع پر اﷲ کے نبیﷺ نے اپنے مالک کی منشاء سے امت کو رعایت ضرور دی ہے،اﷲ نے تمام قسم کے مردار کو حرام کر دیا کہ جو ذبح نہ کیا جا سکے اور مر جائے حرام ہے مگر اﷲ کے رسولﷺ نے مری ہوئی مچھلی کھانے کی اجازت مرحمت فرما دی،اﷲ نے قرآن میں حکم دیا کہ جب بھی نماز کے لیے جاؤ تو وضو کر ورحمت العالمینﷺ نے رعایت دے دی کہ اگر ظہر کی نماز ادا کی وضو قائم ہے تو عصر کی بھی اسی وضو سے پڑھی جا سکتی ہے،مگر ناز ہے طاقت گفتار پہ نادانوں کو بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں انسانوں کو ،مولانا شعلہ بیان نے جو شعلے اگلے انہوں نے نجانے کتنے حساس دلوں پر انگارے لوٹا دیے،میں حیران ہوں کہ کتے کو شہید کہنے والے صاحب ،واقعہ کربلا کو صحابہ کی جنگ قرار دینے والے اور نبی ﷺ کی ذات پر طبع آزمائی کرنے والے صاحب یہ ہیں کون کون ،ایک مفتی محمود کے فرزند ارجمند،دوسرے مولانا مودودی کے پیروکاراور تیسرے انتہائی واجب الاحترام مولانا عبدﷲ کے لخت جگر،کاش یہ اپنے آباء کا ہی کچھ پاس لحاظ کر لیتے،مگر نجانے یہ کس زعم میں مبتلا ہیں اور ان کی ترجیھات کیا ہیں ،ان کی تمام موشگافیوں کا ان کے اسلاف سے دورپرے کا بھی واسطہ نہیں نہ ہی کبھی مولانا مودودی،مفتی محموداور مولانا عبدﷲ نے اس طرح کی بے پرکیاں ارڑائیں،شاید ان تینوں کے بارے میں ہی شاعر مشر ق نے جواب شکوہ میں کہا تھا کہ،،
باپ کا علم جوبیٹے کو نہ ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو