کرکٹ میں باؤلنگ ہمیشہ دو طرح کی ہوتی آئی ہے ایک تیز
باؤلنگ اور دوسری سپن باؤلنگ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ باؤلرز بھی دو طرح
کے ہوئے ایک تیز رفتار باؤلرز اور دوسرے سپن بائولرز۔ ہر ملک کی ٹیم کا
کوئی نہ کوئی باؤلر اپنی خوبیوں کی وجہ سے علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ تیز
باؤلرز اپنی ان سوئنگ یا آؤٹ سوئنگ اور تیز رفتار یا باؤنسرز کی وجہ سے
بلے باز کو پریشان کرتے ہیں تو سپن باؤلرز اپنی نپی تلی باؤلنگ اور ورائٹی
کی وجہ سے بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچواتے ہیں۔ کرکٹ کی معروف ویب سائٹ نے
سدا بہار باؤلرز کی ایک فہرست مرتب کی ہے جس کے مطابق یہ باؤلرز اپنی
غیرمعمولی کارکردگی کے اعتبار سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، ان میں حیران کن
فاسٹ باؤلرز ہیں تو اپنی انگلیوں کی جادوگری سے بلے بازوں کو تگنی کا ناچ
نچانے والے سپنرز بھی شامل ہیں۔
|
مرلی دھرن
لیجنڈری مری دھرن کو اس فہرست میں سرفہرست رکھا گیا ہے۔آج کل جس طرح کرکٹ
میں تیزی کا عنصر شامل ہوا ہے، کرکٹر جس تیزی سے آتے ہیں اسی تیزی سے غائب
ہوجاتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شائد مستقبل میں کوئی بھی باؤلرز مرلی
دھرن کے معیار اور ریکارڈ کو چھو نہیں سکے گا۔ مرلی دھرن نے کرکٹ کے میدان
میں جو نام کمایا ہے وہ اس کھیل کی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ وہ آف بریک رائٹ
ہینڈ باؤلر تھا جس نے بین الاقوامی کرکٹ میں 13 سو سے زائد وکٹ حاصل کئے
اور ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی اوسط چھ وکٹ فی میچ اتنی زیادہ ہے کہ کوئی دوسرا
باؤلر ان کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتا۔ مرلی دھرن نے جب گالے میں 800 وکٹ کے
حصول کی کوشش کی تو شائد اس وقت سری لنکا کا ہر باؤلر اس آخری وکٹ کو
حاصل کرنے سے دانستہ گریز کر رہا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ ماضی میں
پاکستان کے خلاف انیل کمبلے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ پر ایک ہی اننگز میں 9
وکٹ لینے کے بعد 10ویں وکٹ کی کوشش کر رہے تھے تو ان کے ساتھی باؤلر اس
دسویں وکٹ کو خود حاصل کرنے سے دانستہ بچنا چاہ رہے تھے۔ بہرحال اس میں شک
نہیں کہ یہ کھلاڑی کی اپنی ذاتی صلاحیتوں اور اس کی قسمت پر بھی منحصر کرتا
ہے اور مرلی دھرن نے واقعتاً اپنی باؤلنگ کی صلاحیتوں کا لوہا ساری دنیا
سے منوا لیا ہے۔ 800 وکٹوں کے اس کارنامے کے ساتھ ساتھ مرلی دھرن نے انڈیا
کے خلاف 100 وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ بھی بنایا ہے۔ ان 100 وکٹوں کے حصول
کے دوران انہوں نے ایک ہی ٹیسٹ میچ میں 2 مرتبہ 10 وکٹیں لیں اور 7 مرتبہ 5
وکٹیں لی ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ ریکارڈ کے مطابق مرلی دھرن دنیا کے واحد باؤلر
ہیں جنہوں نے میدانِ کرکٹ کے تمام 9 آفیشل ممالک کے خلاف ایک میچ میں 10
یا 10 سے زائد وکٹیں حاصل کی ہیں۔ سب سے کم وکٹیں انہوں نے پاکستان کے خلاف
حاصل کی ہیں جس کی تعداد 80 ہے۔ |
|
شین وارن
باؤلرز کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آسٹریلیا کے بہترین باؤلر شین وارن کا
نام آتا ہے۔وہ 13ستمبر 1969ء کو وکٹوریہ آسٹریلیا میں پیدا ہوئے۔ کرکٹ کے
اس ماڈرن دور میں ان کی لیگ سپن نے سپن باؤلنگ کو ایک نئی شناخت دی اور لوگ
آج بھی ان کے خوفناک تیز اور نپے تلا فلپر اور حیران کن لیگ بریک یاد کرتے
ہیں۔ انہوں نے کرکٹ کا آغاز 1992 میں انڈیا کی ٹیم کے خلاف کیا اور اگلے
ہی سال وہ نیوزی لینڈ جانے والی ٹیم کے ون ڈے سکواڈ کا بھی حصہ بنے۔ انہوں
نے اپنے انٹرنیشنل کیریئر میں ہزار سے زائد وکٹ لئے۔ آج کل آسٹریلوی سپنر
شین وارن نے بطور سپن کنسلٹنٹ کرکٹ آسٹریلیا سے معاہدہ کر لیا ہے جہاں یہ
شہرہ آفاق سپنر اگلے ماہ یعنی مارچ کے دوران بنگلہ دیش میں شیڈول آئی سی
سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے لیے آسٹریلین سپنرز کو تربیت دیں گے۔ وہ دورہ
جنوبی افریقہ کے دوران ٹی ٹوئنٹی سکواڈ کو جوائن کر کے ٹیم کوچ ڈیرن لیہمن
کی مدد کریں گے۔
|
|
وسیم اکرم
کرکٹ کی تاریخ میں وسیم اکرم کو ایک غیرمعمولی متاثر کرنے والے فاسٹ باؤلر
کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وسیم اکرم کے کیریئر کی ابتدا 1984ء میں ہوئی
اور اپنی ریٹائرمنٹ تک وہ پاکستانی ٹیم کا ڈریسنگ روم کا ایک اہم حصہ رہے۔
وسیم اکرم نے 19 سال تک بطور آل راؤنڈر اپنے شائقین کو محظوظ کیا اور آج
بھی ان کے مداحین کی بڑی تعداد انہیں یاد کرتی ہے۔ وہ کرکٹ کی تاریخ کے
واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچز میں دو مرتبہ ہیٹ ٹرک کی وہ اس وقت
دنیا کی مختلف ٹیموں کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ کام کر رہے ہیں۔ وسیم اکرم 1966ء
میں لاہور پیدا ہوئے۔ 6۔1985ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف کرکٹ کیرئر کا آغاز
کیا اور پاکستان کی طرف سے 104 ٹیسٹ اور 356 ون ڈے کھیلے ۔ ون ڈے کرکٹ میں
500 وکٹیں لینے والے پہلے باؤلر کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اپنے 18 برس کے
کیریئر میں وسیم اکرم نے ون ڈے میچوں میں 3717 اور ٹیسٹ میں 2898 رنز بنائے
جبکہ باؤلنگ میں انھوں نے پانچ سو چار وکٹیں ون ڈے میں اور 414 وکٹیں ٹیسٹ
میں حاصل کیں۔ وسیم اکرم 2003ء میں کرکٹ سے ریٹائر ہوئے۔انھیں 2009ء میں
آئی سی سی ہال آف فیم میں بھی شامل کیا گیا۔وسیم کے ریورس ان سوئنگر نے
بہت لوگوں کو پریشان کیا۔نامور آسٹریلوی بیٹسمین رکی پو نٹنگ نے اعتراف
کیا کہ انہیں پاکستان کے فاسٹ بالر وسیم اکرم کا سامنا کرنے سے ڈر لگتا تھا۔
ان کا کہنا تھا اپنے کیرئیر کے دوران انہوں نے جن دو خطرناک ترین باؤلرز
کا سامنا کیا ان میں ویسٹ انڈیز کے کرٹلی ایمبروز اور پاکستان کے وسیم اکرم
شامل ہیں۔
|
|
گلین میگرا
فاسٹ باؤلنگ میں دہشت کی علامت گلین میگرا کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ انہوں
نے 1993 میں اپنا پہلا بین الاقوامی میچ یعنی ٹیسٹ کھیلا تھا اور اپنی
ڈیبیو سیریز میں غیر معمولی کارکردگی سے ناقدین اور شائقین کی توجہ حاصل
کرنے میں کامیابی پائی۔ انہوں نے اپنے 14 سالہ کیریئر میں 900 سے زائد وکٹ
حاصل کیے۔ فاسٹ بائولنگ کے حوالے سے وہ آج بھی دنیا میں ایک رول ماڈل کے
طور پر پائے جاتے ہیں۔ آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ مقابلوں میں انہوں نے سب سے
زیادہ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ 90 کی دہائی میں کرکٹ پر آسٹریلوی گرفت اور
شاندار کارکردگی میں بڑا حصہ میگرا کا خیال کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں
آسٹریلیا نے تین مرتبہ ورلڈ کپ جیتا تھا۔
|
|
ڈینس للی
کلاسک کرکٹ دیکھنے والوں کو ڈینس للی کا نہ صرف نام اچھی طرح یاد ہوگا بلکہ
ان کے یادگار میچ کی جھلکیاں بھی ان کے ذہن میں کہیں نہ کہیں ہوں گی۔
باؤلنگ کے حوالے سے بنائی جانے والی اس فہرست میں ڈینس للی کا نام پانچویں
نمبر پر آتا ہے۔ وہ پرتھ میں 18 جولائی 1949ء کو پیدا ہوئے۔ ٹیسٹ اور ون
ڈے میچ میں ان کا ڈیبیو انگلینڈ کے خلاف تھا۔ 1984ء میں ان کے کیریئر کا
خاتمہ ہوا تو اسی سال انہوں نے اپنے وطن کے لئے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کی
تھیں۔ انہیں 2009ء میں آئی سی سی ہال آف فیم کی فہرست میں بھی شامل کیا
گیا۔ ڈینس للی نے کرکٹ کے حوالے سے اپنے ملک کی گراں قدر خدمات سرانجام دی
ہیں۔ ڈینس للی کیریئر کے آغاز میں ہی کمر کی انجری کا شکار ہوگئے۔ لوگوں
کا خیال تھا کہ اب وہ دوبارہ کرکٹ نہیں کھیل پائیں گے مگر انہوں نے نہ صرف
کم بیک کیا بلکہ تاریخ کے بہترین بولرز میں سے ایک بن کر ابھرے۔ وہ ایک
شاندار ایتھلیٹک ایکشن کے مالک تھے۔ وہ اکثر اوقات بے قابو بھی ہوجایا کرتے
تھے۔1981-82 میں ان کا پرتھ میں جاوید میانداد کے ساتھ جھگڑا بھی ہوا ۔انہوں
نے -75 1974 کی ایشز سیریز میں انگلینڈ کے خلاف بہترین کھیل پیش کیا۔ للی
فاسٹ بولرز کے لئے ایک مثال کی طرح تھے کہ انہوں نے آنے والے برسوں کے لئے
کس طرح خود کو سنبھال کر رکھا۔ انجری کے سبب انہوں نے اپنے بولنگ ایکشن میں
تبدیلی کی۔ انہوں نے 70 ٹیسٹ میچز میں 355 وکٹیں لیں۔ 7 مرتبہ انہوں نے ایک
اننگز میں 10 وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیا جبکہ 23 مرتبہ 5 یا اس سے
زائد وکٹیں لیں۔ للی بیٹنگ بھی کرلیتے تھے۔ انہوں نے 1981 میں ہیڈنگلے میں
کھیلے گئے ٹیسٹ میں بہترین بیٹنگ کی۔ انہوں نے انگلینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ
میں المونیم بیٹ سے کھیلنے کی متنازع کوشش کی۔ جب وہ ریٹائر ہوئے تو اس وقت
وہ انہیں سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل تھا۔
|
|
سر رچرڈ ہیڈلی
رچرڈ ہیڈلی کا شمار نیوزی لینڈ کے بہترین آل راؤنڈر میں ہوتا ہے۔ انہیں
بھی ڈینس للی کی طرح 2009ء میں آئی سی سی کے ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔
دائیں ہاتھ سے اس مہارت سے باؤلنگ کرواتے کہ بڑے بڑے بلے بازوں کا پتہ پانی
ہو جاتا ۔ ان کا دلفریب ایکشن ان کی کارکردگی کو بڑھانے میں معاون رہا۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1973ء میں پاکستان کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ
کھیل کر کیا تھا۔ انہوں نے 1990ء میں کرکٹ کو گڈبائے کہا تھا۔ 1984 میں
انگلینڈ پر تباہی بن کر نازل ہونے والے بولر رچرڈ ہیڈلی تھے۔ ایک غیرمعیاری
پچ پر نیوزی لینڈ نے 72 اوورز میں 307 رنز اسکور کئے۔ ہیڈلی نے پہلے بیٹ کے
ساتھ اپنا جلوہ دکھایا۔ انہوں نے 81 بالز پر 18 چوکوں کی مدد سے 99 رنز
بنائے۔ یہ اس پورے میچ میں بننے والی واحد ففٹی تھی پھر ہیڈلی نے انگلینڈ
کی پہلی اننگز میں 16 رنز کے عوض 3 وکٹیں لیں اور فالو آن کے بعد دوسری
باری میں انہوں نے 28 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ یہ پورا میچ صرف
11 گھنٹے اور 41 منٹ تک جاری رہا۔ انگلینڈ کو ایک اننگز اور 132 رنز سے
شکست ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کیریئر کا واحد ٹیسٹ کھیلنے والے ٹونی پگوٹ
نے اپنی شادی اس میچ کی وجہ سے ملتوی کی تھی اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہ
اتنی جلدی ختم ہوجائے گا تو وہ کبھی اپنی ہونے والی بیوی کو انتظار نہ
کراتے۔
|
|
انیل کمبلے
انڈین کرکٹ کا ’’جمبو‘‘ انیل کمبلے 17 اکتوبر1970ء کو بنگلور میں پیدا ہوا
تھا۔اس رائٹ آرم لیگ سپنر نے اپنے وطن کیلئے بیش قیمت خدمات سرانجام دیں۔
ایک موقع پر وہ دنیا کے تیسرے بڑے باؤلر تھے۔ جنہوں نے سب سے زیادہ وکٹیں
حاصل کی تھیں۔ انہیں وزڈن کرکٹرز آف دی ایئر کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ وہ ان
چند ایک باؤلرز میں شامل ہیں جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میچ کی ایک اننگز میں 10
وکٹیں حاصل کی ہوں۔ 38 سالہ کمبلے نے ٹیسٹ کرکٹ میں 619 وکٹیں حاصل کیں اور
ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں وہ تیسرے سب سے کامیاب بولر رہے۔کمبلے نے اپنی
ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا اعلان دلی کے فیروز شاہ کوٹلہ میدان پر آسٹریلیا کے
خلاف تیسرے ٹیسٹ میچ کے بعد کیا تھا۔ اسی میدان پر انہوں نے پاکستان کے
خلاف ایک ہی اننگز میں دس وکٹیں حاصل کی تھیں۔ کمبلے نے 18 برسوں میں 132
ٹیسٹ کھیلے۔پاکستان کے خلاف صرف 74 رنز کے عوض دس وکٹ انہوں نے 1998 میں
حاصل کیے تھے اور کرکٹ کی تاریخ میں انگلینڈ کے جم لیکر کے بعد یہ کارنامہ
انجام دینے والے وہ صرف دوسرے باؤلر ہیں۔جنہوں نے ایک میچ میں دس وکٹیں
آٹھ مرتبہ حاصل کیں اور 35 مرتبہ پانچ یا اس سے زیاد وکٹیں لیں۔ 17 برس کے
ایک روزہ میچز کے کیریئر میں کمبلے نے کل 271ون ڈے میچیز کھیل کر 337 وکٹیں
حاصل کیں۔ ہندوستان کی طرف سے انیل کمبلے نے ون ڈے کرکٹ میں سب سے زیادہ
وکٹ حاصل کیے ہیں۔ ان کی سب سے اچھی پرفارمنس ویسٹ انڈیز کے خلاف ہے جس میں
انہوں نے بارہ رنز دیکر چھ وکٹیں حاصل کی تھیں۔
|
|
کرٹلی امبروز
ویسٹ انڈیز کی سرزمین فاسٹ باؤلنگ کے حوالے سے ہمیشہ زرخیز رہی ہے۔ اس رائٹ
آرم طویل القامت فاسٹ باؤلر نے اپنے کیریئر کا آغاز پاکستان کے خلاف
سیریز سے کیا تھا۔ 1988 کا سال کوٹلی ایمبروز کا تھا۔ ان کی یارکرز ہمیشہ
یاد رکھی جائیں گی۔
|
|
کورنٹی واش
کورٹنی اینڈریو واش 30 اکتوبر 1962 میں پیدا ہوئے اور 80 کی دہائی میں ویسٹ
انڈیز کی ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ ایک موقع پر
وہ ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر تھے۔ انہوں نے ون ڈے
کیریئر کا آغاز سری لنکا کے خلاف پہلا میچ کھیل کر کیا جبکہ ٹیسٹ میچز میں
ان کی انٹری آسٹریلیا کے خلاف ہوئی تھی۔ کورٹنی واش نے اپنی صلاحیتوں میں
نکھار لانے کے لئے انتھک محنت کی۔ میلکم مارشل اور کرٹلی امبروز کی طرح
انہوں نے بھی سہل پسندی کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ سخت محنت نے انہیں
بے رحم فاسٹ بولر بنا کر رکھ دیا۔ اپنے ابتدائی 63 ٹیسٹ میچز میں انہوں نے
پانچ مرتبہ 5 اس سے زائد وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیا جبکہ آخری 69
میچز میں 17 بار انہوں نے پانچ یا اس سے زائد کھلاڑیوں کو ایک اننگز میں
نشانہ بنایا۔ واش500 ٹیسٹ وکٹیں لینے والے تاریخ کے پہلے باؤلر تھے۔ ان کے
کیریئر میں کئی اہم مقامات آئے۔ 1992-93 میں ایڈیلیڈ میں انہوں نے
آسٹریلیا کے آخری کھلاڑی میک ڈرمٹ کو آؤٹ کر کے اپنی ٹیم کو صرف ایک رن
سے فتح دلائی۔ 1993-94 میں جمیکا میں مائیک اتھرٹن کو خوفناک بولنگ اسپیل
کرایا۔ ایک سال بعد کرٹلی امبروز کی غیرموجودگی میں انہوں نے بھارت میں
اپنی ٹیم کو تقریباً تن تنہا فتح سے ہمکنار کیا۔ اسی موسم سرما میں ویلنگٹن
ٹیسٹ میں کورٹنی واش نے صرف 55 رنز دے کر مجموعی طور پر 13 وکٹیں لیں۔ 2000
میں سلو ڈلیوری سے اولڈ ٹریفرڈ میں گراہم تھروپ کو آؤٹ کر کے والہانہ جشن
منایا۔ 2001 میں ٹرینیڈاڈ میں انہوں نے دوسری گیند پر جیک کیلس کو اپنی 500
ویں وکٹ بنایا۔ واش نے 1985 سے 1998 کے دوران گلوسٹر شائر کی جانب سے
بہترین پرفارمنس پیش کی۔
|
|
وقار یونس
لوگ وقار یونس کو ’’سلطان آف سوئنگ‘‘ اور پاؤں کے انگوٹھے توڑنے والے
باؤلر کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے انٹرنیشنل ون ڈے میچز کا آغاز
1989ء میں اپنے روایتی حریف انڈیا کے خلاف پہلا میچ کھیل کر کیا۔ وقار یونس
کی نپی تلی باؤلنگ کے علاوہ یارکر کو بڑے بڑے بلے باز بھی سمجھنے سے قاصر
رہتے تھے۔ انہیں گزشتہ برس آئی سی سی کے ہال آف فیم میں شامل کیا گیا تھا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور فاسٹ باؤلر
وقار یونس اور سابق آسٹریلوی وکٹ کیپر ایڈم گلکرسٹ کو ہال آف فیم میں
شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔آئی سی سی کی جانب سے پیر کو جاری ہونے والے
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں اس فہرست میں شامل ہونے والے بالترتیب
70ویں اور 71ویں کھلاڑی ہیں۔ ہال آف فیم میں شامل ہونے والے یہ پانچویں
پاکستانی کھلاڑی ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کے حنیف محمد۔ عمران خان۔ جاوید
میانداد اور وسیم اکرم آئی سی سی ہال آف فیم میں شامل کیے گئے تھے۔ وقار
یونس کو بورے والا ایکسپریس کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ انھوں نے 87 ٹیسٹ
میچوں میں 373 وکٹیں حاصل کیں جبکہ 262 انہوں نے ایک روزہ میچوں میں 416
وکٹیں لیں۔ 62 ایک روزہ میچوں اور 17 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی کپتانی کی۔
وقار یونس نے 22 دفعہ ایک اننگز میں پانچ یا اس سے زیادہ وکٹیں لیں جبکہ
پانچ دفعہ ایک میچ میں دس یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کیں۔ ٹیسٹ میں ان کی
بہترین بولنگ زمبابوے کے خلاف 135 رنز کے عوض 13 وکٹیں ہیں۔ایک روزہ میچوں
میں بھی وقار یونس کی کارکردگی متاثر کن ہے۔ وہ اب تک واحد باؤلر ہیں
جنھوں نے مسلسل تین ایک روزہ میچوں میں پانچ پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ ایک روزہ
میچوں میں ان کی بہترین کارکردگی انگلینڈ کے خلاف 36 رنز کے عوض سات وکٹیں
ہیں۔ 2003 میں کرکٹ کے عالمی کپ کے بعد ریٹائر ہونے کے بعد وقار یونس کرکٹ
کمنٹری اور کوچنگ کرتے ہیں۔ |
|