بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اسلامی نظام حیات نے ایسی جامع اقدارمتعارف کرائی ہیں جو اس پورے نظام کا
خاصہ ہیں اور اس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔اسلامی تصورزندگی کا
وہ سیاسی نظام ہو کہ اقتصادی ڈھانچہ،مذہبی رسومات ہوں یا پھر معاشرتی
روایات کا مجموعہ یا مجرد انفرادی و اجتماعی شخصیت کی تعمیر کے منفرد زاویے
ہوں یا پھر تعلیمی سرگرمیوں کامرکزومحور ہو،غرض یہ اقدارایسے شاہ کلید ہیں
جن سے پورے نظام کے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں جن جن مسائل کے
بڑے بڑے سے تالوں کے سوراخ میں گھماتے رہیں وہ تالے چشم زدن میں کھلتے
نظرآتے ہیں۔انسانی زندگی کی بے پناہ الجھی ہوئی معاشی واقتصادی ڈورکا بھی
ایک سرا اگر ان گرانقدراقدارکے ہاتھ میں تھما دیا جائے تووہ سارے گنجل ایک
ایک کر کے کھلتے اور سلجھتے چلے جائیں جنہیں صدیوں سے انسانی عقل نے
سلجھانے کی فکر میں اس قدر الجھادیاہے کہ بظاہر ان کا کوئی حل نظر ہی نہیں
آتااور اگرایک طرف سے کوئی سلجھاؤ کی صورت بنتی ہے تو چاروں دیگراطراف اسے
مزید گنجلک تر کر دیتے ہیں اور اس دلدل میں انسان ناک تک اتر کر قبر میں
سدھارجاتاہے اور منوں مٹی اگلی نسل کے کندھوں پر آن پڑتی ہے۔
تقوی کا لغوی مطلب’’بچنااورحفاظت کرنا‘‘ہے۔اپنے آپ کو مضرت رساں اشیاسے
بچانا بھی تقوی کہلاتاہے۔گھوڑے کے پاؤں کے نیچے لگانے والی نال اس لفظ کا
صحیح مطلب بیان کرتی ہے جواس جانور کو زمین کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ
رکھتی ہے۔پس یہی تقوی ہے کہ اس دنیاسے یوں گزرجانا کہ آلودگیوں سے اپنا
دامن بچارہے اور گندگیوں سے نامہ اعمال آلودہ نہ ہو۔تقوی دراصل اﷲتعالی کا
خوف رکھنا ہے اور ہر حال میں انسان خلوت میں ہویاجلوت میں اﷲ کو اپنے سامنے
پائے یا خود اپنے آپ کو اسکے سامنے محسوس کرے اور یہ تصور پختہ کرکے اپنے
قلب و ذہن میں راسخ کرلے کہ اسکا رب اسکو دیکھ رہاہے ۔اسے لوگوں اور دنیاکی
خوشی و ناراضگی کی کوئی پروا نہ ہو اور محض اپنے رب کی خوشنودی ہی اسے تمام
خوشنودیوں سے عزیز تر ہو اوراپنے رب کی نارضگی ہی اسے تمام رنجشوں سے بڑی
محسوس ہو۔ان سب باتوں کا تقاضا ہے کہ وہ ہرقسم کے گناہ سے اجتناب کرے خواہ
وہ گناہ چھوٹا ہو یا بڑاہو اور ایسے تمام امور جن کے بارے میں لوگ شکوک و
شبہات کا شکار ہوں کہ آیا وہ گناہ بھی ہیں یا نہیں کچھ لوگ انہیں جائز
سمجھتے ہوں اور بعض کے نزدیک اسے ناجائز گردانا جاتا ہو تب تقوی کا تقاضا
ہے کہ ایسے امور سے بھی گریزاں رہاجائے اور صرف ان ہی کاموں کو سرانجام
دیاجائے جن کے بارے میں قرآن و سنت نے واضع احکامات دے رکھے ہوں اور ہر شک
والے کام سے کوسوں دور رہاجائے۔تقوی کاایک بہت بڑا تقاضا اخلاص ہے ،کہ
ہرکام محض اﷲ تعالی کی رضا کی خاطر کیاجائے ،یہی ایمان بالآخرت کا خلاصہ ہے
کہ جب ہر اچھے برے عمل کابدلہ اﷲ تعالی نے دینا ہے تو پھر کسی اورکے لیے
کام کرناچہ معنی دارد؟؟نیکی کی تو بھی اﷲ تعالی کی خاطر اور بدی سے بچے تو
بھی اﷲ تعالی کی خاطر۔
تقوی کا مرکز دل ہے۔آپ ﷺنے تین بار دل کی طرف اشارہ کرکے فرمایاتھا کہ تقوی
یہاں ہے،تقوی یہاں ہے تقوی یہاں ہے۔دل میں تقوی ہونے کا مطلب ہے کہ تقوی
کسی ظاہری کیفیت کا اور خاص قسم کے لباس اور طور اطوار کا نام نہیں ہے بلکہ
یہ دل کی ایک خاص حالت کا نام ہے جو توجہ الی اﷲ کے ساتھ دل پر طاری ہوتی
ہے جس سے فطری طور پر انسان کے دل میں برائی سے نفرت اور بھلائی اور نیکی
سے محبت پیداہوتی ہے اورپھر انسان کو نیکی کرکے خوشی ہو اور برائی کے بعد
ندامت ہو تی ہے۔تقوی سے ہی نیکی کی تحریک ہوتی ہے اور نیکی کے نتیجے میں
بھی تقوی میں اضافہ ہوتاہے جس سے قرب الہی میسر آتاہے اور اﷲ تعالی کے
نزدیک مومن کی عزت میں اضافہ ہوتاہے۔تقوی کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد
باری تعالی ہے کہ:
’’اے لوگواپنے رب کاتقوی اختیارکرو۔‘‘22سورۃحج،آیت1
’’پس اﷲ تعالی کا تقوی اختیارکرو جتناتم کرسکتے ہو۔‘‘64سورۃ تغابن،آیت16
’’لوگواپنے رب کاتقوی اختیارکرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیداکیااور اسی جان
سے اس کا جوڑابنایااور ان دونوں سے بہت سے مرداورعورتیں دنیامیں پھیلادیے
۔اس خداکاتقوی اختیارکرو جس کاواطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے
ہو ۔‘‘4سورۃ نساء ،آیت1
’’اے لوگو تم پرروزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے
گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیارکرو۔‘‘2سورۃالبقرہ آیت183
’’نہ ان(جانوروں)کے گوشت اﷲ تعالی کو پہنچتے ہیں اور نہ خون ،مگراسے تمہارا
تقوی پہنچتاہے۔‘‘22سورۃ حج،آیت37
’’بے شک تم میں سے اﷲ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقوی
والا ہے۔‘‘49سورۃ حجرات،آیت13
تقوی کا مطلب ’’خوف خدا‘‘ہے۔جنگل کے اندرایک نوجوان اپنے خیمے میں چراغ کی
روشنی میں مصروف مطالعہ تھا،ایک بھٹکی ہوئی شہزادی نے اس سے پناہ چاہی وہ
اپنا چراغ لے کر باہر آگیا اور شہزادی خیمے میں سدھار گئی۔شیطان نے اس
نوجوان پر حملہ کیا ،اس نے اپنی چھوٹی انگلی چراغ کی لو میں جلائی ،تکلیف
ہونے پر کھینچ لی پھر اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اس آگ کوتو برداشت نہیں
کر سکے اس سے کہیں زیادہ دہکتی ہوئی دوزخ کی آگ کو کیسے برداشت کرو گے؟سات
دفعہ شیطان نے اس پر حملہ کیا سات دفعہ اس نے اپنی انگلی جلائی پھر بلآخراﷲ
تعالی کی رحمت نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
امیرالمومنین حضرت عمربن خطابؓ نے بزرگ صحابی حضرت ابی بن کعبؓ سے سوال کیا
تقوی کیا ہے ؟
انہوں نے جواباََ سوال کیا کہ اے امیرالمومنین کیا آپ کبھی کانٹوں والے
راستے سے گزرے ہیں ؟
ــ’’ جی ہاں‘‘
’’کیسے گزرتے ہیں؟
’’اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہوں تاکہ کوئی کانٹا ان میں الجھ کر انہیں داغدار نہ
کردے‘‘
فرمایا’’یہی تقوی ہے۔
تقوی سے انسان چھپے ہوئے بھی ناجائز آمدن سے پرہیزکرتاہے،وہ چھپ کر ملاوٹ
کر سکتاہے لیکن تقوی اسے ایسا کرنے سے روکتا ہے ،وہ بنک سے سود پر قرضہ
حاصل کرسکتا ہے اور بنک والے بار بار اسے اس بات پر آمادہ بھی کرتے ہیں
لیکن تقوی مانع ہے کیونکہ اﷲ تعالی نے سود سے سختی کے ساتھ منع فرمایاہے۔وہ
ناجائز منافع خوری کر سکتا ہے ،اگر وہ کہیں ملازمت کرتاہے یامزدوری کرتا ہے
تو کام چوری بھی کر سکتا ہے لیکن تقوی اسے سمجھاتا ہے وہ دراصل اپنے رب کے
ہاں جوابدہ ہے،آجر ممکن ہے اسکی چوری کو نہ پکڑ سکے اور اسے پوری تنخواہ یا
پوری مزدوری مل جائے لیکن تقوی اسے یہ درس دیتا ہے ہے یہ رقم حلال نہیں
ہوگی ۔وہ کسی کا حق مار سکتا ہے،رشوت کے ذریعے اپنے معیارزندگی میں اضافہ
کر سکتا ہے،جوئے کے ذریعے راتوں رات امیر ہو سکتا ہے،کمار بازی کے ذریعے
ساری مارکیٹ پر قبضہ کرکے اپنے مال کی قیمت اپنی مرضی سے
مقررکرسکتاہے،ملازمین کی تنخواہیں روک کر اپنے بنک میں رکھی ہوئی رقم پر
اضافی منافع حاصل کرسکتاہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے لیکن اگر اس کے دل میں تقوی
موجود ہو گا تو وہ ان سب سے رک جائے گا کیونکہ تقوی کا مطلب ہی رک جانا ہے
۔اور حقیقت یہ ہے کہ ان سب سے رک جانے والے یقینی طور پر دنیاکے بہت بڑے
مفادات سے محروم رہ جائیں گے لیکن ان کے رب کے جو کچھ ان کے لیے انعامات کے
طورپردھراہے وہ اسکا تصور بھی نہیں کر سکتے اور اسکے برعکس ان مفادات کو
حاصل کر چکنے والے جب دوزخ میں جل رہے ہوں گے تو سانپ ،بچھواور دیگر موزی
جانور ان کی طرف لپکیں گے اور وہ دور بھاگے گا تب یہ زہریلے جانور اسکو
کہیں گے اب ہم سے دور کیوں بھاگتاہے ہم وہی تو سونا چاندی ہیں جو دنیا میں
خوب سنبھال سنبھال کر رکھتاتھا۔ |