پاکستانی عورت !جہاں پر گھریلو
تشدد کا شکار ہے وہیں منفی رویوں ،امتیازی سلوک او ر بد ترین صنفی تعصبات
کا شکار بھی ہے آئے روز کے واقعات میں یہ عورت کہیں تیزاب گردی کی بھینٹ
چڑھائی جاتی ہے تو کہیں اجتماعی عصمت دری سے اس کی روح کو گھائل کیا جاتا
ہے۔کہیں پر گھر کی چاردیواری میں مقید کر کے اس کا استحصال ہو رہا ہے تو
کہیں سرعام عزت نیلام کی جارہی ہیں۔کہیں پر جہیز کی لعنت نے اس سے جینے کا
حق چھین لیا ہے تو کہیں کالی ،کاروکاری جیسی قبیح رسومات اسے زندہ درگورکیے
دے رہی ہیں۔اسے تعلیم سے دور رکھ کر ان کے بنیادی حقوق کو سلب کیا جارہا ہے
تو کہیں ان کو جسمانی طور پر غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے ۔پاکستان
میں95فیصد خواتین بہمانہ گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔پاکستان کی آدھی آبادی
خواتین پر مشتمل ہے۔ جس کے 75فیصد کو دیہی علاقو ں میں قبائلی سسٹم ،جاگیردارنہ
نظام ،سرمایہ دارانہ نظا م،وڈیرہ ازم کے تحت تعلیم سے دوری،ظالمانہ رسوم
ورواج، جنسی تشدد، ذہنی وجسمانی تشدد اور معاشی استحصال جیسے عوامل میں
پھنسا دیا جاتا ہے ۔اس پر ستم یہ کہ مذہب اورپردہ کے نام پر بھی عورت کو ہی
نشانہ بنایا جارہا ہے۔حالانکہ اسلام عورت کو برابر ی کے حقوق دیتا ہے اور
اس کی عزت وتکریم کواولیت دیتا ہے ،دین اسلام جس کی بنیاد ہی اقراء پر ہے
اس کے پیروکاروں کو پڑھنے لکھنے سے دور رکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا
یا جاتا ہے۔یعنی کہ ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی حد دیکھئے کہ اس بات کو تسلیم
کرتے ہوئے کہ جہاں بھی صنفی برابری ہے جس جگہ بھی عورت کو مساوی مقام حاصل
ہے وہاں پر ترقی ،معاشی خوشحالی،تعلیمی بہتری ،غربت میں کمی واضح طور پر
محسوس کی اور دیکھی جاسکتی ہے لیکن پاکستان میں صر ف کہنے کی حد تک عمل کیا
جارہا ہے سیڈا کنونشن کو مانا جارہا ہے۔ مگر اس پر حقیقی معنو ں میں عمل
درآمد نہیں کرایا جارہا ہے جمہوریت کا راگ الاپنے والے ممالک میں بھی صنفی
استحصال جاری ہے جب اس قسم کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو پھر 1908جیسی تحریکیں
پیدا ہوتی ہے کہ جب عورت اپنے حقوق لینے کیلئے اور اپنے خلاف ظلم وتشدد
جبرو استبداد کے خاتمے کیلئے سٹرکوں پر نکل آتی ہے پھر یہ سیل بے کراں اس
طرح بڑھتا اور پھیلتا ہے کہ راہ میں حائل رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح بہہ
جاتی ہیں اور اقوام متحدہ کو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ’’ وجود زن سے ہے
تصویر کائنات میں رنگ‘‘۔
8مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایاجاتا ہے جو کہ خواتین بالخصوص
ورکرز خواتین کیلئے نئی جہت ،نیاحوصلہ، تجدید عزم اور اوریقین محکم کا
پیغام لے کر آتا ہے یہ دن خواتین کی جہد مسلسل کی علامت ہے آج کے دن خواتین
کی صدائے احتجاج کو سنتے ہوئے قانون سازی کے عمل کا آغاز ہوا اور اس بات کو
تسلیم کیا گیا کہ خواتین منفی رویوں ،امتیازی سلوک اورصنفی تعصبات کا شکار
ہے۔ اسے ماں،بہن، بیٹی ،بیوی کا مقام تو دیا جاتا ہے ۔لیکن اس کے مطابق
تکریم اور احترام نہیں دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے لاقانونیت ،کرپشن، تعصب
فرقہ بندی کا ایک طوفان بدتمیز ی ہے جوکہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔جہاں
ان مسائل نے ملک و عوام کو گھیرا ہوا اس میں عورت کی تذلیل اور اسکی حیثیت
کو نہ ماننے کے فیکٹر کو واضح طور پر انوالوہیں ۔گھریلو تشدد ،بے جا سختیاں
،بد اعتمادی ،قید و بند،غربت وافلاس نے بھی عورت کے مقام کو گہنا دیا ہے۔
دین اسلام کی روح اور انساتی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر عورت کے ساتھ
انصاف کیا جائے تو پھر وہ اپنے لخت جگر کو گلا گھونٹ کر نہیں مارتی، پانی
میں ڈبو کریا پھر کھانے میں زہر دے کر ہلاک نہیں کرتی۔مغربی ممالک ،پاکستان
اور با لخصوص انڈیا میں عورت گھر یلو مسائل اور غربت کے ہاتھوں اتنا تنگ ہے
کہ اپنی کوکھ کو مستعار دے دیتی ہے۔اپنی کو کھ میں کسی اور کیلئے بچے کی
پرورش کرتی ہے اور بچے کو پید ا کرنے کے بعد اسے اتنا حق بھی نہیں ہوتا کہ
اس کی ایک جھلک ہی دیکھ لے ۔کیا یہ انسانیت ہے؟ اس میں جمہوریت کہاں سوگئی
ہے ؟حقوق انسانی کے علمبردار کہاں گم ہوگئے۔کیا عافیہ صدیقی عورت نہیں ؟نا
م نہاد امریکی دعوے کھوکھلی دیوار ثابت ہوچکے۔ انسانیت کے حقوق کی پاسداری
کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔امریکہ ہوکہ انڈیا ۔چائنا ہوکہ بنگلا دیش ،ملائشیا
ہوکہ افغانستان یا کہ پاکستان ہر ملک ہر خطہ ہر علاقے کی عورت عورت ہی ہوتی
ہے۔اس کی تکریم ،احترام اور برابری کی حیثیت دینا سب پر لازم ہے۔صرف ڈے
منانے سے یہ کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچیں گے۔ |